اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ایک سابق اسرائیلی سفارتکار کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کو دباؤ میں آ کر قبول کیا ہے، حالانکہ یہ منصوبہ ان کی مرضی کے خلاف ہے۔
سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کے سابق قونصل جنرل آلون پنکاس نے کہا کہ نتن یاہو اس منصوبے پر مجبوراً رضامند ہوا ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کر رہا ہے، اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ بندی اب تک کیوں نہیں ہوئی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ دو بار اسرائیل سے بمباری روکنے کا مطالبہ کر چکے ہیں، لیکن اسرائیل نے ایسا نہیں کیا، جو کہ صدر کی ہدایات کے خلاف ہے۔آلون پنکاس کے مطابق ٹرمپ کا جنگ بندی منصوبہ بظاہر پیچیدہ ضرور ہے، مگر قابلِ عمل بھی ہے، اور اس میں جنگ بندی کو اگرچہ تحریری طور پر واضح نہیں کیا گیا، لیکن اس کا اطلاق منطقی طور پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں اس وقت بھی صورتحال نازک ہے:اب بھی مایوسی ہے، تباہی ہے، اور عوامی تکلیف واضح ہے۔تاہم، ٹرمپ کے بیانات نے عوام میں کچھ امید ضرور پیدا کی ہے، اور انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی عوام اب امریکی صدر کے مؤقف کے ساتھ ہم آہنگی محسوس کر رہے ہیں۔
آلون پنکاس نے مزید کہا:لوگ سمجھتے ہیں کہ کم از کم ٹرمپ یرغمالیوں (اسرا) کی رہائی کے لیے کوشش کر رہا ہے، جبکہ نتنیاہو نے پچھلے 9 ماہ میں، جب سے ٹرمپ نے صدارت سنبھالی ہے، ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔"
اسی دوران اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے بھی سی این این سے گفتگو میں کہا کہ:ٹرمپ کا منصوبہ محض خوش فہمی نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ اور قابلِ عمل خاکہ ہے۔دوسری جانب، قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کے مطابق، ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کی تفصیلات ابھی زیرِ غور ہیں۔سی این این نے ان کے حوالے سے کہا:“منصوبے میں بہت سی تفصیلات ہیں جن پر بات چیت ہونا باقی ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی میں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ (۱۵ مهر ۱۴۰۲) سے غزہ پر تباہ کن جنگ مسلط کر رکھی ہے، جس میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ غزہ میں قحط، تباہی اور انسانی المیہ شدت اختیار کر چکا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے نسل کشی پر مبنی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے۔
6 اکتوبر 2025 (14 مهر 1404) کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں فلسطینی اور اسرائیلی وفود کے مابین بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا تاکہ جنگ بندی کی تفصیلات طے کی جا سکیں اور اسرا کی رہائی کے لیے زمینی حالات سازگار بنائے جائیں۔ پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔
سی این این نے ایک سینئر حماس عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ دوحہ پر اسرائیلی حملے میں زندہ بچنے والے تین افراد بھی اس مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں جو اس وقت شرم الشیخ میں موجود ہے۔
آپ کا تبصرہ