1 اپریل 2025 - 13:30
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

"اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو [لوگوں کو] بھلائی کی دعوت دیتی ہو، نیک کاموں کی ہدایت کرتی ہو اور برائیوں سے منع کرتی ہو اور یہی فلاح پانے والے اقبال مند لوگ ہیں"۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر و نہی کی اہمیت

"وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ [1]

اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو [لوگوں کو] بھلائی کی دعوت دیتی ہو، نیک کاموں کی ہدایت کرتی ہو اور برائیوں سے منع کرتی ہو اور یہی فلاح پانے والے اقبال مند لوگ ہیں"۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا ہے؟

امر بالمعروف یعنی اچھائیوں کی ہدایت کرنا اور نہی عن المنکر یعنی بدیوں سے باز رکھنا۔

یہ عمل معاشرے کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے، کیونکہ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا:

"يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ؛ [2]

اے بیٹے ! نماز قائم کرتے رہنا، اور اچھے کاموں کا حکم دیتے [اور لوگوں کو ان پر آمادہ کرتے] رہنا، اور برائی سے منع کرتے رہنا، اور جو تمہیں مصیبت در پیش ہو، اس پر صبر کرتے رہنا، یقینا یہ [صبر] انسان کے لئے ضروری اور اہم کاموں میں سے ہے"۔

امر بالمعروف دین و مکتب سے محبت، معاشرے کی سلامتی کی علامت اور صحتمند معاشرے کے قیام سے دلی لگاؤ کی نشانی ہے۔ امر بالمعروف بیان کی آزادی، دینی غیرت، لوگوں کے درمیان دوستانہ تعلق، فطرت کی بیداری، عمومی نظارت و نگرانی اور معاشرتی میدان میں موجودگی کا ثبوت ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، مفاد عامہ

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: امر اور نہی مفاد عامہ کے زمرے میں آتا ہے:

"وَالْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ؛ [3]

اللہ نے ایمان کو فرض کر دیا اس لئے کہ [تمہیں] شرک سے پاک کر دے، اور نماز کو فرض کیا اس لئے کہ [تمہیں] تکبر [اور بڑائی جتانے جیسی برائی] سے پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا"۔

امر و نہی ترک کرنا، کتاب اللہ کے پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے [معاذ اللہ]

امام زین العابدین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اَلتَّارِكُ اَلْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَلنَّهْيِ عَنِ اَلْمُنْكَرِ كَنَابِذِ كِتَابِ اَللَّهِ وَرَاءَ ظَهْرِهِ؛ [4]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے والا کتاب خدا کو اپنے پیچھے پھینکنے والے کی طرح ہے"۔

بعض بزرگوں سے سنا گیا ہے کہ "نہی عن المنکر کو ترک کرنا زخمی شخص کو سڑک کے کنارے اپنے حال پر چھوڑنے اور مرنے دینے کے متراف ہے"۔

حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے ان لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو برائیوں سے سے نہیں روکتے:

ارشاد ربانی ہے:

"لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ * كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ؛ [5]

بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا، ان پر لعنت ہوئی داؤد اور عیسیٰ فرزند مریم کی زبان سے۔ یہ اس لئے کہ انھوں نے نافرمانی سے کام لیا اور وہ حد سے گزر جایا کرتے تھے * وہ کسی برائی سے جو وہ کرتے تھے، ایک دوسرے کو روکتے نہ تھے۔ کیا برا تھا وہ طرز عمل جو وہ اختیار کیے ہوئے تھے"۔

امام حسین (علیہ السلام) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے قیام کیا؛ فرماتے ہیں:

"إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي (صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِه) أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالمَعْرُوفِ وَأَنْهَي عَنِ المُنْكَرِ وَأَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي (صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِه) وَأَبِي عَلِيِّ ابْنِ ابِي طَالِبٍ عَلَيهِ السَّلَامُ؛ [6]

بے شک میں نے قیام کیا اس لئے کہ اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امت میں اصلاح چاہتا ہوں؛ میں چاہتا ہوں کہ اچھائیوں کی ہدایت کروں اور برائیوں سے منع کروں اور اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بابا امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر گامزن رہوں [اور گامزن کر دوں]"۔

گناہ کے مقابلے میں خاموشی اور بے اعتنائی سبب بنتی ہے کہ گناہوں کا ارتکاب معمول بن جائے اور گنہگار شخص جری اور بے پروا ہوجائے، ہم سب سنگدل اور قسی القلب ہوجائیں، شیطان راضی اور خوشنود ہوجائے اور اللہ ہم پر غضب کرے۔

امر و نہی مختلف زاویے سے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر کسی مجلس میں اللہ کی آیتوں یا اللہ کے انبیاء، اولیاء اور بزرگان دین کی توہین ہوتی ہو تو اس مجلس کو ترک کرو:

"وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا؛ [7]

اور اس نے تم پر قرآن میں یہ اتار دیا ہے کہ جب سنو اللہ کی ان آیات کو کہ حن کا انکار ہو رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے پاس مت بیٹھو، جب تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں مصروف نہ ہو جائیں۔ ورنہ تم ان ہی جیسے ہو جاؤگے۔ بلاشبہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو دوزخ میں اکٹھا کر دے گا"۔

نیز فرمایا:

"وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ؛ [8]

اور جب تم دیکھو کہ کچھ لوگ [جھٹلانے اور تردید و تکذیب کرنے کی نیت سے] ہماری آیتوں کے بارے میں نکتہ چینی میں مصروف ہیں، تو ان سے بے رخی اختیار کرو، جب تک کہ وہ کسی اور بات چیت میں مصروف نہ ہوجائیں، اور شیطان تمہیں [اس سلسلے میں] فراموشی سے دوچار کر دیں، تو جب تم متوجہ ہو جاؤ، تو ظالم جماعت کے ساتھ نہ بیٹھو"۔

سورہ نساء، کی آیت 140 کے مصادیق کے تعین کے سلسلے میں ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔ جن میں بطور مثال فرمایا گیا ہے کہ کہ کوئی حق کا انکار کرے اور ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کی بدگو‏‏ئی کرے، اس سے دوری اختیار کرو۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"'مَن كَانَ يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ' فَلاَ يَجْلِسُ مَجْلِساً يُنْتَقَصُ فِيهِ إِمَامٌ أَوْ يُعَابُ فِيهِ مُؤْمِنٌ؛ [9]

'جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو' وہ ایسی مجلس میں نہیں بیٹھتا جس میں کسی امام کی تنقیص ہوتی ہو یا کسی مؤمن کی عیب جوئی ہوتی ہو"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا سَمِعْتُمُ الرَّجُلَ الَّذِي يَجْحَدُ الْحَقَّ وَيُكَذِّبُ بِهِ وَيَقَعُ فِي الْأَئِمَّةِ فَقُمْ مِنْ عِنْدِهِ وَلَا تُقَاعِدْهُ كَائِناً مَنْ كَانَ؛ [10]

اگر تم کسی ایسے آدمی کو سنو جو حق کا انکار کرے، اسے جھٹلائے اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) کو برا کہے تو اس کے پاس سے اٹھو اور اس کے ساتھ نہ مصاحبت نہ رکھو، خواہ وہ کوئی بھی ہو؛ (وہ مجلس و اور بیٹھک کہیں بھی ہو، بدگوئی کرنے والا کوئی بھی ہو اور بدگوئی کی نوعیت جیسی بھی ہو)"۔

آیات اللہ [یعنی اللہ کی نشانیاں] ائمۂ معصومین (علیہم السلام) ہیں

امام صادق (علیہ السلام) سورہ یونس کی آیت 101 [11] کی تفسیر میں، فرماتے ہیں:

"الْآيَاتُ هُمُ الْأَئِمَّةِ وَالنُّذُرُ هُمُ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيهِمُ السَّلَامُ؛ [12]

"آيَاتِ اللَّهِ" سے مراد ائمۂ معصومین (علیہم السلام) ہیں اور "تنبیہات" سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں"۔  

انسان کو گناہ کے انجام سے دل میں ناراض ہونا چاہئے، زبان سے نہی کرنا چاہئے اور طاقت اور قانون کو استعمال کرکے اس کا سد باب کرنا چاہئے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دو الٰہی فرائض ہیں چنانچہ یہ وہم کہ "دوسروں کے گناہوں کا ہم سے کیا تعلق ہے، ہمیں لوگوں کی آزادیوں کو نہیں چھیننا چاہئے، یا 'میں ڈرتا ہوں' یا 'مجھے شرم آتی ہے'، میں اگر امر و نہی کروں تو اس کا اثر ہو سکتا ہے، ایک پھول اگنے سے بہار نہیں آتی، عیسیٰ کو اپنے دین پر رہے دو اور موسیٰ کو اپنے دین پر، میری قبر الگ ہے دوسروں کی الگ ہيں، دوسروں کے ہوتے ہوئے میں کیوں امر و نہی کروں، میں کاروباری ہوں، سماجی شخصیت ہوں، دکاندار ہوں، محلے کا پیش امام ہوں، اگر میں امر و نہی کروں تو میرے گاہک، میرے پرستار، میرے خریدار، میرے اقتدا میں نماز پڑھنے والے نمازی، مجھ سے ناراض ہونگے اور میرے حلقۂ اثر میں کمی آئے گی؛ سب وہ حیلے بہانے ہیں جو اللہ کے عائد کردہ فرائض کو ایک مسلمان کے کندھوں سے نہیں اتارتے۔

آداب اور شرائط

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو آگاہانہ، ہمدردانہ، دل سوزانہ، دانشمندانہ اور بامقصد اور ممکنہ حد تک 'خفیہ' ہونا چاہئے۔ معمول یہ ہے کہ ہم خود اچھائیوں کی ہدایت کریں اور برائیوں سے روکیں مگر اگر اس جگہ یا اس موقع پر، ہماری بات مؤثر نہ تھی تو اس سے ہمارے فریضے کی نفی نہیں ہوتی۔ بلکہ دوسروں کو بلانا چاہئے کہ وہ امر و نہی کریں۔ حتی اگر وقتی طور پر بھی برائی کا سد باب کرنا ممکن ہو تو اس کا سد باب کرنا چاہئے، اور اگر امر و نہی دہرانے سے یہ کام ممکن ہو تو دہرانا چاہئے۔

امر و نہی کی اشکال

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی انجام دہی ان دو شکلوں میں ممکن ہے:

1۔ اس الٰہی فریضے او ایک عمومی اور ہمہ گیر ذمہ داری کے طور پر رائج کیا جائے تاکہ ہر کوئی اپنی صلاحیتوں کی حدود میں امر و نہی کریں۔ مثلا اگر سڑک پر ایک ڈرائیور قانون کی خلاف ورزی کرے تو دوسرے ڈرائیور ہارن بجا کر اس سے احتجاج کریں اور اسے خبردار کریں، اور پولیس سے بھی مدد لیں۔

2۔ ایک منظم، مربوط اور ہم آہنگ ادارہ اس ذمہ داری کے لئے قائم کیا جائے اور پوری قوت سے اس فریضے پر عملدرآمد کرے؛ اچھائیوں کی ہدایت کرے اور برائیوں سے روکے، اور پولیس کو بھی لے کر خلاف ورزی کرنے والے سے نمٹ لیں۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراتب و مدارج

1۔ گناہ اور برائی سے قلبی انکار

یعنی جب انسان گناہ اور برائی کو دیکھتا ہے تو [کم از کم] چیں بجبیں ہوجائے، پیشانی پر بل ڈالے، منہ موڑے اور مرتکبین کے ساتھ آنا جانا بند کرے، خلاصہ اس انداز سے اپنی ناراضگی ظاہر کرے۔

2۔ زبانی انکار

یعنی اگر انسان سمجھ لے کہ پہلا طریقہ مؤثر نہیں ہے تو دوسرے مرحلے میں نرم انداز میں مرتکبین کو ان کے گناہ کی طرف متوجہ کرا دے۔ یہ روش بھی کامیاب نہ ہو تو تحکم کے ساتھ امر و نہی کے، اور لب و لہجے کی تندی کے درجات کو ملحوظ رکھے، اور امر و نہی کرتے ہوئے خود حدود کی خلاف ورزی سے بچے۔

3۔ عملی اقدام

ممکن ہے کہ برائی نے جڑ پکڑ لی ہو، اتنی کہ اس کی بیخ کنی کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہو۔ گوکہ مراحل کو مد نظر رکھنا چاہئے، اور ہلکے مرحلے سے شروع کرنا چاہئے، جیسے کسی کو گناہ سے منع کرنے کے لئے گناہ کے آلات کو تلف کرنا، لہو و لعب کے ساز و سامان کو توڑ دینا، شراب وغیرہ کو بہا دینا اور پھینک دینا، غصب شدہ مال کو واپس لینا۔۔۔ [13] اس کے بعد اگر جرائم کا سلسلہ جاری رہے تو اگلے اقدامات بجا لانا۔

واضح رہے کہ اسلامی معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل نفاذ کے لئے، ضروری ہو، تو سخت اقدامات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر ہے، اور اگر افراد خود قانون ہاتھ میں لے کر بذات خود ایسا کرنا چاہے تو معاشرہ بدنظمی سے دوچار ہوگا۔ جس کی مثالیں (تکفیریت کے ظہور پذیر ہونے کے بعد) کم نہیں ہیں۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ہمہ گیر فریضہ / امت برتری کی علامت

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر صالح اور نیک افراد کی ترغیب اور حوصلہ افزائی، جاہل اور نادان افراد کو آگاہ اور متنبہ کرنا، جرم کے ارتکاب سے خبردار کرنا اور معاشرتی انضباط اور سماجی نظم و ضبط کا قیام ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں امر و نہی کو سابقہ امتوں پر مسلم امہ کی برتری کی علامت قرار دیتا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:

"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ؛ [14]

تم بہترین امت ہو جو جو بنی نوع انسان [کی اصلاح، فائدے اور بھلائی] کے لئے ظاہر کی گئی ہے نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"۔

اس آیت کریمہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ہمہ گیریت بھی سمجھ میں آتی ہے اور امر و نہی کی دو اشکال میں پہلی شکل پر منطبق ہے، جس میں امت کے ہر فرد پر فرض ہے کہ نیکی کی ہدایت کرے اور برائی سے روکے۔

یہ آیت سے امر و نہی کی شرائط اور بعض اہم نکات پر مشتمل ہے:

1۔ بہترین امت کا انحصار صرف نعروں پر نہيں بلکہ ایمان اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی شرط ہے: "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ۔۔۔ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ؛ تم بہترین امت ہو اس لئے امر بالمعروف کرتے ہو"۔

2۔ امت میں خاموش، بزدل اور ڈرپوک کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ۔۔۔ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ؛ تو بہترین امت ہے اس لئے کہ برائی سے روکتے ہو"۔

3۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس قدر اہم ہے کہ اس کی انجام دہی امت کی برتری کا معیار ہے: "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ"۔

4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اس صورت میں عملی جامہ پہنتا ہے جب مسلمان ایک امت کی شکل میں وجود رکھتے ہوں "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ"۔

5۔ تم برتر امت اس لئے ہو کہ تمام انسانی معاشروں کی اصلاح کی ذمہ داری تم پر ہے: "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ؛ تم بہترین امت ہو جو جو بنی نوع انسان [کی اصلاح، فائدے اور بھلائی] کے لئے ظاہر کی گئی ہے"۔

6۔ نیکیوں کی ہدایت کرنا، برائیوں کے خلاف جدوجہد کے بغیر کم ہی نتیجہ بخش ہو سکتا ہے: "تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ؛ تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو

6. سفارش به خوبی ها بدون مبارزه با فساد، کم نتیجه است. «تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنکر»

7. اس امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کے تمام افراد دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا حق حاصل ہے، حتیٰ کہ ایک 9 سالہ بچی صدر مملکت کو نیکی کی ہدایت کر سکتی ہے اور اس کو برائی سے روک سکتی ہے۔

8۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں عمر، علاقے، تعلیمی قابلیت اور سماجی اور معاشی شخصیت ہونے کا کوئی کردار نہیں ہے "كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ۔۔۔ تَأْمُرُونَ ۔۔۔ َتَنْهَوْنَ"۔

9۔ مسلمان کو طاقت اور اختیار کی پوزیشن سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا چاہئے نہ کہ ضعف، گڑگڑاہٹ اور التماس کے ساتھ:  " تَأْمُرُونَ؛ ہدایت کرتے ہو، امر کرتے ہو، فرمان دیتے ہو"۔

10۔ امر بالمعروف نہی عن المنکر پر مقدم ہے: "تَأْمُرُونَ ۔۔۔ َتَنْهَوْنَ"۔

11۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس وقت مؤثر ہو سکتا ہے کہ اس کا سرچشمہ "ایمان باللہ" ہو: "تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ؛ تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو"۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آثار اور برکتیں

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعض آثار اور برکتوں کو ـ خواہ وہ غیر مؤثر کیوں نہ ہو ـ یہاں بیان کرتے ہيں:

1۔ آج نہیں تو کل

کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فوری طور پر اثر نہیں ہوتا، لیکن تاریخ میں، فطرت اور انسان کے بارے میں دوسروں کی رائے، میں مؤثر ہے۔ امام حسین (علیہ السلام) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی راہ میں جام شہادت نوش کیا تاکہ بنی نوع انسان کا ضمیر آنے والے زمانوں میں، بیدار ہو جائے۔

2۔ دوسروں کے لئے ماحول سازی

2۔ کبھی کبھار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دوسروں کے لئے ماحول تیار کرتا ہے۔ جیسا کہ اذان کی پکار مستحب [اور مسنون عمل] ہے، اگرچہ سننے والا کوئی بھی نہ ہو؛ ڈرائیوںگ کرتے ہوئے، ٹریفک کی بتی سرخ ہونے پر رک جانا ضروری ہے، چاہے گاڑیاں نہ ہوں؛ کیونکہ قانون کا تحفظ اور قانون کے تحفظ کے لئے ماحول قائم رکھنا، ضروری ہے۔

3۔ گناہ کی لذت ختم کرنا

کبھی نہی عن المنکر گنہگاروں کو گناہ سے باز نہیں رکھتا لیکن اس کو مسلسل یاددہانی کرانے اور کہنے اور گناہ ترک کرنے کی ہدایت کرنے سے اس کے وجود میں گناہ کی لذت ختم اور جرم کا ذائقہ کڑوا ہوجاتا ہے، اور کم از کم نتیجہ یہ ہے کہ آسانی سے گناہ نہیں کرے گا یا گناہ سے لطف اندوز نہیں ہو سکے گا؛ اور امید ہے کہ کسی دن اس کا ضمیر جاگ جائے اور وہ گناہوں سے دست بردار ہو جائے۔

4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آزادی کی ضمانت

آزادی کے تحفظ کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہئے، کیونکہ بصورت دیگر معاشرہ گھٹن، خوف اور خاموشی سے دوچار ہو جائے گا۔

5۔ انسان کے لئے وقار کا باعث

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے وقار اور سماجی احترام کا باعث بنتا ہے خواہ لوگ نہ ہی سنیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ؛ [15]

اور کون ہوگا بات کرنے میں بہتر اس سے کہ جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں"۔

اپنے لئے خدا کی قربت، حوصلہ افزائی اور جرأت کی مشق

اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اثر نہ بھی کرے، کم از انسان کے لئے خدا کی قربت، ایک حوصلہ افزائی، ہمت اور جرأت کی مشق، اور جذبے اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا مظہر ہے۔

7۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ کی اخلاقیات میں سے ہے

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَإِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَإِنَّهُمَا لَا يُقَرِّبَانِ مِنْ أَجَلٍ وَلَا يَنْقُصَانِ مِنْ رِزْقٍ؛ [16]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ سبحانہ کی اخلاقیات میں دو اخلاقیات ہیں، جو نہ تو اجل کو نزدیک لاتی ہیں اور نہ ہی کسی کی کے رزق کو کم کر دیتی ہیں"۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اندرونی سکون کا باعث

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انسان کے ضمیر کو سکون عطا کرتا ہے، انسان دل ہی دل میں کہتا ہے "میں نے اپنے فرض پر عمل کیا"، یہ اندرونی سکون بہت قابل قدر ہے، گوکہ دوسرے نہ سنیں۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انفرادی ثمرات

1۔ گناہ اور منکرات سے نفرت

اللہ کے قہر و غضب سے نجات ہے اگر انسان دلی طور پر برائی کے ارتکاب سے خفا ہو جائے؛ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ، إِنَّهُ مَنْ رَأَى عُدْوَاناً يُعْمَلُ بِهِ وَمُنْكَراً يُدْعَى إِلَيْهِ، فَأَنْكَرَهُ بِقَلْبِهِ، فَقَدْ سَلِمَ وَبَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَهُ بِلِسَانِهِ فَقَدْ أُجِرَ وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ۔۔۔؛ [17]

اے مؤمنو! جس نے ظلم و ستم کو دیکھا جس پر عمل ہو رہا ہے اور ایک برائی کو دیکھا جس کی طرف بلایا جا رہا ہے، تو اس نے اپنے دل سے اس کو برا سمجھا اور اس کا انکار کیا تو وہ محفوظ ہے اور گناہ سے بری الذمہ۔ اور جس نے زبان سے اسے برا سمجھا اور اس کا انکار کیا، تو وہ ثواب سے بھی بہرہ ور ہوگا، اور یہ اس سے بہتر و برتر ہے جس صرف دل ہی دل میں اس کو برا سمجھا ہے۔۔۔"۔

2۔ اللہ کے فضل و لطف کی حقیقت تک پہنچنے کا سبب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَمَنْ أَنْكَرَهُ بِالسَّيْفِ، لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَكَلِمَةُ الظَّالِمِينَ هِيَ السُّفْلَى، فَذَلِكَ الَّذِي أَصَابَ سَبِيلَ الْهُدَى وَقَامَ عَلَى الطَّرِيقِ وَنَوَّرَ فِي قَلْبِهِ الْيَقِينُ؛ [18]

اور جو تلوار سے [برائیوں کا انکار کرے اور ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو ـ اس لئے کہ اللہ کے کلام اور احکام کا بول بالا ہو اور ظالموں کا بول نیچا رہے ـ یہ وہ ہے جس نے فلاح کا راستہ پا لیا ہے اور اس پر گامزن ہؤا ہے اور یقین کی روشنی اس کے دل پر چمکی ہے"۔

3۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا برتر انسان ہے

قرآن کریم میں امت مسلمہ کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے، [19] اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) منبر پر رونق افروز تھے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا: "مَنْ خَيرُالنّاسِ؛ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:

"[خَيرُالنّاسِ] آمُرُهُمْ بِالمَعْرُوفِ وَأَنْهاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَتْقَاهـُمْ لِلّهِ وَأَرْضَاهُمْ؛ [20]

[بہترین انسان وہ ہے] جو سب سے زیادہ نیکیوں کی ہدایت کرتا ہے، اور سب سے زیادہ برائیوں سے روکتا ہے اور اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھتا [اور سب سے زیادہ پرہیزگار] ہے اور [اللہ کی تقسیم و تقدیر پر] سب سے زیادہ راضی ہے"۔

4۔ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر خلیفۃ اللہ اور خلیفۃ الرسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، فَهُوَ خَلِيفَةُ اللهِ فِي الْأَرْضِ وَخَلِيفَةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ؛ [21]

جس نے نیکیوں کی ہدایت کی اور برائیوں سے روکا، تو وہ روئے زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا خلیفہ ہے"۔

5۔ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر، لوگوں کے ثواب میں شریک ہے

"مَنْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهَى عَنْ مُنـْكَرٍ أَوْ دَلَّ عَلى خَيْرٍ اَوْ أَشَارَ بِهِ فَهُوَ شَرِيكٌ، وَمَنْ أَمَر بِسُوءٍ أَوْ دَلَّ عَلَيهِ اَوْ أَشَارَ بِهِ فَهُوَ شَرِيكٌ؛ [22]

جو بھی کسی نیک کام کی ہدایت کرے یا کسی برائی سے روکے، یا کسی بھلائی کی طرف کسی کی راہنمائی کرے، یا کسی امر خیر کی طرف اشارہ کرے [اور اس کا پتہ دے]، وہ اس [نیکی کا حکم ماننے والے، برائی سے اجتناب کرنے والے اور امر خیر سرانجام دینے والے کے ثواب) میں شریک ہے اور جو برائی کی ہدایت کرے، یا اس کی طرف راہنمائی کرے یا اس کی طرف اشارہ کرے [اور اس کا پتہ دے] وہ اس [کے اثرات اور اس کی ہدایات اور راہنمائیوں کی وجہ سے گناہ میں پڑنے والوں کے گناہوں] میں برابر کا شریک ہے"۔

6۔ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر سے اللہ خوشنود ہے

قرآن میں انبیاء (علیہم السلام)  کا تعارف کراتے ہوئے انہيں بھلائی، نماز اور زکوۃ کی طرف راہنمائی کرنے والوں کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ مثال کے طور پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو صادق الوعد اور رسول اور نبی کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے: 

" "وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا؛ [23]

 اور وہ [اسماعیل (علیہ السلام)] [24] اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے"۔ 

7۔ آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر فلاح اور رَستگاری سے بہرہ یاب

"وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ [25]

اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو [لوگوں کو] بھلائی کی دعوت دیتی ہو، نیک کاموں کی ہدایت کرتی ہو اور برائیوں سے منع کرتی ہو اور یہی فلاح پانے والے اقبال مند لوگ ہیں"۔

8۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دین و دنیا کی سلامتی کی ضمانت

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"مَنْ كَانَ فِيهِ ثَلاثٌ سَلِمَتْ لَهُ الدّنيَا وَالْآخِرَةُ، يَأمُرُ بِالمَعْرُوفِ وَيَأْتَمِرُ بِهِ، وَيَنْهَى عَنِ المُنْكَرِ وَيَنْتَهي عَنْهُ، وَيُحَافِظُ عَلَى حُدُودِ اللّهِ جَلَّ وَعَلَا؛ [26]

جو تین خصلتوں کا حامل ہو، اس کی دنیا بھی اور آخرت بھی صحیح و سالم ہے: اچھائی کی ہدایت کرے اور خود بھی نیک عمل کرے؛ برائیوں سے روکے اور خود بھی پرہیز کرے؛ اور حدود اللہ کی حفاظت و پاسداری کرے"۔

9۔ امر و نہی اللہ کی مدد و نصرت کا سبب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلْفَقَانِ منْ خُلُق الله سبْحانه عَزَّ وَجَلَّ؛ فمَنْ نَصَرَهُمَا أَعَزَّهُ اللّهُ وَمَنْ خَذَلَهُمَا خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ؛ [27]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ کی اخلاقیات میں دو اخلاقیات ہیں، جو ان کی مدد کرے، اللہ اس کو عزت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بالائے طاق رکھ کر ترک کردے، اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑے گا"۔

10۔ امر و نہی کرنے والے کی عمر اور رزق میں کمی نہیں آتی

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ سبحانہ کی اخلاقیات میں دو اخلاقیات ہیں، جو نہ تو اجل کو نزدیک لاتی ہیں اور نہ ہی کسی کی کے رزق کو کم کر دیتی ہیں"۔ [28]

11۔ دوہرا ثواب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"وَإِنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔۔ يُضَاعِفانِ الثَّوَابَ وَيُعَظِّمَانِ الأَجْرَ وَأَفْضَلُ مِنْهُمَا كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إَمَام جَائِرٍ؛ [29]

اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دو فریضے ثواب کو دوہرا کر دیتے ہیں، اجر و ثواب کو عظیم کر دیتے ہیں، اور ان دو سے [صرف] ایک چیز زیادہ بہتر ہے اور وہ ایک باطل کے امام جور اور جابر و ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے"۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اجتماعی ثمرات

 امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ سَبِيلُ الْأَنْبِيَاءِ وَمِنْهَاجُ الصُّلَحَاءِ، فَرِيضَةٌ عَظيمَةٌ بِهَا تُقامُ الْفَرَائضُ وَتَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَتَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَتُرَدُّ الْمَظالِمُ وَتَعْمُرُ الْأَرْضُ وَيُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ وَيَسْتَقيمُ الْأَمْرُ؛ [30]

ام بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء (علیہ السلام) کا راستہ ہے اور نیک لوگوں کا شیوہ؛ ایک فریضہ ہے بہت عظیم؛ اس ہی کے ذریعے فرائض اور واجب پر عمل کیا اور کرایا جاتا ہے، راستوں کو محفوظ بنایا جاتا ہے، آمدنیاں حلال ہو جاتی ہیں، جبری طور پر چھینے گئے اموال اور حقوق ان کے مالکوں کو لوٹا دیئے جاتے ہیں، ، زمین آباد ہوجاتی ہے، دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور امور و معاملات منضبط اور منظم ہوجاتے ہیں"۔

مذکورہ حدیث شریف سے امر و نہی کے سماجی اثرات پر مبنی ذیل کے نکتے اخذ ہوتے ہیں:

1- یہ انبیاء کا راستہ اور صلحاء کا شیوہ ہے: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ سَبِيلُ الْأَنْبِيَاءِ وَمِنْهَاجُ الصُّلَحَاءِ" ام بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء (علیہ السلام) کا راستہ اور صالحین کا شیوہ ہے اور انبیاء اور صالحین کا راستہ سماجی راستہ ہے جو قوموں اور امتوں یا پوری انسانیت کے لئے ہے۔

2۔ اسلامی احکام کا نفاذ: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَرِيضَةٌ عَظيمَةٌ بِهَا تُقامُ الْفَرَائضُ؛ ؛ ایک فریضہ ہے بہت عظیم؛ اس ہی کے ذریعے فرائض اور واجب پر عمل کیا اور کرایا جاتا ہے

3۔ امن و امان اور سماجی انصاف کی ضمانت: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔۔ َتَأْمَنُ الْمَذَاهِبُ وَتَحِلُّ الْمَكَاسِبُ وَتُرَدُّ الْمَظالِمُ؛ راستے پرامن ہوتے ہیں، کاروبار کو حلال کیا جاتا ہے اور ظالم سے مظلوم کا غصب شدہ حق واپس لے کر مالکوں کو واپس کیا جاتا ہے"۔

4۔ امر و نہی کے ذریعے تعمیر و ترقی کے لئے ماحول سازی: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔۔ َتَعْمُرُ الْأَرْضُ؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے زمین آباد ہو جاتی ہے"۔

5۔ سرحدوں کی حفاظت اور دشمن سے انتقام لینا اور اس کو مزید کسی جارحیت سے دور رکھنا: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۔۔۔ يُنْتَصَفُ مِنَ الْأَعْدَاءِ؛ دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے"۔

6۔ سماجی نظم و ضبط اور قانون کا نفاذ: "إِنَّ الْأمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔۔۔ يَسْتَقيمُ الْأَمْرُ؛ امور و معاملات منضبط اور منظم ہوجاتے ہیں"۔

بہرحال، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء (علیہم السلام) کی روش اور سیرت ہے، اگرچہ دوسرے نہ سنیں۔ قرآن کریم ميں بارہا ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ انبیاء (علیہم السلام) کی ہدایات و ارشادات کو توجہ نہیں دیتے تھے، اور ان سے منہ موڑتے تھے۔ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگایا، تاکہ برائی معمول نہ بن جائے اور حق کھو نہ جائے، اور اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی کی جگہ نہ کھپایا جائے۔

امر و نہی ترک کرنا اور بدترین افراد کا تسلط

امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيَسْتَعْمَلَنَّ عَلَیكُمْ شِرَارُكُمْ، فَیدْعُو خِیارُكُمْ فَلـا یسْتَجَابُ لَهُمْ؛ [31]

ضرور بضرور امر بالمعروف کیا کرو [اور نیکیوں کا حکم دیا کرو] اور ضرور بضرور نہی عن المنکر کیا کرو [اور برائیوں سے لوگوں باز رکھا کرو]، ورنہ تمہارے بدترین لوگ تم پر مسلط کئے جائیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ بھی دعا کریں تو قبول نہیں ہوگی"۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) فرماتے ہیں:

"امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی نیکی اور بدی رہے۔ [نیکی بدی کی جگہ نہ لے اور بدی نیکی کی جگہ نہ لے]۔ دوسری طرف سے جب معاشرے میں ایک گناہ رائج ہوجاتا ہے، اور لوگ گناہ کے عادی بن جاتے ہیں [یعنی گناہ معمول بن جاتا ہے]، اس شخص کا کام بہت پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے جو معاشرے کی چوٹی پر بیٹھا ہے اور لوگوں کو خیر و صلاحیت اور معروف اور نیکی کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے؛ یعنی وہ مزید ایسا نہیں کر سکے گا یا پھر بہت مشکل سے اس کام پر قادر ہوگا اور مجبور ہوگا کہ اس کام کے لئے بڑی قیمت دینا پڑتی ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) عظیم طاقت و عظمت کے مالک تھے، لیکن ان کی کوششیں پر ثمر واقع نہ ہونے کی وجہ یہی تھی، [کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دیا گیا تھا] اور اس راہ میں بالآخر جام شہادت نوش فرما گئے۔ ایک عجیب اور دل دہلا دینے والی حدیث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے؛ آپؐ فرماتے ہیں:

"لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ شِرَارُكُمْ فَيَدْعُو خِيَارُكُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ؛ [32]

ضرور بضرور نیکیوں کی ہدایت کرو اور برائیوں سے منع کرو، ورنہ اللہ تم پر ضرور بضرور مسلط کرے گے تمہارے بدترین افراد کو، اور حالت یہ ہوگی کہ تمہارے بہترین دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول نہیں ہوگی"۔

چنانچہ ضروری ہے کہ آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرو کو اپنے درمیان برقرار کریں اور فروغ دیں، اور اس کی پابندی کریں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ شرپسند، بد اور [دشمن سے] وابستہ افراد کو تم پر مسلط کرتا ہے؛ یعنی معاشرے کے معاملات اور سیاسی امور حجاج بن یوسف جیسوں کے ہاتھ میں چلے جائیں گے! جس طرح کہ کوفہ میں ہؤا؛ وہی کوفہ جس کا اختیار امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ہاتھ میں تھا، امر و نہی ترک کئے جانے کی وجہ سے اس مرحلے میں پہنچا کہ حجاج بن یوسف آیا اور اسی مسجد میں کھڑا ہؤا، اور خطبہ دیا اور اپنے بزعم لوگوں کو وعظ و نصیحت کی!

حجاج کون تھا؟ حجاج وہ شخص تھا کہ اس کی نظر میں ایک انسان کے خون ایک چڑیا کے خون میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اور اتنی ہی آسانی سے ـ کہ لوگ ایک حیوان یا کیڑے مکوڑوں کو مارتے ہیں ـ ایک انسان کو قتل کر دیتا تھا۔ ایک مرتبہ حجاج نے لوگوں کو بلایا کہ کوفہ کے سب ہی لوگ آجائیں اور خود ہی گواہی دیں کہ "ہم کافر ہیں"، اور اپنے کفر سے توبہ کریں! جو انکار کرے، اس کا سر بدن سے الگ کیا جائے گآ! امر و نہی ترک کرنے سے لوگ اس طرح کے عجیب و غریب، انوکھے اور ناقابل توصیف و تشریح مظالم کا شکار ہو گئے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کیا جائے تو معاشرے میں جرائم، جعل سازی اور خیانت کو فروغ ملتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ جرائم معاشرے کی ثقافت کا جزو بن جاتے ہیں، اور انحطاط کا شکار افراد کے بر سر اقتدار آنے کے لئے ماحول فراہم ہو جاتا ہے"۔ [33]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]۔ سورہ آل عمران، آیت 104۔

[2].۔ سورہ لقمان، آیت 17۔

[3]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 252۔

[4]۔ بہاء الدین الاربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ (علیہم السلام)، ج2، ص103۔

[5]۔ سورہ مائدہ، آیات 78-79۔

[6]۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص89؛ علامہ مجلسی، محمد بن باقر بن محمد تقی، ج44، ص329۔

[7]۔ سورہ نساء، آیت 140۔

[8]۔ سورہ انعام، آیت 68۔

[9]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص377؛ تفسیر قمی میں حدیث کا آخری حصہ مختلف ہے: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلسُ فِي مَجْلِسٍ يُسَبُّ فِيهِ إِمَامٌ أَوْ يُغْتَابُ فِيهِ مُسْلِمٌ؛ یعنی جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو ایسی مجلس میں نہیں بیٹھنا چاہئے جس میں کسی امام پر دشنام طرازی ہوتی ہو یا کسی مسلمان کی غیبت ہوتی ہو"۔ القمی، علی بن ابراہیم بن ہاشم، تفسیر القمی، ج1، ص204۔

[10]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج2، ص377۔ علامہ عیاشی نے یہ حدیث امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) سے مختصر سے لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے: "إِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ يَجْحَدُ الْحَقَّ وَيُكَذِّبُ بِهِ وَيَقَعُ فِي أَهْلِهِ فَقُمْ مِنْ عِنْدِهِ وَلَا تُقَاعِدْهُ (یعنی جو حق کو جھٹلانے کے ساتھ ساتھ اہل حق کی بدگوئی کرے۔۔۔)؛ محمد بن مسعود بن محمد بن عياش السَّلَمی، تفسیر العیاشی، ج1، تفسیر العیاشی، ج1، ص281۔ یہ روایت، حدیث اور تفسیر کے دوسرے مصادر میں نقل ہوئی ہے؛ دیکھئے: علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار، ج71، ص262؛ فیض کاشانی، محمد محسن بن شاہ مرتضى‌ (المعروف بہ ملا محسن)، التفسیر الصافی، ج1، ص512؛ القمی المشہدی، محمد بن محمد رضا، تفسیر کنز الدقائق وبحر الغرائب، ج3، ص567۔

[11]۔ "قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ؛ کہئے کہ غور کرو، کیا کیا ہے آسمانوں اور زمین میں؟ اور "نشانیاں" اور "تنبیہیں" فائدہ نہیں دیتیں ان کو جو ایمان نہیں لاتے ہیں"۔

[12]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، ج1، ص207؛ القمی، علی بن ابراہیم بن ہاشم، تفسیر القمی، ج1، ص156۔

[13]۔ نراقی، احمد بن محمد مہدی، معراج السعادہ، ص413۔

[14]۔ سورہ آل عمران، آیت 110۔

[15]۔ سورہ فصلت (حم سجدہ)، آیت 33۔

[16]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 156، ص219۔

[17]۔ نہج البلاغہ، حکمت 373؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج97، ص89۔

[18]۔ وہی ماخذ۔

[19]۔ سورہ آل عمران، آیت 110۔

[20]. امین الاسلام الطبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج2 (ط مؤسسۃ الاعلمی ـ بیروت 1995ع‍)، ج2، ص359؛ نیز دیکھئے: السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الجامع الصغیر، ج1، ص621۔

[21]۔ النوری الطبرسی، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل ومستنبط المسائل، ج12، ص179۔

[22]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص138۔

[23]۔ سورہ مریم، آیات 54 و 55۔

[24]۔ اسماعیل دو پیغمبروں کا نام ہے؛ اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) اور دوسرے بنی اسرائیل کا نبی اسماعيل بن حزقيل (علیہ السلام)، اور سورہ مریم کی ایت 54 میں مذکورہ اسماعیل ان میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

[25]۔ سورہ آل عمران، آیت 104۔

[26]. التمیمی الآمدی، عبدالواحد بن محمد، غُرَرُ الحِکَم ودُرَرُ الکَلِم، حدیث 7645۔

[27]۔ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، الخصال، ص42؛ الحر العاملی، محمد بن حسن، وسائل‌الشیعہ، ج16، ص146؛ یہ حدیث مختصر سے اختلاف کے ساتھ نہج البلاغہ میں بھی مذکور ہے: نہج البلاغہ، خطبہ 156، ص219۔

[28]۔ نہج البلاغہ، خطبہ 156، ص219۔

[29]۔ التمیمی الآمدی، عبدالواحد بن محمد، غُرَرُ الحِکَم ودُرَرُ الکَلِم، حدیث 7637۔

[30]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج5، ص56۔

[31]۔ الکلینی، محمد بن یعقوب الرازی، الکافی، ج5، ص56؛ الشیخ الصدوق، محمد بن علی، تہذیب الاحکام، ج6، ص179؛ الطبرسی، علی بن حسن بن فضل (سبط امین الاسلام)، مشکاۃ الانوار فی غُرَرِ الاخبار، ج1، ص50؛ ابن ابی جمہور الاحسائی، محمد بن علی بن ابراہیم الشیبانی البکری، عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، ج3، ص191-192۔

[32]۔ المتقی الہندی، علی بن حسام الدین، کنز العمال، ج3، ص66، حدیث نمبر 5520۔

[33]۔ خطبہ نماز جمعہ، مورخہ 15 دسمبر سنہ 2000ع‍۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha