اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |
پروفیسر عالم صالح کا کہنا تھا:
بی بی سی کا سوال: کیا ہؤا کہ اچانک امریکہ اور حوثیوں کے درمیان کی صورت حال بدل گئی؟
پروفیسر عالم صالح: حوثیوں نے بہت حد تک باب المندب میں جہازوں کی بین الاقوامی امد و رفت کو کافی حد تک خلل سے دوچار کر دیا تھا۔ نہر سوئز میں جہازوں کی آمد و رفت میں 50٪ کمی آئی ہے۔ اسرائیلیوں کی ایلات بندرگاہ میں جہازوں کی آمد و رفت میں 85٪ کمی آئی ہے۔ اور خاص طور پر یہ کہ حوثیوں کے خلاف جنگ اور انہیں شکست کے لئے کوئی خاص حکمت عملی موجود نہیں ہے؛ یقینی بات ہے کہ اس جنگ کے جاری رہنے سے امریکیوں کے لئے بہت سارے مسائل کھڑے ہو سکتے تھے۔
خطے میں بین الاقوامی جہازرانی میں خلل ڈالنا، جو کہ عالمی معیشت کے لئے ـ اور مغرب کے لئے ـ ایک اسٹراٹیجک شاہراہ ہے، دونوں فریقوں کو شدید ترین مالی اور جانی نقصانات پہنچانے کا سبب ہو سکتا تھا؛ چنانچہ یہ جنگ بندی کسی حد تک ایک منطقی واقعہ ہو سکتا ہے۔ حوثی ایسا کوئی گروہ نہیں ہیں جن کو بمباریوں سے مٹایا جا سکے، جیسا کہ امریکہ 20 سال کے عرصے میں طالبان کو نہیں مٹا سکا، لہذا یقینی امر ہے کہ اس کے پاس حوثیوں کے خاتمے کے لئے کوئی جامع تزویراتی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اس کشیدگی اور تناؤ کا شکار علاقے میں امریکیوں کی ساکھ کو بھیاور یورپ کو بھی بہت نقصان پہنچ سکتا تھا بالخصوص اس وقت سے جب ٹرمپ برسراقتدار آئے اور اقتصادی اور محاصل کی جنگ کا آغاز ہؤا ہے اور اس صورت حال میں توانائی کی فراہمی اور ترسیل میں شدید کمی آسکتی تھی، اور اس سے مغرب اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ چنانچہ فریقین اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عارضی جنگ بندی تمام فریقوں کے لئے مفید ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ