10 جنوری 2019 - 13:47
مشرقی اژدہا گولڈن ایگل کو نگلتا ہوا نظر آرہا ہے!

لگتا ہے کہ امریکی طاقت کے زوال کی رفتار میں تیزی آنے کی اس صورت حال میں چین ہی وہ ملک ہے جو دنیا کا پہلا رتبہ حاصل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اشارہ: یہ قسط "امریکی زوال پر ایک نظر" کے عنوان سے تحریر شدہ مضمون کی آخری قسط ہے۔ سابقہ قسطوں میں امریکی زوال کے سماجی، معاشی، عسکری، نیز اندرونی اور بین الاقوامی کے اسباب کا جائزہ لیا گیا اور اس قسط میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکی زوال کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ملتا ہے اور امریکہ کے زوال کے بعد کون سا ملک اس کا ممکنہ جانشین ہوگا؟
اس سوال کا جواب امریکیوں کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ بہرحال ایک بالادست اور طاقتور قوت ـ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ـ اس حقیقت کو جاننا چاہتی ہے کہ کون سا ملک عالمی سطح پر اس کا رتبہ اور مقام و منزلت چھین کر دنیا کی طاقت نمبر 1 بننا چاہتا ہے؟
اگر اکیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی برسوں میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت حد تک مشکل ہی نہیں، ناممکن لگتا تھا لیکن آج دنیا بھر کے زیادہ تر ماہرین اس سوال کے جواب میں مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "مشرقی ایشیا" اور "ملک چین" اس سوال کا قابل قبول جواب ہے کہ "دنیا کا پہلا رتبہ کس ملک کے لئے مختص ہے؟"۔ حتی اکیسویں صدی کے مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے بھی بعض ماہرین اور تحقیقاتی اداروں کی نگاہ میں مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ چین اور امریکہ دنیا کی طاقت کی تقسیم کے سلسلے میں کس طرح تعامل [اور جوڑ توڑ] کرتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی بھی امریکہ کو یہ موقع دینے کا قائل نہیں ہے کہ یہ ملک شاید اپنے طاقتور رقیب ملک کی تیزرفتار ترقی کو روک سکے گا۔
*کل کا رفیق آج کا رقیب
چین اور امریکہ کا قصہ گہرے تاریخی تعلقات اور جغرافیائی مجبوری کا آمیزہ ہے؛ اگرچہ معاصر تاریخ اور کتب میں کہا جاتا ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات کا آغاز 1972ع‍سے ہوا جب اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Milhous Nixon) طیارہ نمبر 1 سے بیجنگ کے ہوائے اڈے پر اترے، حالانکہ چین میں کمیونسٹ حکومت کے برسراقتدار آنے سے بہت پہلے امریکہ اور چین کے درمیان مستحکم تعلقات قائم رہے تھے۔
انیسویں صدی عیسوی میں منشیات کے عادی چینی مزدور ہی تو تھے جنہوں نے امریکی ریلوے کو صنعت کاری (Industrialization) کے جدید دور کے لئے تعمیر کیا اور بوسٹن (Boston) جیسے شہروں میں امریکی کاروباری اداروں نے ہانگ کانگ کے بندرگاہ اور ریاستہائے متحدہ کے مغربی ساحلی علاقوں کے درمیان تجارت بڑھانے میں مدد کی۔
حتی سنہ 1949ع‍میں کمیونسٹوں نے چین پر کنٹرول حاصل کیا، تو [اس کے بعد بھی] ہانگ کانگ نے ـ برطانیہ کے کے زیر کنٹرول بندرگاہ کے طور پر ـ امریکہ اور چین کے درمیان رابطے کے خفیہ پل کا کردار ادا کیا۔ جب چین اور سوویت یونین کے درمیان ـ اعتقادی اور سرحدی اختلافات کی بنا پر ـ شدید تنازعات نے سر اٹھایا اور دو ملکوں کی سرحدوں پر گھمسان کی جھڑپیں ہوئیں تو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر (Henry Alfred Kissinger) اس نتیجے پر پہنچے کہ چین کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے تاریخی قدم اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
چین کے اندر بھی ـ اس وقت کے عوامی جمہوریہ چین کے وزیر ا‏عظم (Zhou Enlai [周恩来]) ـ جو اپنے ملک کو (چین کے صدر اور کمیونزم کے نفاذ کے مشتاق چینی راہنما ماؤ زے تنگ (Mao Zedong [毛澤東] کے منظور نظر) ثقافتی انقلاب سے نجات دلانا چاہتے تھے، کیسنجر کے لئے بہت مناسب "سامع" بن گئے۔
چینی حکام کسی وقت امریکہ کو "کاغذی شیر" (Paper tiger) کہہ کر پکارتے تھے لیکن اب ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرچکے تھے۔
*مصالحت سے رقابت تک
چین اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات کی بحالی اور دینگ ژیاؤ پنگ (Deng Xiaoping [邓小平]) کی اصلاح پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں چین میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ وہ 30 برسوں میں بیرونی سرمایہ کاری اور آزاد تجارتی علاقوں کے ذریعے 1/7 ٹریلین ڈالر کا سرمایہ اپنے ملک میں لا چکے ہیں۔
بعض مسائل و مشکلات کے باوجود چین کی سالانہ اقتصادی ترقی کی شرح ہنوز 6 فیصد ہے اور یہ شرح امریکہ کی سالانہ اقتصادی ترقی سے دو گنا زیادہ ہے۔
اگرچہ امریکہ کی سالانہ قومی پیداوار ابھی تک چینیوں سے 30 فیصد زیادہ ہے تاہم اقتصاد دانوں کے اندازوں کے مطابق چین سنہ 2015ع‍میں زر مبادلہ کے لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑے گا، اور اس وقت بھی چینی عوام کی قوت خرید امریکی عوام کی قوت خرید سے بڑھ کر ہے اور یوں اس لحاظ سے بھی امریکہ چین سے سبقت لے گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ مستقبل قریب ـ اور اگلے 10 برسوں ـ میں ابھرنے والے اپنے متبادل کو پہنچان سکا یا نہیں؟
*درمیانی سطنت کی کمزوریاں
اس سوال کا جواب مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان رقابت و مسابقت کی فضا بہت واضح و آشکار نہیں ہے۔
سب سے پہلا سبب ـ جس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ـ چینیوں کا تاریخی صبر ہے۔ چینی بہت زیادہ صبر و تحمل کے ساتھ اپنا سفر طے کرکے مقصد حاصل کرنے کے شوقین ہیں۔
طویل عرصے تک سوویت یونین کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے الیکسی کوسیگن (Alexei Kosygin) اور چینی صدر ماؤزے تنگ کے درمیان بات چیت شاید مؤرخین کی نگاہ میں اس چینی صبر کی سنجیدہ ترین مثال کے طور پر ابھر آئیں۔
کوسیگن چین کے سوویت یونین کے درمیان کے سرحدی تنازعات کے تیزرفتار حل کے خواہاں تھے؛ ماوزے تنگ نے ان سے کہا: "ان مسائل کے حل کے لئے 10 ہزار سال تک طول کھینچے گا" اور جب کوسیگن نے ان کے اس موقف پر تنقید کی تو انھوں نے کہا: "اچھا آپ چاہتے ہیں تو میں اس عرصے کو گھٹا کر 9000 سال متعین کرتا ہوں!"۔
اب امریکیوں کے سلسلے میں بھی چینی قطعی طور پر بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں گے چنانچہ شاید 10 سال کا عرصہ بہت عرصہ ہے کہ چینی دنیا کی پہلے نمبر کی طاقت بنیں گے۔


دوسری طرف سے چینیوں کو سماجی مشکلات کا سامنا ہے اور امریکیوں نے ان مسائل پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ طبقاتی فاصلے، ماحولیات کی آلودگی، عوام کو رہائش کی فراہمی کا مسئلہ، سرکاری اور نجی شعبوں پر بینکاری نظام کے بہت زیادہ قرضے وغیرہ، وہ مسائل ہیں جو چین کو بھی خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں۔
ادھر چین یک جماعتی سیاسی نظام کا حامل ملک ہے جس میں عوام کی شراکت کا تصور تک نہیں ہے اور یہ موضوع اس مسئلے کا باعث ہے کہ شاید کسی وقت چینی عوام کا صبر تمام ہوجائے اور وہ کمیونسٹ نظام کے آگے اٹھ کھڑے ہوجائیں اور 1989ع‍کے تیان آن مین (Tiananmen Square) کے واقعات ایک بار پھر دہرائے جائیں۔۔۔ [یا یوں سمجھئے کہ جس طرح کہ 1989ع‍میں امریکیوں نے تیان آن مین اسکوائر کے واقعے کو تخلیق کیا تھا اب بھی امریکی ایسا کوئی نیا واقعہ دہرانے سے ناامید نہیں ہوئے ہیں اور وہ بھی گویا اپنی فنا کے سامنے مزاحمت کے ایک حصے کے طور پر چین کو اپنا متبادل بننے سے روکنے کی کوششیں کررہے ہونگے اور شاید کررہے ہیں!] امریکیوں کو بہت زیادہ توقع ہے کہ ایسے کسی نئے واقعے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں [لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر امریکی اس طرح کے کسی واقعے کے رونما ہونے کی توقع کئے بیٹھے ہیں تو چینیوں کو بھی اس مسئلے کا پورا پورا اندازہ ہوگا اور وہ بھی امریکہ کا متبادل بننے کے آگے ابھرنے والی رکاوٹوں کا اندازہ کرچکے ہونگے اور تسدیدی اقدامات بھی عمل میں لائے ہونگے۔ ہم بھی چینیوں کی طرح وقت کے فیصلے کے منتظر ہیں]۔
*عسکری طاقت امریکیوں کے ہاتھ میں
ان تمام مسائل کے باوجود، طاقت کا پلڑا بہت زیادہ حد تک چینیوں کی طرف بھاری ہے اور شاید اس کا سبب یہ ہو کہ امریکہ کی طاقت ناقابل توقع حد تک تیزی سے تنزلی کی طرف گر رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی تنازعات اور برسوں سے عراق اور افغانستان میں میں امریکیوں کے عظیم مصارف و اخراجات نے چین کو ـ پہلی طاقت کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے بغیر ـ اپنی فوجی ترقی کے اہتمام کا موقع دیا۔ اس وقت چین کا فوجی بجٹ دنیا کا دوسرا بڑا بجٹ ہے۔ اس بجٹ کا ایک سبب چین کی زبردست اقتصادی ترقی ہے جبکہ امریکہ کو مشرق وسطی اور افغانستان میں بہت بڑی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہیں اور یہودی ریاست نیز مصر اور بعض دوسرے ممالک کو سالانہ امداد دینے پر بھی مجبور ہے اور جتنی رقوم و سعودی عرب سے بٹور کر اپنی معیشت درست کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ اس گرتی معیشت کے لئے کافی نہیں ہیں اور ادھر چین تسلسل کے ساتھ فوج کے وسائل اور اسلحے اور مختلف دفاعی اور جنگی سازوسامان پر سرمایہ کاری کررہا ہے۔
اس وقت چین شنگھائی کی بندرگاہ پر دوسرا طیارہ بردار بحری جہاز بنانے میں مصروف ہے۔ جبکہ چین نے اس سے پہلے روس سے ایک استعمال شدہ طیارہ بردار جہاز خریدا اور اس کی تعمیر نو کرکے اسے دالیان بندرگاہ (Port of Dalian) کے مقام پر پانی میں اتارا۔
نیز چین کو توقع ہے کہ اپنی رو بہ پیشرفت بحری قوت سے جنوبی چین کے سمندر میں استفادہ کرے اور اپنی سرزمین کو توسیع کو ویت نام اور فلپائن کے قریبی معدنیات سے مالامال جزائر میں مستحکم کرے۔
ادھر چین بہت جلد امریکہ کے بعد دوسرے بڑے زیر سمندر [آبدوز] بیڑے کا مالک بن جائے گا۔ چین کے پاس اس وقت بیلیسٹک میزائل کی حامل صرف تین آبدوزیں ہیں، تاہم چینی افواج مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہیں اور یہ منصوبے چین کو بہت جلد دوسرے نمبر پر پہنچائیں گے اور چین اس لحاظ سے روس کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔
لیکن روسی چینیوں کے ساتھ رقابت نہیں کررہے ہیں، اور چین کو مدد بھی دے رہے ہیں کہ وہ اپنے آبدوزوں کے بیڑے کو وسعت دیں جبکہ چین کی فضائیہ کی ترقی بھی شمالی ہمسائے کی مرہون منت ہے۔
*جب چین دنیا کے پانیوں کو گھیر لے گا
دنیا کی تجارت پر امریکی بالادستی کا ایک بہت اہم راز دنیا کے سمندروں پر امریکی بالادستی ہے۔ یہ بالادستی دوسری عالمی جنگ کے بعد معرض وجود میں آنے والی امریکی بحریہ کی عظیم طاقت کے مرہون منت ہے۔
اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر چین نے مسلط امریکی قوت کا مقابلہ کرنے کے لئے اس بار زمینی راستوں کا رخ کرلیا ہے۔ سابق چینی صدر ہوجنتاؤ (Hu Jintao) نے ایک بائی پاس شاہراہ کی تعمیر کا منصوبہ پیش کیا تھا جس پر موجودہ صدر شی جن پنگ (Xi Jinping) عمل درآمد کررہے ہیں۔ یہ سڑک چین کے صوبہ سنکیانگ (Xinjiang) سے پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک جائے گی اور یوں چین جنوب مشرقی ایشیا اور بحر ہند میں امریکی بحری طاقت کا سامنا کئے بغیر مغربی ایشیا، بحیرہ احمر (Red Sea) اور افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک رسائی حاصل کرے گا۔ واضح رہے کہ چین نے گوادر بندرگاہ سے اپنی مصنوعات کی پہلی کھیپ دو بحری جہازوں کے ذریعے افریقہ برآمد کی ہے۔
اس منصوبے کے تحت ایک سڑک چین سے وسطی ایشیا اور روس کے راستے مشرقی یورپ کے بالٹک کے علاقے (The Baltic region) تک جائے گی اور یوں وہ جرمنی نیز اسکینڈینیویا (Scandinavia) کے ممالک کی سرحدوں تک رسائی حاصل کرے گا۔ اگر چینی ان دو سڑکوں کے منصوبے پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہوجائے تو امریکہ عملی طور پر چین کے تجارتی راستوں پر کنٹرول کی صلاحیت کھو جائے گا۔
گوکہ امریکیوں کے ہاتھ پاؤں اس چینی منصوبے کے مقابلے میں بندھے ہوئے نہیں ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شام کی جنگ نیز یوکرین کا بحران، اسی منصوبے کو ناکام بنانے کی امریکی کوششوں کا حصہ ہیں، جس میں البتہ وہ ناکام ہوا۔
*رینمنبی ڈالر کے لئے بلائے جان ہوگا
چینیوں کے پاس امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ہتھیار اور بھی ہے اور وہ چینی کرنسی "رینمنبی" (Renminbi) ہے۔ رینمنبی آج ایک طاقتور اور عالمی کرنسی ہے اور امریکی ڈالر کے لئے زبردست رقیب۔
امریکہ نے آج تک ڈالر کو پابندیوں کی راہ میں اسلحے کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے اور حال میں روس اور چین کے خلاف اس اسلحے کا بےتحاشا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ڈالر پر سے عالمی اعتماد اٹھنے لگا ہے اور بہت سے ممالک کی نگاہیں زر مبادلہ کے طور چینی کرنسی "یوآن یا رنمنبی" کی طرف اٹھنے لگی ہیں۔
گوکہ اس وقت زرمبادلہ کے طور پر رنمنبی کا استعمال صرف 10 فیصد ہے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آج سے چند سال قبل تک عالمی زر مبادلہ کا استعمال نصف فیصد تک بھی نہیں پہنچتا تھا۔ دوسری طرف سے چینیوں نے شنگھائی میں عالمی تیل کی فروخت کے لئے نئے عالمی اشاریئے (New Global Index) کا تعارف کرایا ہے جس کے تحت تیل کی قیمت کے تعین ڈالر کے بجائے رنمنبی کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ بھی رنمنبی کو عالمی سطح پر ڈالر کے مقابلے پر کامیاب کرنسی کے طور پر متعارف کرانے کے سلسلے میں چین کا ایک اہم اقدام ہے۔
اس وقت روس اور چین کے درمیان ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرنے کے درپے ہیں جس کے تحت یہ دو ممالک اپنی اپنی کرنسیوں کی بنیاد پر تجارت کریں گے؛ اس منصوبے پر اب تک کئی مرتبہ عملدرآمد بھی ہوچکا ہے۔
بطور مثال روس اور چین نے فیصلہ کیا ہے کہ ان دو ممالک کے درمیان گیس کے 400 ارب ڈالر کے ایک سودے کا حساب ان دو ممالک کی قومی کرنسی کے ذریعے بےباق کیا جائے۔ اگر یہ روش اسی انداز سے آگے بڑھے تو امریکیوں یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ رنمنبی مستقبل قریب میں ڈالر کے ایک طاقتور کرنسی کے طور پر ابھرنے والی کرنسی ہے۔
*امریکی طاقت کے زوال کی طرف پہلا اشارہ کس ملک نے کیا
امریکی طاقت کا زوال ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی بھی چھپا نہیں سکتا۔ ہم نے گذشتہ قسطوں میں اس زوال کے دلائل اور زوال کی ان نشانیوں کے نمایاں سے نمایان تر ہونے کو  سنجیدہ انداز سے واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
بہر حال وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ امریکی زوال کے کے ان معیاروں اور اسباب و وجوہات کی اہمیت میں کمی بیشی آنا ممکن اور ایک فطری امر ہے۔ لیکن جس چیز کو یہاں یاد رکھنا چاہئے جس نے سب سے پہلے ـ تمام تر مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود ـ امریکی طاقت کو شیطانی طاقت قرار دیا اور اس کے انجام کی پیشگوئی کی وہ انقلاب اسلامی کے رہبر اور اسلامی جمہوریہ کے بانی حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) تھے؛ اور جس قوت نے سب سے پہلے امریکی طاقت کو چیلنج کیا اور بلا خوف و خطر اس کے خلاف میدان میں اتری اور امریکی بالادستی کی عمر کو محدود کردیا، وہ اسلامی انقلاب کی قوت تھی۔
یہ شاید وہ اہم ترین نکتہ ہے جس کی طرف مستقبل میں امریکی زوال پر تحقیق کرنے والے مؤرخین ضرور اشارہ کریں گے۔

بقلم: مہدی پور صفا
ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
اختتام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://fna.ir/bqqmo7

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰