بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || امریکی جریدے 'فارن افیئرز' نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کا جائزہ لیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے بعد ایک بار پھر اٹلانٹک کے دونوں جانب کے تعلقات میں "توازن" قائم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ نیٹو اتحاد میں پرانی بے ترتیبی اور واشنگٹن اور برسلز کے درمیان غیر منصفانہ تجارتی تعلقات کا جواب ہے۔
ٹرمپ کا ماننا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے مقابلے میں نیٹو میں بہت زیادہ بوجھ اٹھا رہا ہے۔ نیز یورپی یونین کی معاشی ساخت، جو ٹیرف (محصولات) اور سخت ضوابط پر مشتمل ہے، امریکی کمپنیوں کو یورپ کی منڈیوں تک آزادانہ رسائی سے روکتی ہے۔
یورپ پر کئی طرفہ دباؤ کا آغاز
صدر بننے کے پہلے ہی ہفتوں میں، ٹرمپ نے اپنے نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر دفاع پِیٹ ہیگستھ کو یورپی دارالحکومتوں میں بھیجا تاکہ واشنگٹن کی نئی پالیسی کا پر مبنی واضح پیغام پہنچایا یورپیوں تک پہنچا سکیں: "کھیل کے قواعد بدل گئے ہیں"۔
واشنگٹن کی توجہ اب یورپ کی سلامتی پر نہیں رہے گی
امریکی نائب صدر وینس نے پیرس میں یورپ سے توانائی اور مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبوں میں سخت قوانین میں نرمی کی اپیل کی۔ میونخ میں انھوں نے "مشترکہ مغربی اقدار" کی یورپی پابندی پر سوال اٹھایا۔ برسلز میں امریکی سیکرٹری دفاع نے اعلان کیا کہ واشنگٹن کی توجہ اب یورپ کی سلامتی پر مرکوز نہیں ہوگی۔ ان موقفوں کے متوازی، صدر ٹرمپ نے یورپی مصنوعات پر جرمانے پر مبنی محاصل (ٹیرفس) نافذ کئے تاکہ برسلز کو تجارتی رکاوٹیں اور امریکی کمپنیوں کے خلاف قوانین کم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
یورپ کے وعدے؛ ایک ناپائیدار کامیابی
اس کثیرالجہتی دباؤ کے کم از کم قلیل مدتی نتائج برآمد ہوئے۔ نیٹو اجلاس میں یورپی اتحادیوں نے 2035 تک اپنے دفاعی اخراجات جی ڈی پی کے 5 فیصد تک بڑھانے کا وعدہ کیا۔ نیز، صدر ٹرمپ اور یورپی کمیشن کی صدر اورسولا فون ڈیر لیین کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ ہوا، جس کے تحت یورپی یونین نے 2028 تک امریکہ سے 750 ارب ڈالر کی توانائی خریدنے اور امریکی مارکیٹ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عہد کیا۔
یورپ-امریکہ معاہدہ علامتی ہے اور اس کے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں ہے
تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ معاہدے حقیقی کامیابی کے بجائے زیادہ تر "علامتی" ہیں اور ان کے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ حکومتوں کے بدلنے اور اندرونی دباؤ کے پیش نظر یورپ کی طویل مدتی وابستگیاں ناقابل اعتماد ہیں، اور برسلز اپنے سخت قوانین میں اصلاحات کے خلاف اب بھی مزاحمت کر رہا ہے۔
نیٹو اور بحر بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) کی پالیسی پر بنیادی تنقید
واشنگٹن کے قریبی قلم کاروں کے خیال میں، ٹرمپ محض "سطحی اصلاحات" کے ذریعے یورپ کے ساتھ تعلق بدل نہیں سکیں گے۔ انہیں اٹلانٹک ازم (Atlanticism) کے ان بنیادی اصولوں کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا جو نیٹو کے قیام کے وقت سے ہی تین ستونوں پر قائم ہیں:
1۔ یورپ کو لاطینی امریکہ پر ترجیح دینا
2۔ معاشی تعاون کے بجائے بحراوقیانوس کے آر پار تعلق کو عسکریانا (militarize کرنا)
3۔ ایک علاقائی اتحاد کو عالمی نظریاتی (آئیڈیالوجیکل) فریم ورک میں ڈھالنا
ناقدین کے مطابق، ان انتخاب اب امریکہ کے لئے بھاری اخراجات برداشت کرنے کا سبب بنے ہیں، جس کی وجہ سے واشنگٹن کو ہمیشہ یورپ کی سلامتی کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے، جبکہ اسے کوئی قابل ذکر معاشی فوائد حاصل نہیں مل رہے ہیں۔
ٹرمپ کے دور میں "براعظمی پالیسی" کی طرف واپسی
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی نئی حکمت عملی میں امریکہ کی "براعظمی" پالیسی پر واپس جانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ نمونہ ہے جس پر جارج واشنگٹن کے زمانے سے لے کر مونروئے ڈاکٹرائن تک، زور دیا جاتا رہا ہے، جس میں خود کفالت اور مغربی نصف کرہ (ارضی) پر توجہ مرکوز کرنا شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس کے نقطہ نظر کے مطابق، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی طرف رخ کرنے سے لاطینی امریکہ، کیریبین اور جنوبی سرحدوں میں اہم مفادات کو نظر انداز کرنا پڑا ہے۔ یہ وہ خطے ہیں جو آج منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی تارکین وطن اور عالمی حریفوں کے اثر و رسوخ سے پیدا ہونے والے خطرات کا شکار ہیں۔
ٹرمپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکہ کو یورپ میں مہماتی مشنوں سے اپنے وسائل ہٹا کر سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانے، مغربی نصف کرہ میں معاشی ترقی اور توانائی اور ٹیکنالوجی اور اہم معدنیات کے شعبوں میں علاقائی تعاون پر مرکوز کرنا چاہئے۔
نیٹو میں امریکی فوجی کردار کی محدودسازی
• فوجی پہلو میں واشنگٹن نیٹو کے ساتھ اپنے وعدوں کو معاہدے کے آرٹیکل 5 کی محدود تشریح تک کم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ صرف لاجیسٹک اور معلوماتی مدد فراہم کرے گا، اور براہ راست فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔
• نئے منصوبے کے مطابق، جرمنی، پولینڈ اور رومانیہ میں تعینات امریکی فوجی آہستہ آہستہ واپس بلائے جائیں گے اور 'نیٹو کے ڈھانچے' میں کلیدی عہدے، یورپی افسران کے حوالے کئے جائیں گے۔
فوجی اتحاد سے ٹیکنالوجی کے تعاون تک
• نئے نقطہ نظر میں، امریکہ اور یورپ کے تعلقات کا رخ فوجی تعاون سے ہٹ کر معاشی اور تکنیکی شراکت کی طرف بدلے گا۔
• بنیادی توجہ مصنوعی ذہانت، دواسازی، اہم معدنیات اور خلائی و سائبر ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے پر ہو گی۔
• واشنگٹن اور برسلز کے درمیان حالیہ تجارتی معاہدہ نئے اقتصادی تعاون کے اداروں کے قیام کے لئے نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔
"ایشیا کی طرف رخ" نہیں، بلکہ "گھر کی طرف واپسی"
اگرچہ بہت سے مبصرین توقع کر رہے ہیں کہ ٹرمپ یورپ میں اپنی موجودگی کم کرنے کے بعد چین کے خلاف "ایشیا کی طرف رخ" (Pivot to Asia) کی پالیسی اپنائیں گے، لیکن ان کے قریبی مشیر انہیں پچھلی غلطیاں دہرانے سے باز رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مشرقی ایشیا میں نئے فوجی اتحادوں کا پھیلاؤ صرف امریکہ کی سرحدوں سے دور جھگڑوں کے اخراجات اور خطرات میں اضافہ کرے گا۔
اس کے بجائے، ٹرمپ "گھر کی طرف واپسی" (Return to Home) کے ایک محور کے خواہاں ہیں جس کا مطلب یہ ہے: داخلی ڈھانچے، تعلیم، قرضوں میں کمی اور لاطینی امریکہ میں سرمایہ کاری پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنا۔
اٹلانٹک اتحاد کی موت کا علاج!
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ اس توازن کو دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف یورپ میں امریکہ کے 75 سالہ یکطرفہ موجودگی کے تاریخی بوجھ کو ہلکا کریں گے، بلکہ بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں کے درمیان زیادہ حقیقت پسندانہ اور متوازن تعلقات کی بنیاد رکھیں گے۔ اس کے حامیوں کے مطابق، یہ حکمت عملی "بحیرہ اوقیانوس کے اتحاد کی موت" کا علاج کرے گی اور امریکی خارجہ پالیسی کو حقیقی قومی مفادات سے ہم آہنگ کرے گی۔
گوکہ دنیا جہان پر مالکانہ دعوے رکھنے والی عالمی سلطنت بھی خود بخود فنا ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی النک
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ