10 اکتوبر 2025 - 21:04
افغانستان کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، طالبان / یہ سب مزید نہیں چلے گا، پاکستان

تخریبکارانہ کارروائیوں میں شدت اور افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی تناؤ میں اضافے کے بعد، اسلام آباد نے کابل کو خبردار کیا ہے کہ وہ دہشت گرد کارروائیوں کا مقابلہ کرے، جبکہ طالبان نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے خلاف جنگ لڑنا چاہتا ہے تو امریکہ اور برطانیہ کے تجربے سے سبق سیکھ لے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || پاکستان کے وزیر دفاع 'خواجہ محمد آصف' نے روز جمعہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں خبردار کیا کہ "اگر افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں  بند نہیں ہوئیں تو کابل حکومت اور 'افغانستان میں دہشت گردوں کے حامیوں' کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"

انھوں نے ـ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ 'امیر خان متقی' کے دورہ ہندوستان کے موقع پر ـ کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کے خلاف متحدہ ردعمل تشکیل پانا چاہئے۔

خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ "اگر پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو ان علاقوں سے دہشت گردانہ حملوں کا نشانا بنایا جائے تو ہماری طرف سے غیر متعلقہ لوگوں کی ہلاکتیں خارج از امکان نہیں ہیں۔ اب بس کافی ہے (Enough is enough)۔"

پاکستانی وزیر دفاع نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسلام آباد جلد افغانستان میں ایک سفارتی وفد بھیجے گا تاکہ طالبان کو پاکستان کے خلاف حملوں میں مصروف گروہوں کے پناہ گاہیں تتاہ کرنے کی ترغیب دلائی جا سکے۔

انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے تین سال قبل، آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا اور افغان طالبان کے حکام سے ملاقات کی تو طالبان حکام نے تحریک طالبان پاکستان (TTP) گروپ کے اراکین کو سرحد پار منتقل کرنے کے لئے 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن انہوں نے دہشت گرد حملوں کے خاتمے کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی۔

اس کے جواب میں، ـ سرحدی کشیدگی میں اضافے کے بعد ـ امیر خان متقی نے اسلام آباد کو خبردار کیا کہ وہ "افغانستان کے ساتھ کھیلنے" سے باز آجائے اور اس ملک کو زیادہ مشتعل نہ کرے۔

انھوں نے کہا: "پاکستان کو افغانستان کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دینا چاہئے۔

انھوں نے حکومت پاکستان سے مخاطب ہوکر کہا: افغانستان کو مزید مشتعل نہ کرو۔ اگر تمہیں شک ہے تو انگریزوں سے پوچھو، یا امریکیوں سے؛ وہ شاید تمہیں سمجھا دیں گے کہ افغانستان کے ساتھ کھیلنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ ہم سفارتی راستے کے خواہاں ہیں۔"

یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ڈیورنڈ لائن پر فائرنگ اور فضائی حملوں کے تبادلے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

دونوں ممالک ایک دوسرے پر مسلح گروہوں کو پناہ دینے اور اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ یہ الزامات اس وقت سے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کر رہے ہیں جب 2021 میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تھے۔

ان الزامات نے سنہ 2021ع‍ میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha