بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا:
اللہ کا مکر کیا ہے؟ آیت کریمہ کی تفسیر امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے زبانی
آیت 54 سورہ آل عمران:
"وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ؛
اور انہوں نے (یعنی حضرت عیسیٰ کے دشمنوں نے) اپنی ترکیب (یا تدبیر) کی اور اللہ نے اپنی ترکیب کی اوراللہ سب سے بہتر ترکیبیں کرنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔
آيت 53:
"رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ؛
اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو تو نے اتارا اور ہم نے ا س پیغمبر کی پیروی اختیار کی۔ اب تو ہمیں گواہوں کی فہرست میں درج فرما۔"
نکتے
عبارت "مَعَ الشَّاهِدِينَ" میں حمایت مضمر ہے جو عبارت "مِنَ الشَّاهِدِينَ" میں نہیں ہے۔ یہ فرق "آمَنُوا بِهِ" اور "آمَنُوا مَعَهُ" کے مابین فرق جیسا ہے۔ کیونکہ پچھلی آیت (52) میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے شاہد بننے کی درخواست کی گئی: "وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، اور شہادت دیجئے کہ ہم یقینا مسلمان ہیں"؛ چنانچہ شاہدین کے ساتھ ہونا، یعنی انبیاء کا حامی اور دوست بننا۔
پیغامات:
1۔ ایمان کا لازمہ پیغمبر کی اطاعت کرنا ہے: "آمَنَّا ۔۔۔ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ"
2- خدا کے احکام و اوامر کی اطاعت و تعمیل لازمی ہے "آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ"
3- ہم اللہ سے التجا کریں کہ ہمارے ایمان کو مستحکم کر دے اور ہمیں انبیاء کے حامیوں میں شمار کرے "فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ"
آيت 54:
"وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ؛
یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں نے اپنی ترکیبوں کو ان کے قتل پر مرکوز کر دیا اور اللہ نے بھی اپنی ترکیب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نجات کے لئے اپنی ترکیب کی اوراللہ سب سے بہتر ترکیبیں کرنے والا ہے۔
نکتے:
امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) نے "سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ" (التوبہ-79)، "اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ" (البقرہ-15)، "وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ" اور "يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ" (النساء-142) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
"انَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَسْخَرُ وَلَا يَسْتَهزِءُ وَلَا يَمْكُرُ وَلَا يُخَادِعُ وَلكِنَّهُ تَعَالَى يُجَازِيهِمْ جَزَاءَ اَلسُّخْرِيَّةِ وَجْزَاءَ الْإِ سْتِهْزاءِ وَجَزَاءَ المَكْرِ وَالخَدِيعَةِ؛
"خدائے تعالیٰ نہ تمسخر کرتا ہے، نہ مذاق اڑتا ہے، نہ مکر و ترکیب کرتا ہے، نہ دھوکہ دیتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان کو تمسخر کی سزا، مذاق اڑانے کی سجزا، اور مکر و ترکیب اور دھمہ دہی کی سزا دیتا ہے"۔ (صدوق، محمد بن علی، عیون اخبارالرضا (علیہ السلام)، ج2، ص115]۔
گوکہ سورہ آل عمران کی آیت 54 اللہ کی سنتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے لیکن پچھلی آیات ـ جن کی رو سے معلوم ہؤا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل اور یہودیوں کے کفر کو محسوس کر دیا ـ اور اگلی آیت ـ جس کی گواہی کے مطابق اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ـ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں "مکر" سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سازش تھی جو اس زمانے کے بعض یہودیوں نے ان کی دعوت کا چراغ بجھانے کے لئے تیار کی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گرفتاری، حکومت کے کارندوں کو ان کا سراغ دینے کے عوض انعام مقرر کیا اور انہیں سولی پر چڑھانے کا انتظام کیا؛ لیکن اللہ نے ان کی ترکیب کو ناکام بنایا اور انہیں بہترین انداز سے نجات دلائی۔
پیغامات:
1- خدائے تعالی اپنے اولیاء کا حامی اور پشت پناہ ہے: "وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ"
2- انسان کی کوئی بھی تدبیر اور کوئی بھی حرکت اللہ کے قہر یا لطف و کرم کی تمہید ہے: "وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ"
3- اللہ کی سزا انسان کے جرم و گناہ سے ہمآہنگ اور متناسب ہے: "وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ"
4- اللہ کا ارادہ اور اس کی تدبیر و انتظام کسی بھی کوشش، حرکت اور مکر و ترکیب سے بالا تر ہے: "وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ"
۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت 55:
"إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ؛
جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰٰ! میں تمہاری مدت پوری کرتا ہوں اور تمہیں اپنی جانب اٹھاتا ہوں اور تمہیں ان کافروں سے پاک کرتا ہوں اور انہیں جو تمہاری پیروی کریں گے ان سے کہ جنہوں نے تمہارا انکار کیا روز قیامت تک اونچا رکھوں گا۔ پھر تم سب کا پلٹنا میری طرف ہوگا تو میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا اس کے بارے میں جس میں تمہارے درمیان اختلاف رہا"۔
نکتے:
دشمنوں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر کا عینی اور عملی نمونہ اس آیت کریمہ میں بیان ہؤا ہے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو 21 رمضان المبارک کی شب کو آسمان پر اٹھایا گیا۔ چنانچہ امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"وَلَيلَةُ إِحْدَى وعِشْرِينَ وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِى ماتَ فِيهَا أَوْصِيَاءُ اَلنَّبِيِّينَ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ وفِيهَا رُفِعَ عيسَى بنُ مَريَمَ وقَبَضَ موسى عَلَيهما السَّلام؛
اور اکیس رمضان کی شب وہ رات ہے جس میں انبیاء (علیہم السلام) کے اوصیاء اور جانشین دنیا سے رخصت ہوئے ہیں؛ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وفات پا گئے۔ (الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص508)۔
پیغامات:
1- دوسرے پیغمبروں کے لئے بھی معراج تھی: "افِعُكَ إِلَيَّ"
2- کفار کے درمیان جینا، آلودگی کا سبب اور ان نے دوری اختیار کرنا، پاکیزگی اور طہارت کا سبب ہے: "وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا"
3- یہودیت پر عیسائیت کے غلبے کی پیشنگوئی، جو قرآن کے معجزات میں سے ایک ہے: "وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا"
4- انبیاء کی پيروى فتح و کامیابی کی علامت ہے: "وَجاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا"
5- اسلام کی عالمگیریت ـ اسلام کی پناہ میں ـ مذہبی اقلیتوں کی موجودگی کے منافی نہیں ہے۔ عبارت "إِلَى يَوْمِ الْقِيامَةِ" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار قیامت تک بھی ہونگے۔
6۔ آیت کریمہ میں یہودی "الذین کفروا" کا مصداق ہیں: "وَجاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا"
7- سب کا پلٹنا اللہ کی طرف ہے اور قیامت میں اللہ ہی بلا چون و چرا فیصلے سنانے والا ہے، "إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مفسر قرآن علامہ محسن قرائتی۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ