بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ان انتخابات میں، مقاومتی دھڑے اور اتحادی جماعتیں جیت گئیں: الاعمار (محمد شیاع السودانی)، دولۃ القانون (نوری المالکی)، بدر تنظیم (ہادی العامری)، صادقون (قیس الخزعلی)، حکمت ملی (عمار الحکیم)، حقوق (حزب الله بریگیڈز سے وابستہ) وغیرہ نے 110 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ مجموعی طور پر عراقی پارلیمنٹ میں شیعہ نمائندگی بڑھ کر 329 میں سے 198 نشستوں (تقریباً 60%) تک پہنچ گئی۔
حقوق پارٹی، جو ایک elitist پارٹی ہے اور ان کے اپنے بقول "معیاری" جماعت ہے، 4 سے بڑھ کر 7 نشستوں پر پہنچ گئی، اور صادقون دھارا 18 سے بڑھ کر 28 نشستوں پر پہنچ گیا۔ دوسری طرف، غیر شیعہ جماعتیں جو امریکہ، ترکیہ اور بعض خلیجی عرب ممالک سے وابستہ ہیں: جیسے 'تقدم' (محمد الحلبوسی) 28 نشستیں اور 'السیادہ' (خمیس الخنجر) 9 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، لیکن اپنی سابقہ پارلیمانی پوزیشن کو بہتر نہیں بنا سکیں۔ البتہ، العزم دھارا (مثنی السامرائی)، جو 'الحشد الشعبی' کے قریب ہے، نے 15 نشستیں حاصل کر کے نمایاں پیشرفت کی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی بار شیعہ جماعتوں جیسے 'العصائب'، بدر اور 'دولۃ القانون' نے سنی اکثریتی علاقوں جیسے دیالی، تکریت اور موصل میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اکتوبر سنہ 2021ع کی احتجاجی تحریک (احتجاجات کے تیسرے دور) کے تمام کردار،ـ جو عام طور پر ایران مخالف تھے، ـ انتخابات میں ناکام رہیں۔ اس طرح، عراقی عوامی رائے نے ایک بارے پھر 'مقاومت کے بیانیے' کا دفاع کیا اور حشد الشعبی مخالف دھارے کو مسترد کر دیا۔
شیعہ جماعتوں کے ووٹوں میں، الاعمار (موجودہ وزیر اعظم شیاع السودانی کے اتحاد) نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے، اور وہ کئی صوبوں میں پہلی پوزیشن پر رہے، بشمول بغداد، جہاں کے انتخابی نتائج کے بارے میں بہت سارے ابلاغیاتی اداروں اور تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ یہ نتائج مبہم ہیں۔
ان انتخابات میں، اگرچہ مقتدی صدر (شہید آیت اللہ سید محمد صدر کے بیٹے، جنہیں سنہ 1999ع میں بعث حکومت نے دو بیٹوں سمیت شہید کیا تھا) نے انتخابات کا بائیکاٹ مہم چلا کر صدر دھارے کے زیر اثر علاقوں میں ووٹنگ کی شرح کم کر دی، لیکن اس کا انتخابات کے مجموعی نتائج پر کوئی سنجیدہ اثر نہیں ہؤا، اور اس دھارے کے اثر و رسوخ کو واضح کر دیا۔
اگرچہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عراق کے بعض بنیادی طور پر محروم علاقے صدر دھارے کے قابل ذکر سماجی مراکز ہیں، اور ان کے حامی انہیں غریبوں اور محروموں کا مدافع اور بدعنوانی مخالف سمجھتے ہیں، لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود، انھوں نے ذمہ دارانہ رویہ اپنایا اور سیاسی جھگڑوں اور تنازعات میں نہیں پڑے۔
صدر دھارے کے انتخابات کے بائیکاٹ کے علاوہ، نجف کی مرجعیت نے عوام کو عراقی پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جس نے بہت اہم اور مؤثر کردار ادا کیا، اور بلاشبہ اس نے عراقی پارلیمنٹ میں شیعہ دھارے کے سیاسی وزن کو بڑھانے میں سنجیدہ کردار ادا کیا۔
عراقی کردستان میں، کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) نے 29 نشستیں اور پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK) نے 18 نشستیں حاصل کیں، جس سے ان دونوں کے درمیان متناسب توازن قائم ہؤا۔
موجودہ پارلیمنٹ 8 جنوری سنہ 2026ع تک اور موجودہ عراقی حکومت مارچ 2026ع کے آخر تک فعال رہے گی۔ اندرونی طریقۂ کار اور افہام و تفہیم کے مطابق، صدارت کردوں کے پاس، پارلیمنٹ کی صدارت سنی عربوں کے پاس، اور ملک کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ ـ جو اعلیٰ ترین انتظامی عہدہ ہے ـ اہل تشیّع کے پاس رہے گا۔ بہر حال، یہ دیکھنا ہو گا کہ عراق کی آنے والی پارلیمنٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، لیکن یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عراق میں مزاحمت پر یقین رکھنے والا مقاومتی دھارا جیت گیا ہے اور امریکہ، ترکیہ اور خطے کے بعض عرب ممالک پر انحصار کرنے والا مقاومت مخالف دھارا پوری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
بلاشبہ، مغربی ایشیا کے خطے کے واقعات، خاص طور پر جعلی صہیونی ریاست کی غزہ اور لبنان پر وحشیانہ جارحیت، نیز 12 روزہ جنگ اور عظیم ایرانی قوم کی عظیم فتح، نے عراقی عوام کی رائے پر اثر ڈالا ہے (اور اس کا عکس اس سال کے تاریخی اربعین کے جلوس میں دیکھا بخوبی دکھائی دیا)، اور اس کا حتمی نتیجہ عراق کے نومبر سنہ 2025ع کے پارلیمانی انتخابات میں اس کی ذیلی جماعتوں کے ساتھ عراقی مقاومتی دھارے کی مجموعی فتح کی صورت میں برآمد ہؤا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ