1 اپریل 2025 - 16:20
بُھولے بِسْرے واجبات: زکوٰۃ

"اموالِ زکوٰة کا استحقاق تو بس محتاجوں اور مسکینوں کو ہے اور زکوٰة [جمع اور تقسیم کرنے والے] کارگزاروں  اور مولفۃ القلوب [1] کو اور غلاموں اور کنیزوں (کو آزاد کرانے) اور قرض داروں کو اور راہ خدا میں اور [راستے میں رہنے والے] مسافروں کو یہ لازمی قانون ہے اللہ کی طرف کا اور اللہ بڑا جاننے والا ہے، بہت حکمت والا"۔

بُھولے بِسْرے واجبات

زکوٰۃ

"إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ؛ سورہ توبہ، آیت 60۔

اموالِ زکوٰة کا استحقاق تو بس محتاجوں اور مسکینوں کو ہے اور زکوٰة [جمع اور تقسیم کرنے والے] کارگزاروں  اور مولفۃ القلوب [1] کو اور غلاموں اور کنیزوں (کو آزاد کرانے) اور قرض داروں کو اور راہ خدا میں اور [راستے میں رہنے والے] مسافروں کو یہ لازمی قانون ہے اللہ کی طرف کا اور اللہ بڑا جاننے والا ہے، بہت حکمت والا"۔

آیت کی تشریح

امام جعفر صادق علیہ السلام) نے  فرمایا:

"الْفُقَرَاءُ هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْأَلُونَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى 'لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا' وَالْمَسَاكِينُ هُمْ أهْلُ الزَّمَانَاتِ وَقَدْ دَخَلَ فِيْهِمُ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَالصِّبيانُ وَالعَامِلِينَ عَلَيْهَا هُمُ السُّعَاةُ وَالْجُبَاةُ فِي أَخْذِهَا وَجَمْعِهَا وَحِفْظِهَا حَتَّى يُؤَدُّوهَا إلى مَن يَقْسِمُها وَالمُؤَلَّفَةُ قُلُوبُهُمْ، قَالَ: هُمْ قَوْمٌ وَحَّدُوا اللَّهَ وَخَلَعُوا عِبادَةَ مَن دُونَ اللَّهِ وَلَمْ يَدْخُلِ المَعرِفَةَ قُلوبَهُم أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَكَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِه يَتَأَلَّفُهُم وَيُعَلِّمُهُم وَيُعَرِّفُهُم كَيْمَا يَعْرِفُوا فَجَعَلَ لَهُمْ نَصِيباً فِي الصَّدَقَاتِ لِكَيْ يَعْرِفُوا ويَرْعَوُوا؛ وفْي الرِّقَابِ قَوْمٌ لَزِمَتْهُمْ كَفَّارَاتٌ في قَتْلِ الْخَطَأِ وفي الظِّهَارِ وَفي الأَيْمَانِ وفِي قَتْلِ الصَّيْدِ فِي الحَرَمِ ولَيْسَ عِنْدَهُمْ مَا يَكْفُرُونَ وَهُمْ مُؤْمِنُونَ فجعل اللّه لَهُم سهْماً في الصَّدقات ليُكفّر عَنهُمْ؛ وَالْغَارِمِينَ قَوْمٌ قَدْ وَقَعَتْ عَلَيْهِمْ دُيُونٌ أَنْفَقُوهَا فِي طَاعَةِ اَللَّهِ مِنْ غَيْرِ إِسْرافٍ فَيَجِبُ عَلَى الْإِمَامِ أَنْ يَقْضِيَ عَنهُم ويَفُكَّهُم مِن مَالِ الصَّدَقاتِ؛ وفيُّ سَبِيلُ اللَّهِ قَوْمٌ يَخرُجُونَ فِي الْجِهَادِ ولَيسَ عِندَهُم مَا يَتَقَوَّوْنَ بِهِ أَوْ قَوْمٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَيْسَ عِنْدَهُمْ مَا يَحُجُّونَ بِهِ أَوْ فِي جَمِيعِ سُبُلِ الخَيْرِ فَعَلَى الْإِمَامِ أَنْ يُعْطِيَهُمْ مِنْ مالِ الصَّدَقاتِ حَتَّى يَقوَوا عَلى الحَجِّ وَالجِهادِ؛ وَابْنُ السَّبِيلِ أبْناءُ الطَّرِيقِ الَّذِينَ يَكُونُونَ فِي الْأَسْفَارِ فِي طَاعَةِ اَللَّهِ فَيُقْطَعَ عَلَيْهِم وَيَذْهَبَ مَالُهُمْ فَعَلَى الْإِمَامِ أَنْ يَرُدَّهُمْ إِلَى أَوْطَانِهِمْ مِنْ مَالِ اَلصَّدَقَات؛ [2]

"فُقَرَاء" سے مراد وہ افراد ہیں جو [وہ محتاج اور کَثِیرُ الْعَیال ہیں مگر] کسی سے کچھ نہیں مانگتے؛ [انہیں بہکاری نہیں ہونا چاہئے،] اس لئے کہ خدائے متعال کا ارشاد ہے کہ: 'ان تنگ دست افراد کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں بے چارہ و بے تدبیر ہو گئے ہیں اس طرح کہ روئے زمین پر سفر نہیں کر سکتے نا واقف انہیں رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مال دار سمجھے گا، تم انہیں ان کے چہرے سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے [اور بھیک نہیں مانگتے]'۔

اور "مَسَاكِينِ" ان نابینا، مریض، اور اپاہج، جذام اور دوسری بیماریوں میں مبتلا افراد ہیں، جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔

"وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا" سے مراد وہ لوگ ہیں جوزکوٰة جمع کرتے ہیں، اس کی نگہداشت کرتے ہیں اور اس کو اصل جگہ تک پہنچا دیتے ہیں تا کہ تقسیم ہو جائے۔

"الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ" سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی یکتائی کے قائل ہیں لیکن معرفت ہنوز ان کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکی ہے اور یہ نہیں سمجھے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے رسول ہیں، چنانچہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے دلوں کو اپنی اور اسلام کی طرف راغب کرتے تھے اور ان سے حد سے زیادہ شفقت و محبت کرتے تھے اور تعلیم دیتے تھے تاکہ شاید نبوت کو پہچان لیں؛ چنانچہ

آپؐ نے زکوٰة کا ایک حصہ ان کے لئے متعین کیا تاکہ ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں۔

"وَفِي الرِّقَابِ" سے مراد وہ مؤمنین ہیں جن پر غیر اردی قتل یا حرم کعبہ کی حدود میں شکار کرنے یا قَسَم، ظِہار وغیرہ کے کفارے کی وجہ سے ہرجانہ یا دیت کی ادا کرنا، واجب ہے، لیکن تہی دست اور غربت کی وجہ سے ایسا کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔ خدائے متعال نے صدقات اور زکوٰة میں سے کچھ حصہ ان کے لئے مختص کر دیا ہے، تاکہ وہ کفارہ ادا کریں۔

"وَالْغَارِمِينَ" سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جائز امور کے لئے قرضہ لیا ہے اور قرض کی رقم اللہ کی طاعت میں خرچ کر لی ہے، امام پر واجب ہے کہ ان قابل احترام مقروضین کو صدقات میں سے ادا کرے۔

"وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ" وہ لوگ ہیں جو [اللہ کی راہ میں] جہاد کے لئے نکلتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنا کچھ نہیں جس سے وہ تقویت حاصل کریں، یا مؤمنین کی ایک جماعت جن کے پاس حج بیت اللہ بجا لانے کے لئے اخراجات نہیں ہیں [یعنی مستطیع تھے اور حج ان پر واجب تھا لیکن استطاعت سے محروم ہوچکے ہيں اور اب نادار ہو چکے ہیں]، یا ہر طرح کی بھلائی اور خیر کی راہ میں۔

اور خدا کی راہ میں ایسے لوگ ہیں جو جہاد میں نکلتے ہیں لیکن ان کے پاس وہ چیز نہیں ہے جو ان کو تقویت دے، یا مومنوں کی ایک جماعت جن کے پاس وہ چیز نہیں ہے جس کے ساتھ وہ حج کر سکیں، یا ہر طرح کی بھلائی [جیسے مفاد عامہ کے بعض کاموں] کے لئے؛ تو امام پر واجب ہے کہ انہیں زکوٰۃ زکوٰة و صدقات کے مال میں سے عطا کرے، تاکہ ان کو حج اور جہاد کر سکیں۔

"وَابْنِ السَّبِيلِ" وہ راہ گیر اور مسافر ہیں جو اللہ کی اطاعت میں، سفر کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا مال ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے، تو امام پر واجب ہے کہ انہیں زکوٰة اور صدقات کے مال میں سے انہیں ان کے وطن لوٹا دے"۔

زکوٰۃ کب واجب ہوئی؟

زکوٰۃ کا حکم مکہ میں نازل ہؤا، لیکن چونکہ مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی اور زکوٰۃ سے حاصلہ آمدنی بہت بھی ناچیز تھی چنانچہ لوگ خود ہی زکوٰۃ ادا کیا کرتے تھے۔ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی تو حکم آیا کہ لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرکے اس کو بیت المال میں جمع کرایا جائے اور زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا کام اسلامی حاکم کے سپرد کیا گیا۔ ارشاد ہؤا:

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ؛ [3]

ان کے اموال کی زکوٰة آپ لے لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ انہیں پاک کر دیں اور انہیں برکت دیں اور ان کے لئے دعائے خیر کیجئے۔ یقینا آپ کی دعائے خیر ان کے لئے باعث سکون ہو گی"۔

زکوٰۃ اسلام کے لئے مختص نہيں ہے بلکہ سابقہ آسمانی ادیان میں بھی رائج رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اعجاز الٰہی سے بغیر بن باپ کے پیدا ہوئے اور بنی اسرائیلی کاہنوں نے سیدہ مریم (سلام اللہ علیہا) سے الٹے ترجھے سوالات پوچھنا شروع کئے تو سیدہۜ  نے نوزائیدہ بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کاہنوں سے اشارتاً کہا کہ اس بچے سے خود پوچھو تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوارے سے، اللہ تعالیٰ کے اذن سے فرمایا:

"قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا؛  

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا؛

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا؛ [4]

انھوں نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے"۔

اور مجھے برکت والا قرار دیا ہے جہاں بھی میں ہوں اور مجھے مامور کیا ہے نماز اور زکوٰة پر، جب تک کہ میں زندہ رہوں؛

اور نیک سلوک رکھنے والا اپنی ماں کے ساتھ اور مجھے اس نے بدنصیب سرکش نہیں بنایا ہے"۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:

"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ؛ [5]

اور نماز ادا کرو اور زکوٰة دیتے رہو اور رکوع کرنے والو ں کے ساتھ رکوع کرتے رہو"۔

تمام انبیاء (علیہم السلام) نیک اعمال، نماز اور زکوٰۃ کے پابند اور مبلغ تھے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ؛ [6]

اور ہم نے ان [انبیاء علیہم السلام)] کو امام بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق ہدایت کرتے ہیں اور ان کی جانب وحی بھیجی نیک کاموں کے کرنے اور نماز ادا کرنے اور زکوٰة دینے کی؛ اور وہ صرف ہماری عبادت کرتے تھے"۔

قرآن میں زکوۃ کے لئے چار قسم کے عناوین بیان ہوئے ہیں:

1۔ مال [بطور امداد و خیرات] دینا

"لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ؛ [7]

نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے منہ مشرق کی طرف کرتے ہویا مغرب کی کی طرف بلکہ نیکی کا نمونہ تو وہ ہے جو ایمان لائے اللہ اور روزآخرت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اس کی محبت میں مال صرف کرے رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں، [سفر خرچ کے بغیر راستے میں رہنے والے] پردیسیوں، اور مانگنے والوں پر اور [غلاموں، کنیزوں اور قیدیوں] کو رہا کرانے میں اور نماز بجا لائے اور زکوٰة ادا کرے، اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہوں جب کوئی قول قرار کریں اورفقر و فاقہ، بیماری اور ہنگام جنگ میں ثابت قدم رہیں، یہ وہ ہوتے ہیں جو سچے ہوں اور یہ ہوتے ہیں پرہیزگار لوگ"۔

2۔ صدقہ دینا

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً؛ [8]

آپ ان کے اموال کی زکوٰة لیجئے"۔

3۔ انفاق و خیرات

"قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً؛ [9]

کہئے میرے ان بندوں سے جو ایمان رکھتے ہیں کہ نماز کی پابندی کریں اور خیرات کریں اس سے کہ جو ہم نے انہیں دیا ہے پوشیدہ طور پر اور اعلانیہ طور پر"۔

4۔ زکوٰۃ لقمان کی ہدایات کی روشنی میں

"الم * تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ * وَرَحْمَةً لِلْمُحْسِنِينَ * الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ؛ [10]

الف لا میم *  یہ آیتیں ہیں حکمت بھری کتاب کی * ہدایت اور رحمت اچھے اعمال والوں کے لئے * جو نماز پڑھتے زکوٰة دیتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں"۔

زکوٰۃ نماز کی طرح دینی اخوت کی شرط ہے

ارشاد رب متعال ہے:

"فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ؛ [11]

اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں، اور ہم حقیقتوں کو صاف صاف پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو جاننا چاہیں"۔

"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ؛ [12]

اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ وہ نیک باتوں کی ہدایت کرتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن پر اللہ اپنی رحمت اتارے گا یقینا اللہ زبردست ہے، اور انتہائی حکمت والا"۔

زکوٰة کی اہمیت

قرآن کریم میں زکوٰة عام طور پر نماز کے ساتھ آتی ہے، اور دین کے واجبات میں سے کوئی بھی واجب اس انداز سے نماز کے ساتھ ساتھ نہیں آیا ہے۔ اور احادیث کے مطابق، نماز کی قبولیت کی شرط ادائے زکوٰة ہے۔ نماز اور زکوٰة کے درمیان یہ رشتہ در حقیقت انسان کا اللہ اور انسانوں سے، رشتہ ہے۔

سادات کے لئے زکوٰة لینا حرام ہے خواہ وہ زکوٰۃ کے کارگزار ہی کیوں نہ ہوں

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ أُنَاساً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ أَتَوْا رَسُولَ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلهِ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَسْتَعْمِلَهُمْ عَلَى صَدَقَاتِ اَلْمَوَاشِي وَقَالُوا يَكُونُ لَنَا هَذَا اَلسَّهْمُ اَلَّذِي جَعَلَ اَللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْعَامِلِينَ عَلَيْهَا فَنَحْنُ أَوْلَى بِهِ فَقَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلهِ يَا بَنِي عَبْدِاَلْمُطَّلِبِ إِنَّ اَلصَّدَقَةَ لاَ تَحِلُّ لِي وَلَا لَكُمْ؛ ولكنّي قد وُعدتُ الشفاعة؛ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اَللَّهِ (عَليهَ السَّلَامُ) وَاللَّهِ لَقَدْ وَعِدَهَا (صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ) [وَقَالَ] فَمَا ظَنُّكُمْ يَا بَنِي عَبْدِ اَلْمُطَّلِبِ إِذَا أَخَذْتُ بِحَلْقَةِ بَابِ اَلْجَنَّةِ أتروني مُؤْثِراً عَلَيْكُمْ غَيْرَكُم؟؛ [13]

بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ انہیں چوپایوں کی زکوٰۃ کے لئے اپنا کارگزار مقرر فرمائیں، اور کہا: زکوٰۃ کا حصہ خدائے عزّ و جلّ نے کارگزاروں کے لئے مقرر فرمایا ہے، اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں،! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اے عبدالمطلب (علیہ السلام) کے فرزندو! زکوٰۃ اور صدقہ نہ میرے لئے حلال ہے اور نہ ہی تمہارے لئے، تاہم مجھے اللہ نے شفاعت کا وعدہ دیا ہے۔ نیز امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: خدا کی قسم! آپؐ نے انہیں شفاعت کا وعدہ دیا اور [فرمایا:] اے عبدالمطلب (علیہ السلام) کے فرزندو] کیا تو سمجھتے ہو کہ جب میں باب جنت کا حلقہ (کڑا) پکڑ لوں گا تو تم پر دوسروں کو ترجیح دوں گا"۔

گوکہ اسلام غرباء اور مظلوموں کا حامی ہے لیکن قانونِ زکوٰۃ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام زکوٰة لینے والے غریب طبقے کی موجودگی کا خواہاں ہے، یا پھر زکوٰة دینے والے امیر طبقے کو چاہتا ہے بلکہ زکوٰة معاشرے کی ایک بیرونی حقیقت کے لئے ایک حل ہے۔ اغنیاء اورامراء اور صاحبان حیثیت لوگ بھی بہر صورت حادثات، جنگ، اسیری وغیرہ جیسے مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں اور اگر اسلامی نظام میں ان کے نقاصانات کا ازالہ کرنے اور سماجی سلامتی (Social Security) سوشل سیکورٹی کے لئے ایک بجٹ کا ہونا بہر صورت، ضرری ہے اور زکوٰة کے مصارف کو دیکھا جائے تو اس سے اس طرح کے بہت سارے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں۔

"وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ؛ [14]

اور وہ [نمازگزار] وہ ہیں جن کے مال میں ایک مقررہ حق ہے * سوال کرنے والے اور [سوال نہ سوال کرنے والے] محتاج کے لئے"۔ 

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَى أَبِي عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلٍ 'وَالَّذينَ فِي أمْوَالِهِمْ حَقٌ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ والْمَحْرُومِ' مَا هَذَا الْحَقُّ الْمَعْلُومُ؟ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: الحَقُّ المعلوم اَلشَّيْءُ يُخْرِجُهُ مِن مالِهِ لَيسَ مِنَ الزَّكاةِ ولا مِنَ الصَّدَقَةِ المَفروضَتَيْنِ۔ قَالَ: فَإِذَا لَمْ يَكُنْ مِنَ الزَّكاةِ ولا مِنَ الصَّدَقَةِ فَمَا هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ الشَّيْءُ يُخرِجُهُ الرَّجُلُ مِن مالِهِ إن شاءَ أكثَرَ وإن شَاءَ أَقَلَّ عَلَى قَدْرِ مَا يَمْلِكُ۔ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا يَصْنَعُ بِهِ؟ فَقَالَ: يَصِلُ بِهِ رَحِماً ويُقَوِّي بِهِ ضَعِيفاً ويَحْمِلُ بِهِ كَلاً أوْ يَصِلُ بِهِ أَخاً لَهُ فِي اَللَّهِ أَوْ لِنَائِبَةٍ تَنُوبُهُ۔ فَقَالَ اَلرَّجُلُ: 'اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ' [15] ؛ [16]

امام محمد باقر علیہ السلام) فرماتے ہیں ایک شخص میرے والد امام علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا: مجھے خبر دیجئے اللہ عزّ و جلّ کے قول 'اور وہ [نمازگزار] وہ ہیں جن کے مال میں ایک مقررہ حق ہے * سوال کرنے والے اور [سوال نہ کرنے والے] محتاج کے لئے'؛ یہ مقررہ اور معلوم حق کیا ہے؟

تو علی بن الحسین (علیہ السلام) نے فرمایا: حقِّ معلوم وہ چیز ہے جو انسان اپنے مال سے نکالتا ہے جو واجب زکوٰۃ اور صدقے کے زمرے میں نہیں آتا۔

بولا: تو جب زکوٰۃ بھی نہیں ہے صدقہ بھی نہیں ہے تو کیا ہے؟

فرمایا: وہ وہ چیز ہے جو ایک آدمی اپنے مال میں نکالتا ہے چاہے زیادہ ہو چاہے کم اس کے مال کے تناسب سے۔

بولا: تو وہ اس نکالے ہوئے مال سے کیا کرے گا؟

فرمایا: وہ اس مال سے رشتہ داریاں نبھاتا ہے، ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے، کسی خاندان کے اخراجات کا بوجھ ہلکا کرتا ہے، یا کسی دینی بھائی کی مدد کرتا ہے، جو مصیبت اور پریشانی میں ہے۔"

اس شخص نے کہا: اس آدمی نے کہا: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کا منصب کہاں رکھے"۔

فلسفۂ زکوٰۃ / اگر مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے!

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّمَا وُضِعَتِ الزَّكَاةُ اخْتِبَاراً لِلاغْنِيَاءِ ومَعُونَةً لِلْفُقَرَاءِ وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ أَدَّوْا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ مَا بَقِيَ مُسْلِمٌ فَقِيراً مُحْتَاجاً وَلَاسْتَغْنَى بِمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ؛ وَإِنَّ النَّاسَ مَا افْتَقَرُوا وَلَا احْتَاجُوا وَلَا جَاعُوا وَلَا عَرُوا إِلَّا بِذُنُوبِ الْأَغْنِيَاءِ وَحَقِيقٌ عَلَى اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعَالَى أنْ يَمْنَعَ رَحْمَتَهُ مَن مَنَعَ حَقَّ اللَّهِ فِي مَالِهِ؛ وَأُقْسِمُ بِالَّذِي خَلَقَ الخَلْقَ وبَسَطَ الرِّزْقَ أنَّهُ مَا ضاعَ مَالٌ فِي بَرٍ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا بِتَرْكِ الزَّكَاةِ وَمَا صِيدَ صَيدٌ فِي بَرٍّ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا بِتَرْكِهِ التَّسْبّيحَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، وَإنَّ أحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَسْخَاهُمْ كَفّاً وَأَسْخَى النَّاسِ مَن أَدَّى زَكَاةَ مَالِهِ وَلَمْ يَبْخَلْ عَلَى المُؤْمِنِينَ بِمَا افْتَرَضَ اللَّهُ لَهُمْ فِي مَالِهِ؛ [17]

مالِ زکوٰۃ امیروں کے آزمانے اور محتاجوں کی مدد کے لئے قرار دی گئی ہے۔ اگر لوگ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے، تو کوئی مسلمان محتاج نہ رہتا اور [وہ مسلمان] اس چیز کے واسطے سے جسے خدائے عزّ و جلّ نے اس کے لئے واجب کر دیا ہے، یقینا بے نیاز ہوجاتے؛ لوگ نہ فقیر ہوجاتے، نہ محتاج ہوجاتے، نہ بھوکے اور ننگے رہتے، مگر امیروں کے گناہ کی وجہ سے، [جو زکوٰۃ دینے سے  گریز کرتے ہیں] اور واجب ہے اللہ تبارک و تعالیٰ پر کہ اپنی رحمت کو اس شخص سے روک لے جس نے اپنے مال میں اللہ کے حق [کی ادائیگی] کو روک لیا ہے؛ اور میں قسم کھاتا ہے اس ذات کی جس نے مخلوقات کو خلق فرمایا اور رزق کو پھیلا دیا برّ و بحر میں کوئی بھی مال ضائع نہیں ہؤا مگر زکوٰۃ ترک کرنے کی وجہ سے، اور برّ و بحر میں کوئی بھی چیز شکار نہیں ہوئی مگر یہ اس [شکار ہونے والے] نے اس دن اللہ کی تسبیح کو ترک کر دیا تھا، اور یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو سب سے زیادہ سخی ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وہ ہے جو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور مؤمنوں کو وہ چیزیں ادا کرنے سے کبھی بخل نہیں برتتا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے مال میں، ان [مؤمنین] کے لئے فرض کر دیا ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ فَرَضَ فِي أَمْوَالِ الْأَغْنِيَاءِ أَقْوَاتَ الْفُقَرَاءِ، فَمَا جَاعَ فَقِيرٌ إِلَّا بِمَا مُتِّعَ بِهِ غَنِيٌ، وَاللَّهُ تَعَالَى سَائِلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ؛ [18]

اللہ سبحانہ نے امراء کی دولت میں فقراء کی روزی روٹی فرض کر دی ہے، چنانچہ کوئی غریب بھوک میں مبتلا نہیں ہؤا سوائے اس کے کہ امیر شخص نے اس کا حق کھا کر خود کو [مالدار] نہیں بنایا؛ اور اللہ تعالیٰ اس شخص سے جواب لے گا"۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ افراد کی آمدنی کو نہیں بڑھنے دینا اور محدود رکھنا چاہئے، لیکن اسلام کی روش یہ ہے کہ لوگوں کو متناسب آزادی دینا چاہئے تاکہ انسان اپنی کوششوں، تخلیقی صلاحیتوں اور فطری ذرائع سے فائدہ اٹھا کر ترقی کریں، آمدنی کمائیں، لیکن انہیں مالیہ اور محصول وغیرہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔

ہشت گانہ مصارف میں سے ایک مصرف "فِي سَبِيلِ اللَّهِ" ہے جس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وصول کرنے والا محتاج اور نادار ہو بلکہ جہاں بھی مکتب اسلام کی حکمرانی میں مدد دے، اس مد میں زکوٰۃ ادا کی جائے۔

معاشرے کو شرپسند افراد کے شر سے بچانے کے لئے بھی زکوٰۃ کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے، اور یہ "والمؤلفة قلوبهم" کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر کسی پر ہرجانہ یا دیت واجب ہو اس کے لئے ادا کی جانے والی زکوٰۃ "والغارمین" کی مد میں آئے گی اور اسی مد میں ایسے افراد کی مدد کی جا سکتی ہے۔

غلاموں اور کنیزوں کو "وَفِي الرِّقَابِ" کے تحت زکوٰۃ دے کر آزاد کرانے کا حکم ہے چنانچہ عین ممکن ہے کہ قیدیوں کی رہائی یا ان کے اخراجات کی تکمیل کے لئے بھی اسی مد میں زکوٰۃ ادا کی جا سکے۔

آٹھ مصارف میں زکوٰۃ کی تقسیم کا یکسان ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اسلامی حاکم کے زیر نگرانی زکوٰۃ کو حسب ضرورت تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

زکوٰۃ دولت کو معتدل کرنے کا ذریعہ ہے۔

زکوٰۃ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا عملی تشکّر ہے۔

زکوٰۃ معاشرتی طبقوں کے درمیان فاصلہ کم کرتی ہے اور امراء اور غرباء کی باہمی نفرتوں کو مٹا دیتی ہے۔

زکوٰۃ، انسانوں میں سخاوت اور رحمت کی روح کو زندہ کر دیتی ہے، اور دنیا پرستی اور مادی وابستگیوں کو کم کرتی ہے۔

زکوٰۃ محرومین کے لئے سماجی سلامتی یا سوشل سیکورٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔

زکوٰۃ غریب سے کہتی ہے: فکر نہ کرو؛

دیوالیہ شخص سے کہتی ہے: اٹھو، حوصلہ مت ہارو، ایک بار پھر کوشش کرو؛

مسافر سے کہتی ہے: راستے میں رہ جانے سے مت گھبراؤ؛

ملازمین سے کہتی ہے: تمہارا حصہ محفوظ ہے؛

غلاموں اور کنیزوں کو آزادی کا وعدہ دیتی ہے۔

زکوٰۃ الٰہی خدمات کے بازار کو رونق دیتی ہے اور دوسروں کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرتی ہے۔

اللہ کی یاد سے غفلت، لوگوں کا استحصال، سنگ دلی اور شقاوت، طغیان اور سرکشی، عیاشی، تکاثر (ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی فکر) اور مال اندوزی بیماریاں ہیں اور ان کا علاج اور دوا زکوٰۃ ہے۔

زکوٰۃ محرومیت اور غربت کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی طرف رغبت و رجحان بھی بڑھا دیتی ہے، یا کم از کم، مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون سے روک لیتی ہے۔

غربت کفر پر منتج ہو سکتی ہے؛ نجات کا راستہ انفاق اور زکوٰۃ

امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا

"كَادَ اَلْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْراً؛ [19]

قریب ہے کہ فقر و غربت کفر پر منتج ہو جائے"۔

بے روزگاری معاشرے میں بہت سی برائیوں کو جنم دیتی ہے، اور اگر لوگ خمس اور زکوٰۃ ادا کریں تو معیشت کا پھیہ گھومنے لگتا ہے اور بہت سارے بے روزگار لوگ کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں۔ مضاربہ اور قرض الحسنہ کے ذریعے بھی روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں، جس کے لئے خمس، زکوٰۃ یا بخشش اور بلا معاوضہ امداد کے ذریعے ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگوں کی تعلیم کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں، پیشہ ورانہ تعلیم دی جا سکتی ہے، تعمیراتی کام کئے جا سکتے ہیں اور بے روزگاروں کو روزگار دلایا جا سکتا ہے اور انہیں معاشرتی برائیوں سے دور کیا جا سکتا ہے، لوگوں کو دین و ایمان کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے، صلاحیتوں کو بالیدگی دی جا سکتی ہے، اور اپنے اور دوسروں کو ہلاکت سے بچایا جا سکتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے خدائے متعال نے فرمایا:

"وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ؛ [20]

اور خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑواور احسان کرو، بلا شبہ اللہ احسان کرنے والوں کو کو دوست رکھتا ہے"۔

زکوٰۃ نہ دینے کے خطرناک نتائج

جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز باطل ہے

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَا يَقْبَلُ اللهُ الصَّلَاةَ مِمَّنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ؛ [21]

خدائے متعال اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو زکوٰۃ کو روک لیتا ہے"۔

اموال اور اثاثے تباہ ہو جاتے ہیں

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا

"مَا ضَاعَ مَالٌ فِي بَرٍّ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا بِتَضْيِيعِ الزَّكاةِ، فَحَصِّنُوا أمْوَالَكُم بِالزَّكَاةِ؛ [22]

برّ و بحر میں کوئی بھی مال ضائع نہیں ہوتا سوا اس کے کہ زکوٰۃ کو ضائع کیا جائے، تو تم زکوٰۃ کے ذریعے اپنے اموال کا بیمہ کروا دو"۔

نیز امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ وَحَصِّنُوا أَمْوَالَكُمْ بِالزَّكَاةِ وَأَنَا ضَامِنٌ لِكُلِّ مَا يَتْوَى فِي بَرٍّ أَوْ بَحْرٍ بَعْدَ أَدَاءِ حَقِّ اَللَّهِ فِيهِ مِنَ اَلتَّلَفِ؛ [23]

اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کروا دو، اور اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ دے کر محفوظ بنا دو، اور میں ـ حق اللہ کی ادائیگی کے بعد ـ زمین یا سمندر میں موجود تمہاری ہر چیز کی ضمانت دیتا ہوں کہ تلف نہ ہو"۔

دوہرا گھاٹا

خسارت دو برابر باطل کی راہ میں

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ مَنَعَ حَقّا للّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفَقَ فِي بَاطِلٍ مِثْلَيْهِ؛ [24]

جو اللہ کا حق ادا نہ کرے اس کو باطل کی راہ میں دو گنا مال و متاع خرچ کرنا پڑے گا"۔

اپنا مال مجبور ہو کر شرپسندوں اور شرانگیزوں کو دینا پڑے گا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ مَنَعَ مَالَهُ مِنَ الْأَخْيَارِ اخْتِيَاراً صَرَفَ اللَّهُ مَالَهُ إِلَى الْأَشْرَارِ اضْطِرَاراً؛ [25]

حو شخص اپنے اختیار سے اپنا مال نیک لوگوں سے روک لے، خدائے متعال اسے مجبور کرتا ہے کہ اپنا مال بالجبر اشرار [اور برے لوگوں] کے لئے خرچ کر دے"۔

هزینه در راه گناه

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَاعْلَمْ أَنَّهُ مَنْ لَمْ يُنْفِقْ فِي طَاعَةِ اَللَّهِ اُبْتُلِيَ بِأَنْ يُنْفِقَ فِي مَعْصِيَةِ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَ‏ وَمَنْ لَمْ يَمْشِ فِي حَاجَةِ وَلِيِّ اَللَّهِ اُبْتُلِيَ بِأَنْ يَمْشِيَ فِي حَاجَةِ عَدُوِّ اَللَّهِ عَزَّ وَجَلَ‏؛ [26]

جان لو کہ جو شخص اپنا مال اللہ کی اطاعت کی راہ میں خرچ نہ کرے، تو وہ خدا کی نافرمانی کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے سے دوچار ہوگا، اور جو شخص اللہ کے ولی کی راہ پر قدم نہيں رکھے گا، وہ اللہ کے دشمنوں کے مسائل حل کرنے [کی مصیبت] سے دوچار ہوگا"۔

قلت اور قحط

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"لاَ تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا تَحَابُّوا وَتَهَادَوْا وَأَدَّوُا اَلْأَمَانَةَ وَاجْتَنَبُوا اَلْحَرَامَ وَقَرَوُا اَلضَّيْفَ وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا اَلزَّكَاةَ فَإِذَا لَمْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ اُبْتُلُوا بِالْقَحْطِ وَاَلسِّنِينَ؛ [27]

میری امت بخیر اور خوش ہوگی جب تکہ وہ [مسلمان] آپس میں دوستی نبھاتے رہیں گے، امانت ادا کرتے رہیں گے، حرام سے پرہیز کریں گے، مہمان کی پذیرائی کریں گے، نماز قائم رکھیں گے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے؛ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو قحط اور خشک سالی سے دوچار ہیں"۔  

اعمال کا اکارت ہونا اور دینی مراکز کی تعمیر سے محرومی

"مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ * إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ؛ [28]

مشرکوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ، اپنے اوپر کفر کا اقرار کرتے ہوئے، اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے * اللہ کی مسجدوں کو تو بس وہ آباد کرے گا جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور نماز پڑھے اور زکوٰة ادا کرے اور اللہ کے سوا کسی سے ڈرے نہیں"۔

زمین سے برکتوں کا اٹھ جانا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"إِذَا مُنِعَتِ اَلزَّكَاةُ مَنَعَتِ اَلْأَرْضُ بَرَكَاتِهَا؛ [29]

ہرگاہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو روکا جائے، زمین [زکوٰۃ کے مانعین سے] اپنی برکتیں روک لے گی"۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَا نَقَضَ قَوْمٌ الْعَهْدَ قَطُّ، إِلَّا كَانَ الْقَتْلُ بَيْنَهُمْ، وَلَا ظَهَرَتِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْمَوْتَ، وَلَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّكَاةَ، إِلَّا حَبَسَ اللَّهُ عَنْهُمُ الْقَطْرَ؛ [30]

کسی قوم نے بھی عہد نہیں توڑا سوا اس کہ کہ کشت و خون ان کے درمیان رائج ہؤا؛ اور کسی بھی قوم میں برائی رائج نہیں ہوئی سوا اس کے کہ اللہ نے ان پر موت کو مسلط کر دیا؛ اور کسی قوم نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو نہیں روکا سوا اس کے کہ اللہ نے ان سے باران رحمت کو ان سے روک لیا"۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہم نے یہ کلام امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی کتاب میں پایا کہ آپؑ نے فرمایا:

"وَإِذَا مَنَعُوا الزَّكَاةَ مَنَعَتِ الْأَرْضُ بَرَكَتَهَا مِنَ الزَّرْعِ وَالثِّمَارِ وَالْمَعَادِنِ كُلَّهَا؛ [31]

جب لوگ اپنے اموال سے زکوٰۃ نکالنا روک دیں تو زمین اپنی برکتیں زراعت، پھلوں اور معدنیات سے اپنی برکتیں روک لیتی ہے"۔

اللہ کی رحمت سے محرومی

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَحَقِيقٌ عَلَى اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعَالَى أنْ يَمْنَعَ رَحْمَتَهُ مَن مَنَعَ حَقَّ اللَّهِ فِي مَالِهِ؛ [32]

اور واجب ہے اللہ تبارک و تعالیٰ پر کہ اپنی رحمت کو اس شخص سے روک لے جس نے اپنے مال میں اللہ کے حق [کی ادائیگی] کو روک لیا ہے؛

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو مسجد سے نکال باہر کیا

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) مسجد میں داخل ہوئے اور فرمایا:

"قُمْ يَا فُلَانُ قُمْ يَا فُلَانُ قُمْ يَا فُلَانُ حَتَّى أَخْرَجَ خَمْسَةَ نَفَرٍ، فَقَالَ اخْرُجُوا مِنْ مَسْجِدِنَا لَا تُصَلُّوا فِيهِ وَأَنْتُمْ لَا تُزَكُّونَ؛ [33]

اٹھو اے فلان، اٹھے اے فلان، اٹھے اے فلان، اور فرمایا: ہماری مسجد سے نکل جاؤ، اس میں نماز نہ پڑھو، حالانکہ تم زکوٰۃ نہیں دے رہے ہو"۔

بے شک نمازی کنجوس نہیں ہوتے

"إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا * إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا * وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا * إِلَّا الْمُصَلِّينَ * الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ * وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ * لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ؛ [34]

بے شک انسان کم ہمت (بے چین، گھبرایا ہؤا] پیدا ہؤا ہے * جب اس پر جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بے قرار ہو جاتا ہے * اور جب کچھ بھی دولت ہاتھ آتی ہے تو بخل [اور کنجوسی] سے کام لیتا ہے * سوا ان نماز گزاروں کے * جو ہمیشہ نماز کے پابند رہتے ہیں * اور جن کے مال میں ایک مقرر حق [ہوتا] ہے * سوال کرنے والے اور محتاج کے لئے"۔

منافقوں کی علامت

خدائے عزّ و جلّ قرآن کریم میں منافقین کا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:  

"الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ؛ [35]

منافق مرد اور منافق عورتیں، سب ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں برائیوں پر اکساتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے تو وہ بھی انہیں بھول گیا [اور انظرانداز کیا]"۔

نماز اور عبادات کی عدم قبولیت

قبول نشدن نماز و عبادات

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے خطبۃ الوداع میں ارشاد فرمایا:

"أَيُّهَا النَّاسُ، أَدُّوا زَكَاةَ أَمْوالَكُمُ؛ أَلَا مَنْ لَا يُزَكِّي فَلَا صَلَاةَ لَهُ، أَلَا مَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ لَا دِينَ لَهُ وَلَا صَوْمَ لَهُ وَلَا حَجَّ لَهُ وَ لَا جِهَادَ لَهُ؛ [36]

اے لوگو! اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو، جان لو کہ جو زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز باطل ہے، جان لو کہ جس کی نماز باطل ہو اس کا کوئی دین نہیں ہے، اور کوئی روزہ، ، کوئی حج اور کوئی جہاد قبول نہیں ہے"۔

حضرت موسیٰ (علیٰ نبینا و آلہ و علیہ السلام) کا ایک قصہ: زکوٰۃ کے بغیر نماز قبول نہیں ہے

محدث نوری اور محمد بن اسحاق خوارزمی نے نقل کیا ہے:

"وَمَرَّ مُوسَى عَلَى شابٍ يُصَلِّي صَلاَةً حَسَنَةً فَقَالَ مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ صَلاَةً مِنْهُ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ مَا أَجْوَدَهُ بِالصَّلاةِ وأبْخَلَهُ بِالزَّكاةِ، لَا أقبَلُها حَتَّى يُحَسِّنَ اَلصَّلاَةَ مَعَ اَلزَّكَاةِ فَإِنَّهُمَا مقْرُونَتَانِ؛ [37]

قطب راوندی (رحمہ اللہ) نے نقل کیا ہے کہ حضرت موسی (علیہ السلام) ایک نوجوان کے قریب سے گذرے جو بہت خوبصورتی سے نماز ادا کر رہا تھا، تو کہا: میں نے اس نوجوان کی نماز سے بہتر نماز کہیں نہیں دیکھی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی بھیج کر فرمایا: کتنا سخی ہے یہ نوجوان نماز کی ادائیگی میں اور کتنا بخیل ہے زکوٰۃ کی ادائیگی میں، میں اس کی نماز قبول نہیں کروں گا جب تک کہ یہ اپنی نماز کو زکوٰۃ سے خوبصورت نہيں بنائے گا، کیونکہ نماز اور زکوٰۃ جڑی ہوئی ہیں"۔

تین اعمال کی قبولیت کی تین شرطیں

"إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَ بِثَلاَثَةٍ مَقْرُونٍ بِهَا ثَلاَثَةٌ أُخْرَى أَمَرَ بِالصَّلاَةِ وَاَلزَّكَاةِ فَمَنْ صَلَّى وَلَمْ يُزَكِّ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ صَلاَتُهُ وَأَمَرَ بِالشُّكْرِ لَهُ وَلِلْوَالِدَيْنِ فَمَنْ لَمْ يَشْكُرْ وَالِدَيْهِ لَمْ يَشْكُرِ اَللَّهَ وَأَمَرَ بِاتِّقَاءِ اَللَّهِ وَصِلَةِ اَلرَّحِمِ فَمَنْ لَمْ يَصِلْ رَحِمَهُ لَمْ يَتَّقِ اَللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؛ [38]

یقینا اللہ تعالیٰ تین چیزوں کا حکم دیا جو کہ تین دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ہیں؛ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا، تو جس نے نماز ادا کی اور زکوٰۃ نہیں دی تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی؛ اور اپنے اور والدین کے شکر کا حکم دیا تو جس نے والدین کا شکر ادا نہیں کیا، اس نے خدا کا شکر بھی ادا نہیں کیا ہے؛ اور تقوائے الٰہی اور صلہ رحمی (اور قرابت داروں کے ساتھ رشتہ قائم رکھنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے) کا فرمان دیا تو جس نے صلہ رحمی سے گریز کیا اس نے تقوائے الٰہی بھی اختیار نہیں کیا ہے"۔

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا سودخور کی مانند

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سورہ ماعون کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"أَلَا إِنَّ الْمَاعُونَ الزَّكَاةُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِى نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا خَانَ اللَّهَ أَحَدُ شَيْئاً مِنْ زَكَاةِ مَالِهِ إِلَّا مُشْرِكٌ؛ [39]

جان لو کہ ماعون سے مراد زکوٰۃ ہے اور قسم ہے اس خدا جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جان ہے، کسی نے بھی اپنے مال کی  زکوٰۃ میں خدا کے ساتھ خیانت نہیں کی سوا اس کو جو مشرک ہے"۔

"وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ ( صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ) أَنَّهُ لَعَنَ مَانِعَ الزكوة وَآكِلِ الرِّبَا؛ [40]

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ آپؐ نے زکوٰۃ روکنے والے اور سود کھانے والے پر لعنت بھیجی ہے"۔

"السُّرَّاقُ ثَلَاثَةٌ: مَانِعُ الزَّكَاةِ، وَمُسْتَحِلُّ مُهُورِ النِّسَاءِ، وَكَذَلِكَ مَنِ اسْتَدَانَ دَيْناً وَلَمْ يَنْوِ قَضَاءَهُ؛ [41]

چور تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو [اپنے مال کی] زکوٰۃ کو روک لے، دوسرا وہ جو عورتوں کے حق مہر [کھانے] کو اپنے لئے جائز سمجھے؛ تیسرا وہ جو قرض مانگے لیکن اس کی ادائیگی کا ارادہ نہیں رکھتا"۔ 

**************

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

 

[1]. شیعہ فقہ کے مطابق: مؤلفۃ قلوبہم عسکری فقہ کی اصطلاحات میں سے ہے جس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے کہ جنہیں زکوٰۃ دی جاتی ہے تاکہ ان کے دل اسلام کی طرف راغب و مائل ہوجائیں یا اسلام اور کسی اسلامی ملک کی حمایت پر خرچ کی جائے۔ قرآن کریم نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف کو مؤلفۃ قلوبہم کے لئے مختص کر دیا ہے۔ / ریختہ ڈکشنری میں مؤلفۃ القلوب کی تعریف: (تاریخ) وہ مسلمان جو سب سے زیادہ ہمدردی اور اعانت کے مستحق ہوں (خصوصاً مسلمان جو، مہاجرین و انصار کے علاوہ بہت زیادہ ہمدردی کے مستحق تھے یا وہ نو مسلم جن کے معاشی تنگ دستی کے باعث اسلام سے پھر جانے کا خدشہ تھا۔

[2]۔ القمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، ج2، ص299-300؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج9، ص212۔

[3]۔ سورہ توبہ، آیت 103۔

[4]۔ سورہ مریم، آیات 30 تا 32۔

[5]۔ سورہ بقرہ، آیت 43۔

[6]۔ سورہ انبیاء، آیت 73۔

[7]۔ سورہ بقرہ، آیت 177۔

[8]۔ سورہ توبہ، آیت 103۔

[9]۔ سورہ ابراہیم، آیت 31۔

[10]۔ سورہ لقمان، آیات 1 تا 4۔

[11]۔ سورہ توبہ، آیت 11۔

[12]۔ سورہ توبہ، آیت 71۔

[13]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج4، ص58؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج6، ص186۔

[14]۔ سورہ معارج، آیت 24-25۔

[15]۔ سورہ انعام، آیت 124۔

[16]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج3، ص500؛  العروسی الحویزی، عبد علی بن جمعہ، ج5، ص417؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، ج9، ص49۔

[17]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص7-8۔

[18]۔ نہج البلاغہ، حکمت 328۔

[19]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص307؛ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ج1، ص11۔

[20]۔ سورہ بقرہ، آیت 195۔

[21]. علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانواری، ج93، ص29؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج7، ص8۔

[22]۔ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج9، ص28۔

[23]. الطبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص387۔

[24]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج3، ص506۔

[25]۔ الشعیری، محمد بن محمد، جامع الأخبار، ص505؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج12، ص435۔

[26]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص412۔

[27]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا (علیہ السلام)، ج2، ص29۔

[28]۔ سورہ توبہ، آیات 17-18۔

[29]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج3، ص505۔

[30]۔ الحاکم النیسابوری، محمد بن عبد اللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص136؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج70، ص370۔

[31]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج2، ص584۔

[32]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص7-8۔

[33]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ ج2، ص12؛ الشیخ المفید، محمد بن محمد العکبری،المقنعہ، باب من الزیادات فی الزکاۃ، ص268۔

[34]. سورہ معارج، آیات 19 تا 50۔

[35]۔ سورہ توبہ، آیت 67۔

[36]۔ الخوارزمی، محمد بن اسحاق، إثارۃ التّرغیب والتّشویق إلى المساجد الثّلاثۃ والبيت العتيق، ج1، ص317؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج7، ص11۔

[37]۔ القطب الراوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، لب اللباب، ج1، ص421؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج7، ص17-18، ح7523۔

[38]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ب1، ص156؛ وہی مصنف، عيون أخبارالرضا (علیہ السلام)، ج1، ص258؛ بہاء الدین الاربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ (علیہم السلام)، ج2، ص293؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، ج9، ص25۔

[39]۔ القاضی المغربی، نعمان بن محمد التمیمی المغربی، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام۔۔۔، ج1، ص247؛

[40]۔ القاضی المغربی، وہی ماخذ، ج1، ص248؛

[41]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ج1، ص159؛ الشیخ الطوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج10، ص153؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج96، ص29؛ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل، ج7، ص24۔