بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے جمعرات کو مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو مسئلہ فلسطین پر قیادت دکھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے حکومت کے ردعمل کو بہری خاموشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار نے انسانیت اور اخلاقیات کو یکسر ترک کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے اقدامات بنیادی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے اسرائیلی ہم منصب بنجامن نیتن یاہو کے بیچ ذاتی دوستی سے متاثر ہوتے ہیں، نہ کہ بھارت کی آئینی اقدار یا اس کے اسٹریٹجک مفادات کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔
دی ہندو اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں گاندھی نے کہا کہ، ذاتی سفارت کاری کا یہ انداز کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں، خاص طور پر امریکہ میں ایسا کرنے کی کوششیں حالیہ مہینوں میں انتہائی شرمناک اور ذلت آمیز طریقے سے ناکام ہوئی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع پر سونیا گاندھی کا یہ تیسرا مضمون ہے، جو حالیہ دنوں میں ایک قومی روزنامے میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے اس معاملے پر مودی حکومت کے موقف پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے لکھا کہ عالمی سطح پر بھارت کا مقام کسی ایک فرد کی ذاتی مدح ثنائی تک محدود نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اس کی تاریخی کامیابیوں پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی دبی ہوئی آواز، مسئلہ فلسطین سے اس کی علیحدگی کے عنوان سے اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مستقل ہمت اور تاریخی تسلسل کے احساس کی ضرورت ہے۔
سونیا گاندھی نے نشاندہی کی کہ فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا کا مل کر فلسطینی ملک کو تسلیم کرنا، مصائب کے شکار فلسطینی عوام کی جائز خواہشات کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 150 سے زیادہ اب تک فلسطین کو بطور آزاد ملک تسلیم کر چکے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بھارت اس معاملے میں ایک رہنما رہا ہے، جس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی برسوں کی حمایت کے بعد 18 نومبر سنہ 1988 کو رسمی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے حوالہ دیا کہ کس طرح بھارت نے آزادی سے پہلے ہی جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا مسئلہ اٹھایا اور الجزائر کی جنگ آزادی (سنہ 1954-62) کے دوران ہندوستان آزاد الجزائر کے لیے سب سے مضبوط آوازوں میں سے ایک تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سنہ 1971 میں بھارت نے سابقہ مشرقی پاکستان میں 'نسل کشی' کو روکنے کے لیے بھرپور مداخلت کی، جس کی وجہ سے جدید دور کا بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
کانگریس کی سابق صدر نے کہا کہ بھارت نے طویل عرصے سے اسرائیل-فلسطین کے اہم اور حساس مسئلے پر نازک مگر اصولی موقف اپنایا، اسی کے ساتھ امن اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی وابستگی پر زور دیا ہے۔
گاندھی نے زور دے کر کہا کہ بھارت کو مسئلہ فلسطین پر قیادت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، جو اب انصاف، شناخت، وقار اور انسانی حقوق کی لڑائی بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو برس قبل اکتوبر سنہ 2023 میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دشمنی شروع ہونے کے بعد سے بھارت نے عملی طور پر اپنا کردار ترک کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، سات اکتوبر 2023 کو اسرائیلی شہریوں پر حماس کے وحشیانہ اور غیر انسانی حملوں کے بعد شروع ہوا اسرائیل کا ردعمل نسل کشی سے کم نہیں ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکی ہوں، 65,000 سے زیادہ فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں جن میں 17,000 بچے بھی شامل ہیں۔
گاندھی نے زور دے کر کہا کہ غزہ کی پٹی کے رہائشیوں، اسکول اور صحت کے بنیادی ڈھانچوں کے ساتھ ساتھ زراعت اور صنعت کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، غزہ کے لوگوں کو بھکمری جیسی صورت حال میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج ضروری خوراک، ادویات اور دیگر امداد کی ترسیل میں بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رکاوٹیں کھڑی کیے ہوئے ہے۔ مایوسی کے سمندر کے بیچ امداد کو قطرہ قطرہ کی صورت میں فراہم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ غیر انسانی کارروائیوں میں سے ایک انتہائی گھناؤنے فعل میں سینکڑوں شہریوں کو خوراک حاصل کرنے کی کوشش کے دوران گولی مار دی گئی۔ گاندھی نے کہا کہ دنیا نے اپنے ردعمل میں تاخیر کی جس سے تاخیر اور خاموشی کے ذریعہ اسرائیلی اقدامات کو قانونی طور پر جائز ٹھہرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے کئی ممالک کی طرف سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات بے عملی کی پالیسی سے ایک خوش آئند اور لمبے وقت سے مطلوبہ موقف کی طرف کوچ ہے۔
انہوں نے کہا، یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور یہ انصاف، حق خود ارادیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کا اثبات ہے۔ یہ اقدامات محض سفارتی اشارے نہیں بلکہ یہ اس اخلاقی ذمہ داری کا اثبات ہیں جو قومیں دیرینہ ناانصافی کا مقابلہ کرتے ہوئے اٹھاتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ جدید دنیا میں خاموشی غیر جانبداری نہیں بلکہ ساز باز ہے۔
سونیا گاندھی نے مودی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہاں بھارت کی آواز، جو کبھی آزادی اور انسانی وقار کی حمایت میں ثابت قدم تھی، اب وہ واضح طور پر خاموش ہو گئی ہے۔
دریں اثنا انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ صرف دو ہفتے قبل بھارت نے نہ صرف نئی دہلی میں اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے، بلکہ اسرائیل کے انتہائی متنازع دائیں بازو کے وزیر خزانہ کی میزبانی بھی کی، جس نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی برادریوں کے خلاف بارہا تشدد کو بھڑکانے کا کام کیا جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔
گاندھی نے استدلال کیا کہ بھارت کو مسئلہ فلسطین کو محض خارجہ پالیسی کے مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ہندوستان کی اخلاقی اور تہذیبی وراثت کے امتحان کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام نے کئی دہائیوں کی نقل مکانی، طویل قبضے، بستیوں کی توسیع، نقل و حرکت پر پابندیاں اور ان کے شہری، سیاسی اور انسانی حقوق پر بار بار حملوں کا سامنا کیا ہے۔
ان کی حالت زار ہندوستان کو نوآبادیاتی دور میں درپیش جدوجہد کی یاد دلاتی ہے، جب ملک کی خودمختاری، قومیت، وسائل، تمام حقوق اور تحفظ کو چھین لیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم وقار کی تلاش میں تاریخی ہمدردی کے احساس کے لیے فلسطین کے مقروض ہیں اور ہم ہمدردی کو اصولی عمل میں تبدیل کرنے کی ہمت کے لیے بھی فلسطین کے مقروض ہیں۔
آپ کا تبصرہ