19 دسمبر 2025 - 16:09
جو لوگ خدا کو نہیں مانتے، وہ یہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں

سورہ نور کی آیت 44 سے 53 تک کی آیات مؤمنوں سے خطاب سے پہلے، ان لوگوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں جو خدا کے وجود کے بنیادی تصور کا انکار کرتے ہیں؛ یہ آیات شب و روز بلا وقفہ نظم و ترتیب اور تخلیق کے اسرار و رموز سے شروع ہوتی ہیں اور قدم بہ قدم یہ دکھاتی ہیں کہ مسئلہ صرف 'نشانیاں نہ دیکھنا' نہیں ہے، بلکہ 'فیصلہ اور قانون قبول کرنے سے گریز و انکار ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||  سورہ نور کی 44 سے 53 تک کی آیات توحید اور اللہ کے وجود کے بنیادی عقیدے میں، 'حقیقی ایمان' اور 'از روئے دعویٰ ایمان' کے درمیان حد کی لکیر کھینچنے والے کے واضح ترین قرآنی آیات میں سے ہیں۔ یہ آیات مظاہر فطرت میں اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے شروع ہوتی ہیں، لیکن مخاطَب کو  جلد ہی آسمان، بادلوں اور بارشوں سے معاشرے اور انسانوں کے برتاؤ کی طرف لے آتی ہیں، جہاں اطاعت یا سرکشی خدائے متعال کے وجود پر ایمان کی پیمائش کا معیار بن جاتی ہے۔

جو لوگ خدا کو نہیں مانتے، وہ یہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں

اللہ کی نشانیاں شب و روز کی گردش میں

آیت نمبر 44:

"يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ؛

اللہ ہی رات اور دن کو دگرگوں کرتا (اور بدلتا) ہے، بے شک اس میں بصیرت والوں کے لئے ایک [یقینی] عبرت ہے"۔

یہ آیت رات اور دن کی گردش کی طرف اشارے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک مسلسل، باقاعدہ اور دہرایا جانے والا واقعہ ہے؛ جس کی انسان کو اتنی عادت ہو گئی ہے کہ وہ اس کے پس پردہ حقائق کے بارے میں بہت کم سوچتا ہے۔ قرآن اس مسلسل تبدیلی کو بصیرت رکھنے والوں کے لئے ایک نشانی اور ایک عبرت قرار دیتا ہے، وہ صاحبان بصیرت جو ظاہر سے آگے بڑھ کر تدبیر الٰہی تک پہنچ جاتے ہیں۔ آیت کا پیغام واضح ہے؛ کہ اگر کوئی شخص دنیا کے اسی واضح نظام میں خدا کا ہاتھ نہیں دیکھتا تو وہ زیادہ پیچیدہ سماجی اور اخلاقی معاملات میں بھی نابینائی اور اندھے پن کا شکار ہو جائے گا۔

موجودات کی تخلیق، اختلاف کے باوجود اتحاد

آیت نمبر 45:

"وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَى أَرْبَعٍ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ؛

اور اللہ نے ہر جاندار کو ایک پانی سے بنایا ہے، سو ان میں سے بعض اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، اور ان میں سے بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں، اور ان میں سے بعض چار پاؤں پر چلتے ہیں، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔"

آیت 45 میں تمام متحرک مخلوقات کے پانی سے پیدا ہونے کا ذکر ہے۔ اس مشترکہ جڑ کے باوجود، اختلافات حیرت انگیز ہیں: کچھ اپنے پیٹ کے بل رینگتے ہیں، کچھ دو پیروں پر چلتے ہیں اور کچھ چار پیروں پر۔ قرآن اس تصویر کشی کے ذریعے، اللہ کی قدرت مطلقہ (یعنی قادر مطلق ہونے) کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے اور  'تخلیق میں تنوع (قِسْما قِسْمی)' میں اس کی 'حکمت' کی طرف توجہ بھی دلاتا ہے۔ یہ آیت یاد دہانی کراتی ہے کہ انسانی برادری میں اختلافات بھی سنت الٰہیہ کا حصہ ہیں، لیکن ان اختلافات کسی کی طرف سے برتری یا سرکشی کا بہانہ نہیں بننا چاہئے۔

واضح نشانیاں، اور بند آنکھیں

آیت نمبر 46:

"لَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ؛

یقیناً ہم نے واضح (اور روشن) کر دینے والی آیتیں نازل کر دی ہیں، اور اللہ جسے چاہے سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت عطا کرتا ہے۔"

یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اللہ نے واضح کر دینے والی نشانیاں نازل کی ہیں اور ہدایت کا راستہ صاف طور پر دکھایا ہے۔ اس کے باوجود، انسانوں کا ہدایت یافتہ ہونا یا نہ ہونا ان کی اپنی مرضی اور انتخاب سے جڑا ہؤا ہے۔

یہاں قرآن "ابہام" کے کندھے سے، ذمہ داری، اٹھا لیتا ہے۔ چنانچہ 'مسئلہ'، 'راستے کی تاریکی'، نہیں ہے، 'مسئلہ' وہ 'آنکھیں' ہیں جو 'دیکھنے کے لئے تیار' نہیں ہیں۔

زبانی ایمان یا حقیقی اطاعت

آیت نمبر 47:

"وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُولَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ؛

اور وہ کہتے ہیں: ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم فرمانبردار ہو گئے، [لیکن] پھر، اس کے بعد، ان میں سے ایک گروہ پھر جاتا ہے، اور وہ لوگ [درحقیقت] مؤمن نہیں ہیں۔"

اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں آیات کا لب و لہجہ زیادہ سماجی اور تنقیدی ہو جاتا ہے۔ قرآن اس گروہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لے آئے اور اطاعت کرنے والے ہیں، لیکن یہ لوگ عمل میں ایسے نہیں ہیں۔ یہ آیت دینداری کی ایک خطرناک ترین آفت کو عیاں و نمایاں کرتی ہے: نعرے اور عمل کے درمیان فرق اور فاصلہ۔ ایمان محض ایک دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اسے ارادوں، فیصلوں اور طرز زندگی میں نظر آنا چاہئے۔

منصفانہ فیصلے سے فرار

آیت نمبر 48:

"وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ؛

اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ ان میں فیصلہ کرے تو ان میں ایک گروہ روگردان (اور مُنحرف) ہو جاتا ہے۔"

آیت 48 اس نفاقِ عملی (عمل میں منافقت) کا ایک واضح نمونہ پیش کرتی ہے۔ جب یہ لوگ فیصلے کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاس بلائے جاتے ہیں، اگر فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کر لیتے ہیں، لیکن اگر ان کی مرضی کے خلاف ہو تو منہ موڑ لیتے ہیں۔ یہ رویہ 'من پسند ایمان' کو بے نقاب کرتا ہے، ایسا ایمان جو اللہ اور اس کے پیغمبر کو تب تک قبول کرتا ہے جب تک کہ ذاتی مفادات خطرے میں نہ پڑ جائیں۔

مسئلہ دلوں کا ہے، قانون کا نہیں

آیت نمبر 49:

"وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ؛

اور اگر (فیصلہ ان کے حق میں ہو اور) انہیں حق پہنچتا ہو تو پوری تسلیم کے ساتھ اس کی طرف آتے ہیں۔"

اس آیت میں اشارہ ہوتا ہے اس حقیقت کی طرف کہ اگر فیصلہ منافقین کے فائدے میں ہو تو وہ سرتسلیم خم کرکے اطاعت کی رو سے پیغمبر کے پاس آتے ہیں، اور آیت کا سیاق "یَأْتُوا إِلَیْهِ" (آتے ہیں اس کی طرف) ہے اور "حق" سے مراد پیغمبر کا حکم ہے۔ کیونکہ حکم ایسا حق ہے جو پیغمبر سے جدا نہیں ہوتا اور اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ "اگر حق ـ جو کہ پیغمبر کا حکم اور فیصلہ ہے ـ ان "منافقین" کے حق میں ہو ـ اور ان کے نقصان میں نہ ہو ـ تو وہ اس حکم کی طرف آتے ہیں جبکہ پیرو اور مطیع ہیں، چنانچہ وہ پیغمبر سے منہ موڑ کر نہیں جاتے سوا اس وقت کے کہ جب یہ حق (یعنی پیغمبر کا فیصلہ) ان کی مرضی اور خواہش کے خلاف ہو؛ اور اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اور صرف اپنی ہوآئے نفس کی پیروی کرتے ہیں اور کبھی بھی حق کی اطاعت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

سچا ایمان کیسا ہے؟

آیت نمبر 50 اور نمبر 51:

"أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ بَلْ أُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ * إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛

کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا شک میں پڑے ہیں؟ یا ڈرتے ہیں اس سے کہ ان پر اللہ اور اس کا رسول ظلم کریں گے؟، بلکہ وہ خود ہی ظالم ہیں * مؤمنوں کی بات ـ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ـ تو بس یہی ہوتی ہے کہ 'ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور وہی [حقیقی] لوگ نجات پانے والے ہیں۔"

آیت نمبر 50 میں قرآن ایک چونکا دینے والے سوال کے ساتھ مسئلے کی جڑ کی نشاندہی کرتا ہے، اور وہ یہ کہ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ کیا وہ شک میں ہیں؟ یا وہ ڈرتے ہیں کہ خدا اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے؟ یہ سوالات دکھاتے ہیں کہ حکمِ الٰہی سے سرکشی نہ انصاف کے خوف سے، بلکہ دل کی بیماری اور دنیا پرستی سے جنم لیتی ہے۔

یہ آیت صراحتاً اعلان کرتی ہے کہ یہ لوگ خود ظالم ہیں۔ اس کے برعکس، آیت 51 سچے مومنوں کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے: وہ لوگ جو جب فیصلے کے لیے خدا اور رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں، تو ان کا صرف ایک کلمہ ہوتا ہے: "ہم نے سنا اور اطاعت کی"۔ یہ اطاعت اندھا دھند اور سمجھ بوجھ کے بغیر نہیں ہے، بلکہ عدلِ الٰہی حکمتِ  الٰہیہ پر اعتماد کی بنیاد پر عمل میں آتی ہے۔

اطاعت، نجات کا راستہ

آیت نمبر 52:

"وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ؛

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے بس وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔"

یہ آیت اس راستے کا نتیجہ بیان کرتی ہے: خدا اور رسول کی اطاعت، تقویٰ کے ساتھ ہو، تو انسان کو فلاح و نجات تک پہنچاتی ہے۔ قرآن نجات کو محض دعوے اور زبانی کلامی نعرے یا دین کی ظاہری شکل میں نہیں، بلکہ حکمِ الٰہی کے عملی التزام (اور پابندی) میں، سمجھتا ہے۔

بے باکانہ قسمیں، کمزور ارادے

آیت نمبر 53:

"وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ؛

اور وہ اللہ کی انتہائی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو (اپنے گھر بار اور ساز وسامان) سب چھوڑ کر نکل جائیں گے (اور اپنی جانیں پورے اخلاص کے ساتھ آپ کو پیش کریں گے مگر)، کہہ دیجئے قسمیں نہ اٹھاؤ [بلکہ] خالصانہ خالصانہ انداز سے فرمانبرداری دکھاؤ، بے شک اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔"

اس آیت کے مطابق، منافقین سخت قسمیں کھا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر جہاد یا اقدام کا حکم دیا جائے گا تو وہ اطاعت کریں گے۔ لیکن قرآن لفاظیوں کی ان نمائشوں کو بے وقعت قرار دیتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقی اطاعت کے لیے اندرونی سچائی کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ بلند بانگ قسموں کی۔

آیات کریمہ کا مجموعہ فطرت میں خدا کی طاقت کی نشانیوں سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے میں نمائشی ایمان پر تنقید کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔ یہ ہر زمانے کے لئے ایک واضح پیغام ہے: "ایمان کی پیمائش فیصلے اور اطاعت کے لمحات میں کی جاتی ہے، نہ کہ نعروں اور دعوؤں میں۔"

قرآن کریم کے صفحہ 356 پر ان آیات کی تلاوت دیکھیے اور سنیے:

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha