بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ڈالر برسوں تک عالمی مالیاتی طاقت کا واحد معیار تھا۔ لیکن آج، امریکہ میں مالیاتی پالیسی بنانے والے کا ہر فیصلہ طاقت کے بجائے کمزوری کی علامت بن چکا ہے۔
فیڈرل ریزرو سود کی شرحیں زیادہ رکھ کر ڈالر کو عارضی طور پر پرکشش بنا رہا ہے، لیکن بین الاقوامی سطح پر، امریکہ کے تجارتی شرکاء اور جیو پولیٹیکل حریف زیادہ سے زیادہ راغب ہو رہے ہیں کہ غیر ڈالر میکانزمز (Non-dollar mechanisms) کو مضبوط بنائیں۔
یہی تدریجی اقدامات مستقبل میں واشنگٹن کی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی کو ہلا کر رکھ سکتے ہیں۔
ڈالر کی طاقت؛ ساختیاتی کمزوری کی ڈھال
اگرچہ مضبوط ڈالر امریکی معیشت کو زیادہ پُراعتماد 'دکھاتا' ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کی ضرورت سے زیادہ مضبوطی سے اس ملک کی اقتصادی ترقی اور برآمدات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
طویل مدت میں، یہ پالیسی امریکی طاقت کو مستحکم کرنے کے بجائے اس کی ساختیاتی کمزوریوں ـ جیسے بجٹ خسارے اور پیداوار میں مسابقت کی صلاحیت میں کمی ـ کو زیادہ نمایاں کرتی ہے۔
مالی بالادستی کے زوال میں تیزی
جب بھی امریکہ سود کی شرحیں بڑھا کر رکھتا ہے، دوسرے ممالک غیر ڈالر کرنسیوں میں لین دین کی طرف زیادہ راغب ہوجاتے ہیں۔ چین کے روس، ہندوستان اور عرب ممالک کے ساتھ دوطرفہ مالیاتی معاہدے اس رجحان کی واضح مثال ہیں۔
یہ آہستہ مگر مسلسل تبدیلی، عیاں کرتی ہے کہ ڈالر کی بالادستی زوال پذیر ہے؛ ایسا رجحان جو امریکہ کے دوستوں کو بھی اپنے مالیاتی ذخائر میں تنوع لانے پر مجبور کر رہا ہے۔
مالیاتی پالیسی پر حد سے زیادہ انحصار
امریکہ نے اندرونی سیاسی اختلافات کے سائے میں، معیشت کا بنیادی بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری فیڈرل ریزرو پر ڈال دی ہے۔ مالیاتی پالیسی پر حد سے زیادہ انحصار ساختیاتی کمزوری کی علامت ہے، کیونکہ سود کی شرح کا ہر فیصلہ بنیادی مسائل کے حل کے بجائے محض وقت خریدنے کا کام دیتا ہے۔ منڈکہں اس تاخیر کو امریکہ کی پالیسی سازی کی صلاحیت میں کمی کی علامت سمجھتے ہیں۔
جیو-پولیٹیکل خرچہ؛ ناراض اتحادی، بے باک حریف
ڈالر کی مضبوطی امریکہ کے اتحادیوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کے حریفوں کو زیادہ جرات مند بنا رہی ہے۔ یورپ اور جاپان درآمدی مہنگائی کے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، جبکہ روس اور چین آزاد مالیاتی ذرائع کی ترقی میں تیزی لا رہے ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ امریکی قیادت والے بین الاقوامی نظام (Order) کے کمزور پڑنے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے؛ ایسا نظام جس کا ستون ڈالر پر کھڑا تھا۔
پابندیوں کا 'امریکی اوزار" بے اثر ہو گیا ہے
ایرانی ماہر معاشیات محمد شعبانی، فارس نیوز ایجنسی کے نامہ نگار سے بات چیت میں کہا: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈالر کی مضبوطی امریکی طاقت کی واپسی کی علامت ہے۔ میرے خیال میں یہ نقطہ نظر سطحی ہے؛ کیونکہ آج کے ڈالر کی مضبوطی زیادہ تر "بجھنے سے پہلے کی تیز چمک" جیسا لگتا ہے۔
اس ماہر معاشیات نے کہا کہ اعلی شرح سود سرمایہ کاروں کو راغب کرتی ہے، لیکن یہ سرمایہ کاری عارضی طور پر پارک (یا اسٹور) ہو جاتی ہے۔ پس پردہ، دنیا تیزی سے متبادل نظامات تعمیر کر رہی ہے۔ جب سعودی عرب اپنے تیل کا کچھ حصہ یوآن میں فروخت کرتا ہے یا وسطی ایشیائی ممالک باہمی کرنسی میں تجارتی معاہدے کرتے ہیں، تو یہ ڈالر کی بالادستی کے زوال کے نمایاں اشارے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو، گذشتہ کئی دہائیوں میں، پہلی بار یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کے پابندیوں اور مالی دباؤ کا 'ہتھیار' اب پہلے جیسا مؤثر نہیں رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اتحادی بھی اپنے ذرائع متنوع کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ لہٰذا اگرچہ آج ڈالر مضبوط ہے، لیکن حقیقت میں امریکہ کا مالی ستون ٹوٹ رہا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو امریکہ کے مرکزی دھارے کہ ذرائع ابلاغ میں شاذ و نادر ہی بیان کی جاتی ہے۔
امریکہ کے زوال میں ایک اہم موڑ
آج جس چیز کو ڈالر کی "طاقت" کہلاتی ہے، وہ طاقت اور برتری کے بجائے، 'زوال کی علامت' ہے۔ مالی مارکیٹوں میں 'قلیل مدتی طاقت طویل مدتی اثرورسوخ کھونے کی قیمت پر' حاصل ہوتی ہے۔ اگر موجودہ رجحان جاری رہا، تو ڈالر شاید اب بھی غالب کرنسی رہے، لیکن وہ "بے رقیب اور ناقابِلِ سَبقَت" نہیں رہے گا۔ اور اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کے بتدریج زوال میں ایک اہم موڑ آگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ