4 اکتوبر 2025 - 23:40
شہید سید حسن نصراللہ کی کہانی جنرل قاآنی کے زبانی ـ 1

 شہید اسماعیل ہنییہ 7 اکتوبر سے بے خبر تھے / حزب اللہ نے ایک سال تک طاقت کا مظاہرہ کیا / غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کا آپریشن دراصل ایک الہی، اسلامی اور مذہبی فریضے کے طور پر اور مظلوموں کے دفاع میں شہید سید حسن نصر اللہ کی تدبر، حکمت اور درست فیصلے کے ساتھ انجام دیا گیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل الحاج اسماعیل قاآنی نے ٹی وی پروگرام "ہم عہد" میں شرکت کی اور کہا:  

جب غزہ میں آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا گیا، اسماعیل ہنیہ عراق جانے کے لئے ہوائی اڈے کی طرف جا رہے تھے اور واپسی پر انہیں اطلاع دی گئی۔

غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کا آپریشن دراصل ایک الہی، اسلامی اور مذہبی فریضے کے طور پر اور مظلوموں کے دفاع میں شہید سید حسن نصر اللہ کی تدبر، حکمت اور درست فیصلے کے ساتھ انجام دیا گیا۔

حزب اللہ نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور پشت پناہی میں سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کیا اور مقبوضہ علاقوں کے شمال میں آباد کاروں کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں۔

7 اکتوبر کو آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کے آغاز کے دن، لبنان پہنچ کر میں سوچ رہا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں سید حسن سے کیسے بات کروں اور کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے؛ لیکن بات شروع کرنے سے پہلے،  میں نے دیکھا کہ سید حسن نصر اللہ آپریشن شروع ہونے کے وقت سے ہی اپنے مذہبی اور الٰہی فریضے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔

قابل ذکر بات یہ تھی کہ ہمیں، سید حسن کو، اور حتیٰ کہ حماس کے اہم رہنماؤں کو اس آپریشن کے صحیح وقت کا علم نہیں تھا۔ جب غزہ میں آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا گیا، تو اسماعیل ہنیہ عراق جانے کے لئے ہوائی اڈے کی طرف جا رہے تھے اور انہیں واپسی پر اطلاع دی گئی۔

رہبر انقلاب نے مجاہدین کے اس اقدام کی تعریف کی

غزہ میں موجود کمانڈروں کی استقامت اور تدبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حساس آپریشن خاص احتیاط اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: "میں ان لوگوں کی پیشانیوں کو چومتا ہوں جنہوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا"، جس سے ان کے اقدام کی حکمت اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔

گوکہ کسی کو آپریشن کے آغاز کا علم نہیں تھا، لیکن شہید سید حسن نصر اللہ نے باریک بینی اور منظم طریقے سے مطلوبہ اقدامات کا خاکہ متعین کیا تھا۔

شہید نصر اللہ نے لبنان کے سماجی حالات کو سمجھتے ہوئے آپریشن کے آغاز کو درست وقت کے ساتھ مربوط کیا اور فیصلہ کیا کہ اسے رات کے وقت شروع کیا جائے جب جنوبی علاقہ پرسکون ہوتا ہے۔ یہ انتخاب ان کی دانشمندانہ اور فرض شناسانہ حکمت عملی کی واضح مثال تھی جس پر تیزی اور کامیابی سے عمل کیا گیا۔

سید المقاومہ نے پیجرز کے واقعے پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا

شہید سید حسن نصر اللہ نے اپنی شہادت تک کے نازک لمحوں میں صہیونیوں کو نفسیاتی اور فوجی جنگ میں تدبر اور استقامت کے ساتھ، چیلنج کیا۔

ایک مرحلے میں، سید المقاومہ نے تقریباً دو ہفتوں کے عرصے تک تقریر کا اہتمام نہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست کو خوفزدہ کئے رکھا اور ثابت کیا کہ وہ جنگ کے تمام پہلوؤں ـ بشمول فوج سے لے کر نفسیاتی کاروائیوں تک ـ پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔

پیجر دھماکوں کے تلخ واقعے میں ہزاروں افراد شہید اور زخمی ہوئے لیکن سید نصر اللہ نے مثالی استقامت کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور فرمایا: "اگر ہمارا معاشرہ حسینی نہ ہوتا تو یہ مصائب ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتے۔

ان کی روحانی اور تزویراتی نگاہ نے حزب اللہ اور عوام کو مشکل ترین حالات میں مستحکم رکھا۔ ان کو لاحق جانی خطروں کی بنا پر وسیع حفاظتی اقدامات کئے گئے لیکن آخر کار شہادت اس عظیم رہنما کا مقدر بنی۔

حزب اللہ نے جنوب میں اسرائیلی فوج کو ہلنے نہیں دیا

صہیونی ریاست حزب اللہ کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکی حالانکہ اس نے جنوبی لبنان میں اپنی ایک تہائی فوج کو مصروف کر رکھا تھا اور جنگ کا توازن حزب اللہ کے اقدامات کی وجہ سے، بگڑ گیا۔

کمانڈروں کی شہادت سے لے کر پیجر دھماکوں کے واقعے تک کئی صہیونی جرائم کے بعد آخر کار سید حسن نصر اللہ کی شہادت کا عظیم جرم رونما ہؤا۔

اس حملے میں بھاری بموں کے علاوہ کیمیائی مواد کا بھی استعمال کیا گیا اور یوں یہ صہیونی حملہ واضح جنگی جرم میں تبدیل ہو گیا۔

شہید سید نصر اللہ نہ صرف حزب اللہ کے لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے بلکہ لبنان کے لئے بھی ایک مضبوط پہاڑ سمجھے جاتے تھے؛ ایک پہاڑ جس پر شیعہ اور غیر شیعہ دونوں۔ مشکل ترین حالات میں بھروسہ کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha