17 اگست 2025 - 21:49
ہتھیاروں اور مزاحمت کے بغیر، لبنان پر اسرائیل کا حملہ لا محدود ہوگا + تصاویر

بین الاقوامی قانون کے مطابق، اگر کوئی حکومت اپنے لوگوں کو پڑوسی ریاست کے حملے سے محفوظ نہیں رکھ سکتی، تو مزاحمت فطری اور قانونی طور پر جائز ہو جاتی ہے۔ تاہم، جب ایک طاقتور حکومت ہتھیاروں کو جمع کرنے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہو جاتی ہے، تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، لبنان میں ایرانی سفیر نے اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری کی کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہتھیاروں اور مزاحمت کے بغیر لبنان پر اسرائیل کی جارحیت لا محدود ہوگی۔

در دیدار علی لاریجانی و نعیم قاسم چه گذشت؟

بیروت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر "ڈاکٹر مجتبیٰ امانی" نے العالم نیوز نیٹ ورک کے ساتھ گفتگو میں کہا: ایران مضبوطی اور عزم کے ساتھ لبنان اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ایک فرقے یا قبیلے اور دوسرے میں فرق نہیں کرتا ہے۔

ہتھیاروں اور مزاحمت کے بغیر، لبنان پر اسرائیل کا حملہ لا محدود ہوگا + تصاویر

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ لبنان کے لئے ایران کی حمایت صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے اور ایران مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، مقاومت و مزاحمت اور عوام کی خودمختاری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اور ہر اس شخص کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتا ہے جسے اس کی مدد کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر مجتبیٰ امانی کے مکالمے کا مکمل متن حسب ذیل ہے:

ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورہ بیروت اور اس کے سیاسی پیغامات

سوال: ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جناب لاریجانی نے بیروت کے دورے کے پیغامات کیا تھے؟

جواب: ڈاکٹر لاریجانی صحیح وقت پر بیروت آئے، کیونکہ صہیونی دشمن خود کو فتح مند ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور وہ کچھ سیاسی اور ابلاغی روشوں سے حاصل کرنا چاہتا ہے جو وہ جنگ میں فوجی ذرائع سے حاصل نہیں کر سکا۔ صہیونی دشمن میڈیا، سیاست اور جارحانہ اقدامات کے ذریعے خود کو فاتح دکھانے کے لئے کوشاں ہے؛ گویا اس نے خطے میں فتح حاصل کر لی ہے۔ اور اسی اثناء میں وہ لبنان، ایران اور غزہ سمیت ـ ان تمام محاذوں پر جہاں خود نیتن یاہو نے کثیر محاذ جنگیں لڑی ہیں۔ فریق مقابل میں شکست کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

اس مسخ شدہ اور گمراہ کن میڈیا مشینری کے پروپیگنڈے عین وقت پر ڈاکٹر لاریجانی کے اس دورے نے ایران اور لبنان کو ایک واضح پیغام دیا کہ: نہ ہارا ہے اور نہ ہی حزب اللہ اور فلسطین ہارے ہیں، بلکہ ہم فاتح ہیں کیونکہ دشمن اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا ہے اور ہم ڈٹے ہوئے اور ثابت قدم ہیں۔ نیتن یاہو یہ کہنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ صہیونی ریاست لبنان، فلسطین اور ایران میں کئی کمانڈروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن یہ ایک واقعی اور حقیقی فتح نہیں ہے۔ "اسرائیل" کو توقع ہے کہ اس قسم کی بیان بازی کا ایرانی عوام پر اثر پڑے گا۔ تاہم، ہمارے خلاف تمام "اسرائیلی" حملوں اور تمام رپورٹس، تجزیوں اور دباؤ کے باوجود، ایرانی عوام اپنی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، اور یہ امریکہ اور "اسرائیل" کے لئے ایک زبردست ناقابل برداشت اور 'کمرتوڑ' دھچکا ہے۔ ایران اپنی حکومت اور عوام کے استوار اور ثابت قدم ہے، جیسا کہ ہم چاہتے ہیں اور جیسا کہ ہم پورے لبنان میں دیکھتے ہیں۔

ہتھیاروں اور مزاحمت کے بغیر، لبنان پر اسرائیل کا حملہ لا محدود ہوگا + تصاویر

لاریجانی کے لبنان کے دورے کی علامت

سوال: ایرانی عوام نے دراصل اپنے ملک کے خلاف جارحیت کے دوران امریکہ، "اسرائیل" اور مغرب کو سخت ترین پیغام دیا۔ "اسرائیل"، امریکہ اور مغرب کی مسلسل دھمکیوں کے سائے میں، ڈاکٹر لاریجانی نے ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد عراق کے بعد لبنان کو اپنی پہلی منزل کے طور پر منتخب کیا۔ ان کے اس انتخاب کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: پہلی بات یہ کہ ڈاکٹر لاریجانی اس سے قبل سپریم لیڈر کے مشیر تھے اور اپنے موجودہ عہدے پر وہ سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری اور اس کونسل میں انقلاب اسلامی کے  رہبر معظم کے نمائندے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی یہاں (بیروت) موجودگی کو رہبر معظم کی براہ راست اور مکمل حمایت حاصل ہے اور اس کی ایک خاص علامتی حیثیت ہے۔ ظاہر ہے کہ انقلاب اسلامی کے رہبر معظم ہمیشہ لبنان، اس کی حیثیت اور مقاومت و مزاحمت کی حیثیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر لاریجانی کا دورہ ایران کے اعلیٰ عہدے داروں کے رجحانات اور نقطہ نظر کے عین مطابق ہے۔ پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر اور سپریم لیڈر کے مشیر کے طور پر ڈاکٹر لاریجانی کی عظیم ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے یہی چیز اس دورے کو دوسرے سفارتی دوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ نقطہ نظر اس سفارتی مشن کو، خاص طور پر لبنان میں، ایک مختلف نوعیت دیتا ہے۔

ہتھیاروں اور مزاحمت کے بغیر، لبنان پر اسرائیل کا حملہ لا محدود ہوگا + تصاویر

لبنانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے نتائج

سوال: سفیر، یہ مشن اہم پیغامات کا حامل تھا۔ تاہم، اسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ایران کے کردار اور دورے کے مقاصد کے بارے میں لبنان اور بیرون ملک گمراہ کن تشہیری مہم کے بعد۔ آپ اس دورے کے نتائج اور لبنانی صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور وزیر اعظم کے ساتھ ڈاکٹر لاریجانی کی ملاقاتوں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: صدر جوزف عون، وزیراعظم نواف سلام اور لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری کے کچھ تحفظات تھے۔ ملاقاتوں کے دوران ایران کے موقف کے بارے میں کھل کر بات ہوئی اور ڈاکٹر لاریجانی نے لبنانی حکام کو "اسرائیلی" جارحیت اور 12 روزہ جنگ (ایران کے خلاف) کی تفصیلات بتائیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ جنگ شروع ہونے کے چار یا پانچ دن بعد "اسرائیلی" فریق نے خود کو ایک مخمصے میں گھرا ہؤا پایا اور دوسرے فریقوں سے کہا کہ وہ جنگ سے نکلنے میں اس کی مدد کریں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس جنگ کے 11ویں دن امریکہ نے مداخلت کرتے ہوئے ایرانی تنصیبات پر بمباری کی اور یہ تنازع ختم کرنے کا دعویٰ کیا۔ لیکن ایران نے امریکی حملے کا جواب دیا اور جنگ کے بارہویں دن اور آخری گھنٹوں میں "اسرائیل" پر دردناک ضربیں لگا دیں۔

(مبینہ) ایرانی مداخلت کے بارے میں تشویش کے بارے میں، ڈاکٹر لاریجانی نے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا: "ہم آپ کے لئے کوئی منصوبہ یا درخواست نہیں لائے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایسے تجربات ہیں جو ہم نے منتقل کر دیئے ہیں، اور ہمارا تجربہ صہیونی ریاست کے ساتھ نمٹنے کا ہے۔ ہمارا تجربہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اگر اگر صہیونی ریاست دیکھ لیں کہ آپ تنہا، نہتے اور غیر مسلح ہیں، اور آپ کے ہاں مقاومت و مزاحمت نہیں ہے تو ایسی کوئی حد نہیں ہوگی جہاں وہ اپنی جارحیت بند کر دے۔" صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ان بے تکلف الفاظ کا تبادلہ ہؤا جب کہ پارلیمنٹ کے سپیکر سے ملاقات مختلف نوعیت کی تھی۔

لاریجانی کے سفر کے علاقائی اور بین الاقوامی پہلو

سوال: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دورے کے موقع پر ڈاکٹر لاریجانی کے پیغامات اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پیغامات کا مقصد صرف لبنان ہی نہیں، بلکہ ان کی علاقائی اور بین الاقوامی جہتیں بھی ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب: جی ہاں، یہ مسئلہ بھی دوہری جہتوں کا حامل ہے۔ "اسرائیل" نے لبنان اور ایران پر حملہ کیا اور اس معاملے پر ہمارا موقف مشترکہ ہے۔ دونوں ممالک "اسرائیل" کے تباہ کن حملوں کا نشانہ بنے، اور دونوں ممالک میں شہیدوں کا نذرانہ دیا، اور دونوں ممالک کی عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ اس جنگ کی وسیع علاقائی جہتیں ہیں اور یمن، عراق، مغربی کنارے، غزہ، ایران اور لبنان سب کا اس میں حصہ ہے۔

ایران اور لبنان کا مشترکہ دفاع

سوال: ایران اور عراق نے جناب لاریجانی کے بیروت پہنچنے سے پہلے ایک مشترکہ سیکورٹی اور دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کی تفصیلات سے قطع نظر، اگر "اسرائیل" کی طرف سے لبنان پر جارحیت ہوتی اور جنگ مسلط ہوتی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران لبنان کے فوجی دفاع کو توجہ دے گا؟

جواب: یہ صحیح وقت پر ایک اہم بات ہے۔ ایران، لبنان، حزب اللہ اور اس مسئلے میں دلچسپی رکھنے والوں کے نظریات ایران کے خلاف "اسرائیل" کی جنگ سے پہلے موجود تھے۔ لیکن کیا فارمولے اور فیصلے مختلف شکل اختیار کریں گے، مجھے نہیں معلوم۔ فارمولے بدل گئے ہیں، لیکن کیا موجودہ فیصلے بھی بدلیں گے؟ فارمولوں اور معادلوں میں تبدیلی کے لئے فیصلے میں تبدیلی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور اس کا معمول کا اثر ہو سکتا ہے۔ ایران پر حملے سے پہلے ہو یا بعد میں، ایران کی مزاحمت کی حمایت قطعی، حتمی اور ناقابل واپسی ہوگی۔ تاہم، جس مسئلے پر فیصلہ کیا جاتا ہے وہ مختلف ہے اور اس کے لئے ہر معاملے کی بنیاد پر اور موقع کے مطابق، مخصوص فیصلوں اور ہم آہنگیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

لبنانی مقاومت کے ہتھیاروں پر ایران کا موقف

سوال: مقاومت کے ہتھیاروں کے معاملے میں ایران کے نقطہ نظر اور مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لبنانی حکومت کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے، آپ اسے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کے طور پر کیسے دیکھتے ہیں، خاص طور پر یہ سننے کے بعد کہ اس بارے میں لبنانی صدر اور وزیر اعظم کیا کہتے ہیں؟

جواب: میں سمجھ گیا کہ اس معاملے میں ایک واضح منطق ہے کہ ہتھیاروں کو استثنائی طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، لیکن اس فیصلے پر عمل کیسے ہو گا، یہ متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلیہ خیال اور بات چیت سے مشروط ہے۔ لبنان کی قومی سلامتی کا مسئلہ بہت سے دوسرے ممالک سے مختلف ہے، کیونکہ لبنانی میدان میں دستیاب مختلف صلاحیتیں جانی پہچانی ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق، اگر کوئی حکومت اپنے لوگوں کو پڑوسی ریاست کے حملے سے محفوظ نہیں رکھ سکتی، تو مزاحمت فطری اور قانونی طور پر جائز ہو جاتی ہے۔ تاہم، جب ایک طاقتور حکومت ہتھیاروں کو جمع کرنے اور اسے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے قابل ہو جاتی ہے، تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔

ان بحثوں میں اہم نکتہ یہ ہے کہ لبنان کو مسلح کرنے کا مسئلہ مختلف فریقوں کے درمیان اتفاق رائے کا ہونا چاہئے، تاکہ وہ بیٹھیں، بحث کریں اور اپنے فیصلے خود کریں۔ یہی کچھ لبنان کے اندر ہوتا ہے اور لبنان اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور ایران اس کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم، ہمیں "اسرائیل" کا مقابلہ کرنے کا تجربہ ہے اور ہم یہ خیالات اس لئے پیش کرتے ہیں تاکہ لبنان کسی بڑے خطرے سے دوچار نہ ہو۔ اس کے لئے مطلوبہ نتیجہ تک پہنچنے کے لئے حقیقی اور مسلسل بحث مباحثے کی ضرورت ہے۔

مقاومت کے ہتھیاروں پر حزب اللہ سے رابطہ

سوال: حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے ساتھ آپ کی ملاقات میں آپ کا تبادلہ خیال کیسا رہا؟

جواب: جب ہم ان سے ملے تو ڈاکٹر لاریجانی نے اس مسئلے پر بات کی۔ موقف واضح ہے اور حزب اللہ کے محترم سیکرٹری جنرل اس مسئلے سے بخوبی واقف ہیں، کیونکہ وہ اس بحث میں شامل فریقوں میں سے ایک ہیں۔ ہم عزت مآب شیخ نعیم قاسم اور حزب اللہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور وہ ہمارے موقف سے آگاہ ہیں، لیکن شاید یہ ضروری تھا کہ ہم اس موقف اور ہمارے ان خیالات کو دیگر جماعتوں تک منتقل کر دیتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha