28 دسمبر 2025 - 06:30
جعلی بیانیہ – 1؛ جعلی بیانیے کی تعریف اور اغراض و مقاصد

آج دشمنوں کے ساتھ جنگ کا میدان آزاد اور خودمختار قوموں کے ذہنوں کی تسخیر اور جذبات و احساسات کو سمت [یا رخ] دینا اور بدلنا، تسلط پسندانہ اہداف میں شامل ہیں۔ اس مرکب (Hybrid) اور ادراکی جنگ میں، دشمن ـ خاص طور پر ـ مصنوعی ذہانت، سوشل میڈیا نیٹ ورکس اور بصری ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھا کر "جعلی بیانیے" تخلیق کرتے ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || دشمن کے ان بیانیوں کا مقصد ہر چیز کو بدنما اور سیاہ دکھانا، بدگمانی اور مایوسی پھیلانا، عمومی اعتماد کو کمزور کرنا اور جھوٹے اور وقتی جذبات کو اکسانا، ہے۔ دشمن کے جعلی بیانیوں کا سامنا کرنا ایک اخلاقی ضرورت، سماجی ذمہ داری اور شرعی فریضہ ہے۔

مرکب جنگ اور جعلی بیانیوں کا کردار

مرکب جنگ (Hybrid Warfare)  ـ بیک وقت ابلاغی، تشہیری، نفسیاتی، معاشی اور سیاسی دباؤ ـ کا مجموعہ ہے جس میں جعلی بیانیے کا کردار بنیادی ہے۔ اس جنگ میں دشمن کی کوشش ہوتی ہے کہ:

• حقائق کو الٹ پلٹ دےاور کبھی ان کا انکار کرے۔

• کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور طاقت کے نقاط کو چھپا دے۔

• مایوسی، غیظ و غضب اور بداعتمادی کو عقلیت کے متبادل کے طور پر ابھار دے۔

قرآن کریم خبردار کرتا ہے کہ:

"وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ؛ [1]

کہیں دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈالیں"۔

مصنوعی ذہانت؛ جعلی روایت بنانے کے لئے دشمن کا جدید آلہ

مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence [AI]) نے ـ متن، آواز، تصویر اور ویڈیو بنانے کی صلاحیت رکھنے کے بموجب ـ بہت واقعی اور ماننے کے قابِل بیانیہ تخلیق کرنے کا امکان فراہم کیا ہے۔

دشمن اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جعلی ویڈیوز، عہدیداروں اور کمانڈروں کے الفاظ میں ہیر پھیر، اسٹراٹیجک موقف کی تبدیلی کا شائبہ پیدا کرنے اور ناگہانی ابلاغی اور جذباتی دھچکا لگانے کی کوشش کرتا ہے؛ یوں کہ سامعین، ناظرین اور صارفین گمان کرتے ہیں انہیں ایک اٹل حقیقت کا سامنا ہے۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فتنے کیتشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 "إِنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ أَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّهِ وَيَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ وَلَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ وَلَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَمِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِهِ وَيَنْجُو الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْحُسْنى؛ [2]

فتنوں کے وقوع کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ نئے ایجاد کردہ احکام [بدعات] کہ جن میں قرآن کی مخالفت کی جاتی ہے اور جنہیں فروغ دینے کیلئے کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف دوسرے پر حاکم اور ولی بن جاتے ہیں ایسے لوگ جو اللہ کے آئین کے پیرو نہیں ہیں۔ تو اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا تو وہ ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کے شائبے سے پاک و صاف سامنے آتا تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جاتیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر [حق] سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر [باطل] سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے؛ اور یہی وہ موقع ہے جب شیطان اپنے دوستوں پر غالب آتا ہے اور صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کیلئے پہلے ہی سے اللہ کی توفیق اور عنایت خداوندی میسر ہو۔"

سماجی رابطے کی ویب گاہیں [سوشل میڈیا]، جعلی بیانیوں کے مُسرِع (Accelerator)

سماجی نیٹ ورکس ـ تیزی سے شائع / نشر ہونے، جذباتیت پر مبنی عمل سازی (Process-making) اور متنازعہ مواد کو فوقیت دینے کی بنا پر ـ بیانیوں کی جنگ کا مرکزی میدان بن گئے ہیں۔ دشمن ان ہی خصوصیات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

دشمن بالکل اسی خصوصیات سے فائدہ اٹھاتا ہے؛ تاکہ:

• جعلی روایت کو ـ رسمی اور سرکاری تردید سے پہلے ہی، ـ وسیع پیمانے پر پھیلا دے۔

• جذباتی رد عمل کو عقلی اور منطقی کی جگہ بٹھا دے۔

• عوام کو ـ انجانے میں ـ افواہ پھیلانے اور دہرانے کا ذریعہ بنا دے۔

* قرآن کریم فرماتا ہے:

"إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ؛ [3]

در واقع اين شيطان است كه دوستانش را مى‏ ترساند

بیشک یہ شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں کو خوفزدہ کرتا (اور تشویش میں مبتلا کر دیتا) ہے"۔

مذکورہ بیانیوں کا مشترکہ نقطہ یہ ہے کہ ان میں معاشرے کے قابل اعتماد شخصیات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، حقائق کو چن کر الٹ پھیر دیا جاتا ہے، حساس اور تزویراتی مسائل پر لوگوں کی توجہ مرکوز کرائی جاتی ہے، اور متعلقہ مواد کو عوامی جذبات کو اکسانے اور مشتعل کرنے کی غرض سے، سماجی رابطے کے نیٹ ورکس میں، پھیلا دیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: آیت اللہ عباس کعبی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110


[1]۔ سورہ لقمان، آیت 33۔

[2]. نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 50۔

[3]۔ سورہ آل‌عمران، آیت 175۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha