بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || "امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ان دنوں وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مہمان ہیں، نے غزہ کی جنگ کے لئے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اسے قبول نہ کرنے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس نے بھی اس 20 نکاتی منصوبے کو جاری کر کے ٹرمپ کے اس دعوے کو دہرایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ اس کا مقصد اکتوبر 2023 سے فلسطینی علاقوں میں جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔"
'نوبل امن انعام' یا 'طفل کُشی کا نوبل انعام'
ٹرمپ کا مبینہ امن منصوبہ ایسے وقت سامنے آيا ہے کہ غزہ پر صہیونی جارحیت کے دو سال ہو رہے ہیں جس میں 20 ہزار سے زائد بچوں سمیت 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہيں اور غزہ کھنڈر بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ غزہ میں اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہؤا ہے، جبکہ انسانی حقوق کے بعض اداروں نے پہلے ہی اس کی تصدیق کی تھی۔
ٹرمپ کا منصوبہ: امن پر کاغذ پر نسل کشی میدان میں
ٹرمپ کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک دوبار جنگ بندی ہوئی ہے اور اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کی ہے۔
پہلی جنگ بندی نومبر 2023 میں ہوئی جو ایک ہفتے تک جاری رہی اور صہیونی ریاست نے اس کی خلاف ورزی کی اور دوسری جنگ بندی دو جنوری 2025 کو ـ ٹرمپ کے اقتدار میں واپسی سے قبل ـ ہوئی اور طے یہ پایا تھا کہ اس کے دوران صہیونی ریاست مستقل جنگ بندی سے اتفاق کرے لیکن اس نے 18 مارچ کو دوبارہ حملہ کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اور مذاکرات کا عمل تباہ ہو گیا۔
چنانچہ ٹرمپ کے مبینہ امن منصوبے اور ان کے مبہم وعدوں کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے۔ اس منصوبے میں صہیونی ریاست کے جنگی جرائم اورانسانیت کے خلاف جرائم کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہؤا ہے اور اس کو جوابدہ بنانے کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
جنگوں کے خاتمے اور امن کے نوبل انعام کے لئے مناسب امیدوار بننے کے بارے میں ٹرمپ کی شیخیاں اب تک شکست کھا گئی ہیں۔ یہ امن منصوبہ امن کے سمجھوتے کے لئے نہیں بلکہ یرغمالیوں پر سودے بازی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
ٹرمپ 'نوبل کے بارے میں سوچتے ہوئے، سات جنگوں کے خاتمے کا دعوی کرتے ہیں لیکن وہ غزہ کی جنگ اور نہتے انسانوں کی مصنوعی بھکمری اور قتل عام کے خاتمے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں اور ان کے دعوے اب تک مزید فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام کا سبب بنے ہیں۔
'نوبل امن انعام' عالمی امن کو تقویت پہنچانے کے سلسلے میں، ایک معتبر عالمی انعام ہے۔ اس کی کمیٹی کے ارکان ناروے کی پارلیمان میں منتخب ہوتے ہیں؛ چنانچہ بعید از قیاس ہے کہ یہ کمیٹی ٹرمپ کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے دیں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ناروے یورپ کا حصہ ہے اور ٹرمپ عام طور پر یورپ کی تذلیل کرتے رہتے ہیں اور ناروے کے پڑوسی ملک ڈنمارک کے علاقے گرین لینڈ پر قبضے کےخواہاں ہیں؛ اور ٹرمپ نے نیٹو کو بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے جس کا ناروے بھی رکن ہے؛ وہ یورپی ملک یوکرین پر حملہ آور صدر پوٹن کی چاپلوسی کرتے ہیں اور یوکرین کے صدر کی تذلیل کرتے ہیں۔
امریکی صدور ہمیشہ نوبل انعام کے 'عاشق' تھے!
البتہ سابقہ بدنام امریکی صدر اوباما اور 'بموں کو سفارتکاری پر ترجیح دینے والے امریکی جنگی مجرم ہنری کیسنجر' کو بھی یہ انعام مل چکا ہے جس کی وجہ سے ٹرمپ غنڈہ گردانہ رویہ اختیار کرکے اس انعام کے حصول کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔
کچھ سیاسی شخصیات نے بھی ٹرمپ کے اس وہم کو ہوا دی ہے۔ یہ شعلہ ایران پر حملے کے چند ہی روز بعد امریکی فارماسسٹ اور ایوان نمائندگان کے ریپلکن رکن بڈی کارٹر (Earl LeRoy "Buddy" Carter) کے اقدام سے بھڑک اٹھا اور معاصر تاریخ کے بدنام ترین مجرم نیتن یاہو نے اس مسئلے سے ناجائزہ فائدہ اٹھا کر ٹرمپ سے اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لئے استعمال کیا۔
ٹرمپ کے وہم کے آس پاس نیتن یاہو کی نقل و حرکت اور ان کی خواہش پر اس کے انحصار کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ اسرائیلی حکومت کو 2024 کے نوبل امن انعام کے انتخاب کے ایام میں انتہائی خوفناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا؛ اور 2024 کے نوبل امن انعام کی تقریب کا غزہ پر اسرائیلی جنگ کی برسی کے کے موقع پر انعقاد، اُن امیدواروں کو انعام ملنے کے بارے میں قیاس آرائیوں کو تقویت دے رہا تھا جو اسرائیلی ریاست کے جرائم روکنے کی کوشش میں شامل تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: امیر حسین طیبی فرد
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ