بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایک سابق امریکی انٹیلی جنس افسر سکاٹ رائٹر نے زور دے کر کہا کہ دوحہ میں حماس کی قیادت کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے در حقیقت قطر پر حملہ کیا ہے۔
دوحہ میں حماس رہنماؤں کے ہیڈکوارٹرز پر صہیونی ریاست کے حالیہ وحشیانہ حملے نے بین الاقوامی سطح پر ـ خاص طور پر عرب ممالک میں متنوع ردعمل پیدا کئے ہیں۔ قطر کے خلاف ریاست کی دھمکیاں ـ اور خاص طور پر اسرائیل کی کنیسٹ کے اسپیکر کے بیان پر ـ کہ اس حملے نے مشرق وسطی کے تمام ممالک کے لئے ایک پیغام پہنچایا ہے ـ مختلف تجزیئے آ رہے ہیں۔
دریں اثنا، ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) حال ہی میں تعاون کے لئے ایک فریم ورک طے کرنے پر متفق ہوئے ہیں، ایک ایسی پیشرفت جسے علاقائی اور عالمی اداکاروں نے خوش آئند قرار دیا ہے، اسکاٹ رٹر نے اسے تناؤ کم کرنے کی جانب ایک قدم قرار دیا۔
ایک سابق امریکی میرین کارپس خفیہ افسر اور فوجی امور کے ماہر اسکاٹ رٹر نے خبررساں ایجنسی ابنا کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان واقعات کا تجزیہ کرنے اور اگلے مرحلے کے امکانات کے حوالے سے اس ایجنسی کے سوالات کے جوابات دیئے۔
ابنا: اس کے باوجود کہ قطر امریکہ کا اتحادی اور ایک امریکی اڈے کا میزبان ہے ـ جس سے واشنگٹن پر کسی حد تک غیرملکی حملوں کے خلاف دوحہ کی حمایت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ـ امریکہ نے اسرائیل کو اس ملک پر حملے اجازت کیوں دی؟ بین الاقوامی قانون کے تحت ایسی ہری بتی کی توجیہ کیونکر ممکن ہے؟
رٹر: سب سے پہلے، جہاں تک میرا علم ہے، قطر اور امریکہ کے درمیان کوئی باضابطہ سکیورٹی معاہدہ نہیں ہے۔ ایک فوجی موجودگی کا سمجھوتہ (Status of Forces Agreement [SOFA]) ہے جو العدید اڈے کے کردار اور امریکہ اور قطر کے درمیان اس معاملے اور دیگر معاملات میں تعاون کی وضاحت کرتا ہے۔ لیکن جب امریکہ کی کسی بھی غیرملکی حملے کے خلاف قطر کے دفاع کی ذمہ داری عائد ہونے کی بات آتی ہے، تو میرا خیال ہے کہ ایسا کوئی رسمی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ باہمی حِفاظَتِ نَفس (Self-defense) اور اس سے ملتی جلتی دفعات کی تفہیم کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، ہر صورت میں قطر ایک آزاد ملک ہے، اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پاس نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی جواز کہ وہ اسرائیل جیسے کسی دوسرے فریق کو قطر پر حملہ کرنے کی ہری بتی دکھائے۔
لہٰذا، یہ فیصلہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ـ قطر کے ساتھ تعاون کے بغیر ـ کیا گیا اور یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قطر پر یہ حملہ، صحیح معنوں میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھا، اور بین الاقوامی قانون کے تحت، اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ابنا: اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو پامال کرتے ہوئے، واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی سرخ لکیر کو تسلیم نہیں کرتا۔ پہلی بات یہ کہ قطر پر حملے نے عرب ممالک کو کیا پیغام بھیجا؟ اور دوسری بات یہ کہ اس کا امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ پر کیا اثر پڑے گا؟
رٹر: اسرائیل کا بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزیوں کا اپنا ایک تاریخچہ ہے۔ ایران کے خلاف اس کا اچانک حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ لبنان، شام، اور یمن کے خلاف اسرائیل کی جاری فوجی کارروائیاں تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسرائیل کے لئے کوئی سرخ لکیر نہیں ہیں۔ یہ ایک قائم شدہ سانچہ ہے۔ لہٰذا، دیگر عرب ممالک کے لئے، قطر پر اس حملے کا پیغام یہ ہے کہ اسرائیل جو چاہے گا، جب چاہے گا، جہاں چاہے گا، کر گذرے گا۔ یہی وہی چیز ہے جو اسرائیل کرتا آیا ہے۔
درحقیقت، اسرائیل کے ایسے روئے کی ذمہ داری سے بچتے رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک خود کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر سمجھتے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کی بین الاقوامی ساکھ اس حملے کے اثر کا تعلق ہے، تو امریکہ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اس کی قومی سلامتی کی پالیسی مکمل طور پر اسرائیل اور اس کے مفادات کے تابع ہے۔ قطر پر حملہ گذشتہ برسوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے مختلف نہیں ہے جو واشنگٹن کی مکمل معلومات اور حمایت کے بل بوتے پر کی گئی ہیں۔
اس حملے کے بعد امریکہ کی ساکھ میں تبدیلی نہیں آئے گی: ایک ایسا ملک جو بین الاقوامی قانون، اصولوں، یا بنیادی انسانی اقدار سے قطع نظر، اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کرتا ہے۔
ابنا: چونکہ علاقائی حالات و واقعات باہم جڑے ہوئے ہیں، آپ موجودہ بڑھتے ہوئے تناؤ اور مصر یا ترکی جیسے ممالک کے ساتھ اس تناؤ میں شامل ہونے اور نئے تصادم کے امکان پر دوحہ کے خلاف اسرائیل کے حالیہ حملوں کے اثرات کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
رٹر: قطر پر حملے کو ایک الگ واقعے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے؛ بلکہ، یہ ایک رویے کے ایک وسیع ترسانچے کا حصہ ہے جسے اسرائیل، امریکی حمایت کے ساتھ، دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ قطر پر حملہ تناؤ کو بھڑکاتا ہے، تاریخ کی گواہی کے مطابق، مصر، ترکی، یا ایران جیسے دیگر ممالک کے ساتھ کوئی نیا تصادم نہیں ہوگا۔ کوئی بھی ریاست دوسرے کے دفاع کے لئے آگے نہیں آئے گی۔
اس حملے پر دکھاوے پر مبنی زوردار بیانات ضرور سامنے آئیں گے، لیکن آخرکار ہوگا کچھ بھی نہیں؛ کیونکہ امریکہ نے اس حملے کی حمایت کی ہے۔ اور اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ واشنگٹن اس [مخالفت کرنے والے رجحان] کا حصہ نہ ہو، اور اس معاملے میں، امریکہ مکمل اور غیر مشروط طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔
ابنا: ایران اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے درمیان نئے سمجھوتے پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا یہ سمجھوتہ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال ہونے سے باز رکھ سکے گا؟ اور امریکہ اور ایران کے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی راہ ہموار کر سکے گا؟
رٹر: حقیقت یہ ہے کہ ایران کو IAEA کے ساتھ ایک سمجھوتے تک پہنچنے کی ضرورت تھی۔ ایران فی الحال چین، روس، اور دیگر ممالک کی حمایت سے لطف اندوز ہو رہا ہے، جو IAEA کی اسرائیلی اور امریکی حملے میں معاونت پر مبنی غلط رویے سے آگاہ ہیں۔ اسی اثناء میں یہ فہم موجود ہے کہ ایران کو جوہری ترک اسلحہ کے معاہدے (NPT) کا ایک فریق رہنا چاہئے۔ یہ صرف اس صورت میں نافذ العمل ہو سکتا ہے جب ایران اور IAEA جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے رکن کے طور پر ایران کی حفاظتی ذمہ داریوں کے حوالے سے ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھیں۔
لہٰذا، یہ سمجھوتہ ایک ضروری قدم ہے۔ میرے خیال میں یہ یورپ اور امریکہ کو پابندیاں دوبارہ عائد کرنے سے بھی باز رکھتا ہے ـ چاہے یہ آخرکار ایران اور امریکہ کے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی راہ ہموار کرے یا نہ کرے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایران اور امریکہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں گے، یہ ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ امریکہ نے بدنیتی سے کام لیا اور مذاکرات کو بہانہ بنا کر ایران پر اسرائیل کے اچانک حملے کو بنیاد فراہم کی۔
بین الاقوامی قانون کی رو سے ایران کی حیثیت اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں اس کی رکنیت کی رو سے، اس کا موقف، اسرائیل اور امریکہ کے خیالات سے متصادم ہے۔ اس وجہ سے، میں کسی بامعنی مذاکرات کے بارے میں پرامید نہیں ہوں۔ تاہم، ایران کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ IAEA کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے، کیونکہ اس چینل کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے مخالفین بلکہ اپنے اتحادیوں کے گھیرے میں آنے سے بھی بچ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ