اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، حزب
اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے
چہلم کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا: حزب اللہ جنگ کو سیاسی اور سفارتی اقدامات سے
منسلک نہیں کرتی، بلکہ اپنے اقدامات سے دشمن کو جارحیت بند کرنے پر مجبور کریں گے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم
نے آج [بدھ 6 نومبر 2024ع کی) شام کے وقت سیدالمقاومہ سید حسن نصراللہ کی شہادت
کے چہلم کے موقع پر اپنے نشری تقریر میں سید حسن نصراللہ کو خراج عقیدت پیش کیا
اور کہا:
آج ہم امت مسلمہ کے شہیدوں کے سردار سید حسن نصر
اللہ کی شہادت کا چالیسواں دن منا رہے ہیں، جو ایک گراں قدر قائد کا عینی نمونہ تھے
اور اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش کر گئے۔
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے سید حسن
نصراللہ کا تعارف یوں کرایا کہ "وہ عدیم المثال ہیں"، جو انتہائی بڑی
تعریف ہے۔ سید حسن نصراللہ ایک مثال، ایک نمونہ، ایک متاثرکن معلِّم اور انتہائی دلیر اور شاع تھے جنہوں نے مکتب ولایت سے علم حاصل کیا۔
حزب اللہ کا مربوط ڈھانچہ ہے
سید حسن نصراللہ نے خالص محمدی(ص) اسلام کی
بنیاد پر ایک پائیدار جماعت کی بنیاد رکھی جس کی
راہ و روش ولایت کی راہ و روش ہے۔ انھوں نے ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس نے معاشرے
کے تمام طبقات کو مجتمع کر دیا۔ ایک نوجوان اور عظیم جماعت۔ احرار اور شرافتمندوں
کی جماعت۔ دانشوروں اور مزدوروں کی جماعت۔
سید حسن نصر اللہ نے ایسی جماعت کی بنیاد رکھی
کہ مقاومت و مزاحمت کر سکے، اپنے وطن کے لئے دشمن کے خلاف جدوجہد کر سکے؛ ایسی جماعت
جو اپنے وطن کی تعمیر کے لئے لبنان کے سیاسی میدان میں کام کرے۔ حزب اللہ تماس ثقافتی،
سیاسی، تربیتی، جہادی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں مربوط ڈھانچے کی مالک ہے۔
حزب اللہ مجاہدین کی تعداد، طاقت، شجاعت اور
دلیری نیز کیل کانٹے سے لیس دشمنوں کو چیلنج کرنے کی صلاحیت کے لحاظ سے، مضبوط
بنیادوں پر استوار ہے۔ سید حسن نصراللہ نے ہمیں زندہ کیا اور اپنی شہادت کے بعد
بھی ہمیں حیات بخشی۔ وہ اپنی شہادت کے بعد بھی زندہ ہيں اور ہمارے ساتھ رہیں گے
اور ہم بھی ان کے ساتھ رہیں گے۔ مقاومت اپنا کام جاری رکھے گی اور نشوونما پاتی
رہے گی۔
سید حسن نصراللہ نے خطے کی مقاومت کی قیادت کا
عظیم ترین تمغہ، مقاومت کے مجاہدین اور احرار عالم کے ہاں مقبولیت و محبوبیت کا
تمغہ اور عشق امام حسین(ع) کا تمغہ حاصل کیا۔
صہیونیوں کے ساتھ جنگ
ہم لبنان کے خلاف اسرائیلی جنگ کا سامنا کر رہے
ہیں، جو تقریبا 40 روز قبل شروع ہوئی ہے۔ یہ جنگ لبنانی مقاومت کی طرف سے فلسطینی
مقاومت کی ایک سالہ پشت پناہی کے بعد شروع ہوئی۔ فلسطینی مقاومت کی پشت پناہی کے
مرحلے میں فلسطین کے تمام حب داروں نے اس ملک کے ساتھ کھڑے ہونے اور کھڑے رہنے کی
کوشش کی۔ فلسطین نے 43 ہزار شہیدوں اور ایک لاکھ سے زائد زخمیوں کا نذرانہ پیش کیا
ہے، لیکن بدستور ڈٹا ہؤا ہے اور دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں
ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہے، یقینا ہم کامیاب ہو کر رہیں گے۔
مقاومت کے کار عظیم نے دشمن کو پریشان و مضطرب
کردیا
میں یمن سے عراق و لبنان تک کے مقاومتی محاذوں نیز
اسلامی جمہوریہ ایران کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے فلسطین کے دفاع کے لئے بے
پناہ حمایتیں کی ہیں۔ اب یہ بات اہم نہیں ہے کہ جنگ کس طرح شروع ہوئی، اس وقت اہم
بات یہ ہے کہ ہمیں "اسرائیل" کی جارحیت کا سامنا ہے، ایسی جارحیتیں جن
کے بارے میں نیتن یاہو کہتا ہے کہ اس کے اختتام کے لئے تاریخ کا تعین نہیں کرے گا
اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کو بدل دینا
ہے، یعنی ایسا منصوبہ جس کا مقصد غزہ اور لبنان سے ما وراء اور وسیع تر ہے۔
ہم سنہ 2006ع سے اب تک تربیتی
اور فوجی اور اسلحے کے سلسلے میں اچھی خاص فورس تیار کر چکے ہیں، کیونکہ ہم ان حالات
کا اندازہ کر چکے تھے اور بھانپ چکے تھے کہ مستقبل میں کن حالات کا سامنا کرنا
ہوگا اور آج وہی حالات ہیں۔ آج ہم دشمن کی جارحیتوں کے مقابلے میں دفاعی جنگ لڑ
رہے ہیں، اور دشمن کے توسیع پسندانہ عزام کا سامنا کر رہے ہیں۔ دشمن نے غلط اندازہ
لگایا تھا کہ حزب اللہ کو پیجرز دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اور پھر اس کے کمانڈروں
کو شہید کرکے ختم کرکے رکھ دے گا اور چند ہی ڈویژن فوج اور 65 ہزار فوجی نفری کو
لبنان میں داخل کرے گا۔ دشمن مقاومت کے کار عظیم کے سامنے پریشان اور مضطرب ہو چکا
ہے۔
مقاومت کے مجاہدین موت سے نہیں ڈرتے
دشمن یہ اندازہ کرنے سے عاجز تھا کہ مقاومت کے
پاس تین بنیادی صلاحیتیں ہیں:
1۔ حزب اللہ اور مقاومت کے مجاہدین راسخ العقیدہ
مسلمان ہیں جس کے باعث وہ حق و حقیقت، عزت و وقار کے محاذ میں ہی کھڑے رہتے ہیں،
اس انداز سے کہ کوئی بھی آندھی انہیں اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔ ہمارے پاس عزم اور
ارادے کا سرمایہ ہے۔
2۔ حزب اللہ اور مقاومت نے اپنے سروں کو خدا کے
لئے قربان کر دیا ہے؛
3۔ حزب اللہ اور مقاومت کے مجاہدین شہادت پسند
ہیں اور موت سے نہیں ڈرتے۔
ہمارے مقابلے میں دشمن کے پاس بھی طاقت کے تین
عناصر ہیں:
1۔ غیر فوجیوں اور عام شہریوں کا قتل عام، ظلم و
ستم، قبضہ اور غصب اور وحشیانہ طرز سلوک؛
2۔ فضائی قوت اور شیطان اکبر امریکہ کی بے تحاشا
مدد و حمایت؛
3۔ تیسرا عنصر، لبنان میں فوج کے پانچ ڈویژنوں کی
تعیناتی ہے؛
دشمن کی برتری کا واحد عنصر اس کے جنگی طیاروں سے
عبارت ہے؛ لیکن دوسرے دو عناصر اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے ہیں، کیونکہ جرائم اور
مظالم کا نتیجہ اس کے اپنے مستقبل میں عیاں ہوگا۔ ان کی فوج بھی تو نکمی ہے اور نقل و حرکت سے بالکل عاجز، اور 40 روزہ کوششوں کے باوجود ہماری
سرحدوں سے لبنان کے اندر داخل نہیں ہو سکی ہے۔
جنگ کے خاتمے کا راستہ میدان جنگ ہے
ہمیں یقین ہے کہ صرف ایک چیز ہے جو جنگ بند ہونے
کا سبب بنتی اور وہ ہے میدان جنگ، میدان جنگ سرحدوں پر اور دشمن کے داخلی محاذ کے
اندر۔ سرحدوں پر ہماری ہزاروں تربیت یافتہ مجاہدین حاضر ہیں اور پختہ عزم کے ساتھ
لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دشمن کے داخلی محاذ میں بھی ہمارے پاس دشمن کا مقابلہ
کرنے کے لئے ضروری وسائل موجود ہیں۔ اگلے مراحل درپیش ہیں اور جو کچھ گذرا صرف ایک
نمونہ تھا اور جو کچھ اگلے دنوں میں رونما ہوگا وہ پہلے سے کہیں زيادہ اور وسیع
پیمانے پر ہوگا۔ ہم جنگ بندی کو سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں سے نہيں جوڑیں گے؛ بلکہ
ہم ایسے اقدامات عمل میں لائیں گے کہ دشمن خود جنگ بندی کی آرزو کرے اور خود ہی
اپنی جارحیت بند کر دے۔
امریکی انتخابات
ہم امریکی انتخابات کو اہمیت نہیں دیتے اور
ہمارے لئے یہ بات ہرگز اہمیت نہيں رکھتی کہ ہیرس منتخب ہوتی ہے یا ٹرمپ۔
ہم شکست نہیں کھا سکتے / مذاکرات جنگ بندی کے
بعد ہونگے
ہماری قاموس (لغت) میں مقاومت کے بہادر مجاہدوں
کے ہمراہ سرخروئی اور حتمی کامیابی کے لمحے تک سربلندی، مستقل مزاحمت، صبر و تحمل،
استقامت اور میدان میں جم کر رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حب حق ہمارے ساتھ ہے، زمین
ہماری ہے، اور اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہم شکست کھا ہی نہیں سکتے۔ حب دشمن اپنی جارحیت بند کرنے کا فیصلہ کرے گا تو مذاکرات کے لئے راستہ ہے،
جس کی روش کو ہم نے دوٹوک انداز سے متعین کیا ہے، اور یہ بالواسطہ مذاکرات ملک
لبنان اور پارلیمان کے سربراہ جناب نبیہ بری کے ساتھ ہونگے، جو مقاومت کا سیاسی
علم سنبھالے ہوئے ہیں۔
ہر قسم کے مذاکرات کی بنیاد جنگ بندی اور جارحیت
کا خاتمہ، اور لبنان کی علاقائی خودمختاری کا تحفظ ہے۔
کچھ دن پہلے صہیونی فوجیوں نے سرزمین لبنان میں ہیلی
بورن (heliborne) کے ذریعے ایک سویلین جہاز کے لبنانی کپتان کو اغوا کیا۔ یہ جو
دشمن دراندازی کرے یہ لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور اس سے کئی سوالیہ
نشان ابھرتے ہیں۔ ہم لبنانی فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سمندری حدود کی حفاظت کرے اور
لبنانی فوج یونیفل (United Nations Interim Force in Lebanon
[UNIFIL]) ـ اور بالخصوص ـ اس فورس میں جرمن اہلکاروں سے اس بارے میں تحقیق
کرے۔ نیز ہم اپنی فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیفل کے موقف اور کردار کا تعین
کرے۔
دشمن لبنان میں اپنے 1000 فوجیوں سے محروم ہو
چکا ہے
دشمن کے اپنے اعتراف کے مطابق، 1000 سے زائد
صہیونی فوجی ان چالیس دنوں میں ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، ان کے 45 ٹینک تباہ ہو چکے
ہیں، اور اس کے علاوہ، صہیونی آباکاروں پر دباؤ میں شدت آئی ہے اور شدید اقتصادی
مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ اگر دشمن جنگ کو طول دے کر مقاصد حصول کی توقع رکھتا
ہے تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم تیار ہیں اور عزم و ارادے اور استقامت کے ساتھ
میدان میں ثابت قدم رہیں گے۔ اور وقت جتنا بھی گذرے تم کامیاب نہیں ہو سکو گے۔
جس امت اور قوم کی تربیت اور قیادت شہید سید حسن
نصراللہ نے کی ہے، وہ سربلندی کے ساتھ اپنے مقاصد کو حاصل کرکے رہے گی؛ جس امت نے
امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی ہے وہ دشمنوں کو شکست دے گی۔
شیخ نعیم قاسم کے خطاب کے بعض اہم نکات العالم چینل
کے حوالے سے:
- شہید سید حسن نصراللہ نور ہدایت ہیں، اور امام خامنہ ای نے فرمایا
کہ وہ عدیم المثال ہیں۔
- شہید سید حسن نصراللہ اپنی شہادت کے بدولت زندہ رہیں گے اور ہم
ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔
- صہیونی وزیر اعظم ایک بڑے پراجیکٹ پر کاربند ہے جو غزہ اور لبنان
تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطی پر مشتمل ہے۔
- ہمیں یقین ہے کہ میدان جنگ اور صہیونیوں کا داخلی محاذ، جنگ کے
خاتمے کا سبب بنے گا۔
- صہیونی ریاست مقاومت کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے حملوں سے سے
آہ و فریاد کرے گی، صہیونی ریاست کا کوئی ایک نقطہ بھی ہمارے میزائلوں اور ڈرون طیاروں
کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے گا اور آنے والوں دنوں میں ثابت کرکے دکھائیں گے۔
- ہماری کاروائیوں کی بنا پر، صہیونی دشمن خود ہی، جنگ بندی کی اپیلیں
کرے گا۔
- سیاسی حالات یا امریکی انتخابات کے حوالے سے خوش فہمی میں مبتلا
نہیں ہوتے، بلکہ ہمارا سہارا میدان جنگ ہے۔ مقاومتی تحریکوں کے سامنے واحد راستہ یہ
ہے کہ صہیونی دشمن کو اس کے مقاصد حاصل نہ کرنے دیں۔
- صہیونی ہمارے عوام کو بے گھر کرنے کے لئے کوشاں تھے جس میں وہ
ناکام ہو چکے ہیں، اسی لئے وہ پناہ گزینوں اور ان کے میزبانوں کے درمیان فتنہ انگیزی
کرنے لگے ہیں لیکن وہ اس سازش میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
- وسائل کی قلت کے باوجود، مقاومت کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا
ہے۔ اور ہماری قاموس میں مقاومت کا نتیجہ سربلندی اور فتح و کامیابی ہے۔ ہم صرف
مقاومت جاری رکھنے کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہماری قاموس میں اہم بات مقاومت، صبر
و استقامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110