اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || 112 دن بعد، آج فہیمہ کو پتہ چلا کہ اس کے والدین (شہید ڈاکٹر ہاشمی تبار اور ان کی اہلیہ طاہرہ) شہید ہو گئے ہیں۔
"فہیمہ کی جان تو بچی؛ لیکن کیا بچنا!"
یہ شہید ایٹمی سائنسدان داریوش رضائی کی اہلیہ "شہرہ پیرانی" کی انسٹاگرام پوسٹ کا آغاز ہے۔
یہ مہینوں سے ہسپتال کے بستر پر پڑی ایک لڑکی کی حالت ہے جو اور اپنے والدین کی شہادت سے بے خبر تھی۔ فہیمہ شریف انڈسٹریل یونیورسٹی میں ماسٹرز کی طالبہ ہیں اور تہران یونیورسٹی میں بیچلرز کی پہلی سطح کی طالبہ تھیں۔
شہرہ پیرانی نے لکھا: آج ایک سو بارہواں دن ہے جب سے فہیمہ ہسپتال کے بستر پر لیٹی رہی ہیں۔ حملے کے بعد کے زیادہ تر دن انھوں نے اپنے خاندان والوں سے دور مصنوعی نیند میں، بے خبری میں، بے حرکتی میں اور کئی مشینوں سے متصل ہوکر گذارے۔ بالکل اسی دن جب سبزوار میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔
اگر میرے پاس فہیمہ کے زخمی ہونے کے پہلے دنوں کی کوئی تصویر ہوتی تو بلا شک آپ بھی میری طرح مان لیتے کہ فہیمہ کا زندہ بچنا اور ان کی آج کی حالت معجزے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ دماغی چوٹ، ریڑھ کی ہڈی کا فالج اور پھیپھڑوں کی خطرناک حالت نے بہت سے ڈاکٹروں کو مایوس کر دیا تھا، ہماری تو دور کی بات ہے۔ شاید واحد شخص جو کبھی بھی ناامید نہیں ہؤا وہ فہیمہ کا نوجوان شوہر حسین تھا۔
دو ہفتے پہلے جب ہم نے فہیمہ کو دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ خدا کے فضل سے ان کی یادداشت بہت حد تک بحال ہو گئی ہے، یا وہ لمحہ تھا جب انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کون لوگ شہید ہوئے ہیں؟
حسین نے فہیمہ سے کہا تھا کہ ان کے والدین زخمی ہوئے ہیں اور دوسرے ہسپتال میں ہیں۔ لیکن فہیمہ کے سوالات سے ظاہر ہوتا تھا کہ گویا وہ جانتی ہے کہ زخمی ہونے سے کچھ زیادہ واقع ہؤا ہے۔ آج خود کہہ رہی تھیں کہ 'میں جانتی تھی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں لیکن میں انکار کو ترجیح دیتی تھی۔' آج انھوں نے کسی بہانے سے انھوں نے اپنی خادمہ سے فون لے لیا اور انٹرنیٹ پر تلاش کرکے حقیقت جان گئیں۔
شہید پروفیسر اور ان کی شہیدہ اہلیہ
بنی نوع انسان کے بدترین دشمن کے ہاتھوں قتل ہوئے
انھوں نے کہا تھا کہ وہ مجھے اور آرمیتا کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہم پہنچے، جیسے ہی انھوں نے ہمیں دیکھا، رو پڑیں۔ میری خواہش تھی کہ میں زیادہ مضبوط ہوتی اور ان کے سامنے نہ روتی۔ وہ کہہ رہی تھیں: صرف تم ہی سمجھ سکتی ہو کہ میرا کیا حال ہے۔ میں نے کہا، پیاری بھانجی، ہاں، تم ٹھیک کہہ رہی ہو، ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کے دل میں کیا طوفان برپا ہے! وہ کہہ رہی تھیں: "میرے ماں باپ کی آرزو شہادت تھی۔ وہ اپنی آرزو پا چکے ہیں۔" وہ کہہ رہی تھیں: "میرے والد کو ہمیشہ چچا [شہید] داریوش سے رشک رہتا تھا!"
شہد سائنسدان سید اصغر ہاشمی اور ان کی اہلیہ کی نماز جنازہ
اور ہاں! فہیمہ ابھی تک بات نہیں کر سکتیں، یا تو وہ ٹائپ کرتی ہیں، 'یا حسین(ع)' ہونٹ پڑھ کر بتاتے ہیں، یا لکھتی ہیں۔ فہیمہ کو ابھی کھانا نگلنے میں دشواری ہوتی ہے اور انہیں ایک نلی کے ذریعے جو اس کے غذائی نالی سے جڑی ہے، کھانا پہنچایا جاتا ہے۔ فہیمہ ابھی چل بھی نہیں سکتیں...
لیکن فہیمہ میں آج بہت سی صلاحیتیں واپس آ گئی ہیں جو حملے کے بعد ختم ہو گئی تھیں۔ فہیمہ میرے لئے امید کی علامت ہیں، اللہ کے معجزے کی علامت ہیں اس حقیقت کی علامت ہیں کہ اگر خدا چاہے تو سب کچھ ممکن ہے...
کہہ رہی تھیں: میری خواہش ہے کہ آقا (رہبر انقلاب) کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔
حسین نےان سے پوچھا، "آقا کے پاس جاکر ان سے کیا چاہیں گی؟"
کہہ رہی تھیں: "میں کہوں گی کہ آپ میرے لئے دعا کریں!"
خدا کرے فہیمہ کی خواہش پوری ہو...
شہید ڈاکٹر پروفیسر سید اصغر ہاشمی تبار، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے اسٹریٹجک ڈیفنس سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ، نہ صرف ایک ماہر تھے بلکہ قومی سلامتی اورعظمت کے میدان میں ایک مفکر بھی تھے۔ سنہ 2019 میں امریکی محکمہ کی طرف سے ـ جوہری اور میزائل تحقیق و ترقی سے وابستہ سرگرمیوں کے نام پر ـ ان کا نام پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جانا، ملکی دفاع اور ثیٹرنس میں ان کے سائنسی اور علمی کردار کی اہمیت اور اثرات کا واضح ثبوت ہے۔
ایک دفعہ شہید ہاشمی تبار کے داماد نے شہید کے بارے میں کہا: "وہ علم و سائنس کو کام سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے: کام کے ساتھ ساتھ تعلیم ضرور جاری رکھنا؛ شہید ہاشمی تبار، علم و سائںس کو کو مزاحمت اور ترقی کا محور سمجھتے تھے اور نوجوان نسل کو بھی یہی رویہ اپنانے کی تلقین کرتے تھے۔ ان کی شہادت سے ایرانی سائنسی برادری، سائنسی میدان میں ایک انسانی اثاثہ کھو گئی ہے؛ ہم ایک ایسا سائنسدان کھو گئے جو جو ان طاقتوں کی براہ راست دشمنی کا نشانہ تھے جو ایران کی علمی عظمت کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔"
حساس علمی کوششوں کے ساتھ ساتھ، اس جوڑے کی ذاتی اور ازدواجی زندگی محبت، صبر اور نیکی کی مثال تھی۔ شہیدہ طاہرہ طاہری، اپنے سائنسدان شوہر کے ہمراہ، ایک ایسے راستے پر گامزن ہوئیں جو شہادت پر منتج ہؤا۔
ماں باپ چلے گئے اور فہیمہ رہ گئیں۔ وہ لائق بیٹی جو 112 دن تک بے خبری میں رہیں۔ وہ اب بھی اپنے زخموں سے متاثر ہیں؛ ان کے بولنے اور چلنے کی صلاحیت متاثر ہے، لیکن ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ ان کے ماں باپ کا راستہ سب سے روشن راستہ تھا۔ اس درد اور کمزوری کے باوجود، ان کی تمام آرزور ایک جملے میں سمٹ آتی ہے:
"میری آرزو ہے کہ رہبر معظم سے ملاقات کروں... میں کہوں گی کہ آپ میرے لئے دعا کریں!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: لعیا بغدادی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ