بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ طٰہٰ کی آیات 52 سے 64 میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان بات چیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام)، جو الٰہی مشن اور معجزات دکھانے کے بعد، اب ایک کھلے دشمن اور ایک ایسی ہٹ دھرمی کا سامنا کر رہے ہیں جس کی جڑیں غرور و استکبار اور خود پرستی و خودغرضی میں پیوست ہیں۔
فرعون، جو اپنے آپ کو "سب سے بڑا رب" کہتا ہے، حقیقت کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں ہے اور طاقت اور فریب کے ذرائع سے سچ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ آیات حق اور باطل کے مسلسل اور دائمی ابدی تصادم کا واضح نمونہ ہیں؛ جہاں اللہ کے نبی منطق اور ایمان کے ساتھ بولتے ہیں اور دشمن الزام، خوف و ہراس پھیلانے اور تحریف کے ساتھ جواب دیتا ہے۔

تاریخ کا انکار، اور اللہ کا جواب
فرعون موسیٰ (علیہ السلام) سے بات چیت کے دوران پوچھتا ہے: "پھر پچھلی قوموں کا کیا ہؤا؟" یہ سوال بحث کو بھٹکانے اور خدا کے پیغام کو بے اثر کرنے کی کوشش ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں: "اس کا علم رب کے پاس ہے؛ وہی ہے جس نے ایک واضح کتاب (نوشتے) میں سب کچھ ثبت کر دیا ہے اور وہ نہ بھٹکتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔"
پیغمبر خدا کے اس جواب سے عیاں ہے کہ وہ دشمن کے منطق کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) بے مقصد بحث میں نہیں الجھتے، بلکہ خدا کے علم پر بھروسہ کرتے ہوئے بات چیت کو اپنی دعوت کے بنیادی مقصد پر واپس لاتے ہیں۔ اس حصے سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ "مؤمن کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کبھی کبھی تاریخی یا فلسفیانہ شکوک و شبہات اٹھا کر سچائی کو اس کے اصل راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔"
سورہ طٰہٰ کی آیات 52 تا 64
فرعون کو توحیدی منطق کا سامنا
موسیٰ آگے پورے یقین کے ساتھ خدائے احد و واحد کا تعارف کراتے ہیں: "زمین اور آسمانوں کا پروردگار، مشرق اور مغرب کا خالق، اور وہ بخشش و عطا کرنے والا جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور انہیں راستہ دکھایا اور ہدایت عطا کی۔" لیکن فرعون، جس کی منطق ناکارہ ہوجاتی ہے، دھونس دھمکی پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے: "اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنایا تو میں تمہیں قیدخانے میں بند کروں گا"۔
اس رد عمل سے دشمن کا حقیقی چہرہ عیاں و بے نقاب ہوجاتا ہے۔ جب اس کے پاس دلیل کم پڑ جاتی ہے تو وہ دباؤ اور دھمکیوں کا سہارا لیتا ہے۔ یہ تاریخ کے تمام مستکبرین کی مشترکہ خصوصیت ہے، فرعون سے لے کر آج کے تسلط پسندوں تک۔
شک کے جواب میں معجزہ
موسیٰ (علیہ السلام) اس دھمکی کے جواب میں بے خوف ہو کر فرماتے ہیں "میرے پاس میرے رب کی طرف کا ایک کھلا معجزہ ہے"؛ اور لاٹھی پھین دیتے ہیں جو ایک بڑے اژدہے میں بدل جاتی ہے اور ہاتھ کو باہر نکالتے ہیں تو وہ چمکدار ہو جاتا ہے (ید بیضا)، اور یوں وہ خدا کی طاقت کو نمایاں کرتے ہیں۔
فرعون حقیقت ماننے کے بجائے، اپنی شکست کا 'جواز' پیش کرنے کے لئے دینے کے لئے حقیقت کو الٹ کر پیش کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے: "یہ آدمی ایک بڑا جادوگر ہے جو اپنے جادو سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے۔" یہ بات دشمن کے نفسیاتی کاروائی کی واضح مثال ہے۔ فرعون حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے اور مظلوم کو ملزم ٹہراتا ہے تاکہ معاشرے میں خطرے اور خوف کا احساس پیدا کر سکے۔
دشمن کی حکمت عملی؛ خوف اور تقسیم پیدا کرنا
اگلی آیات میں بیان ہوتا ہے کہ فرعون اور اس کے مشیر منصوبہ بناتے ہیں کہ پورے ملک کے جادوگروں کو بلا دیں تاکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے پر آکر کھڑے ہوجائیں۔ اس عمل سے عیاں ہوتا ہے کہ دشمن کے پاس ہمیشہ حق و حقیقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ترتیبات ہوتی ہیں اور منصوبہ ہوتا ہے۔
فرعون جھوٹی طاقتوں کا ایک مصنوعی محاذ بنانے اور ظاہری دکھاوا کرکے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے، اس رویے کی جڑ "زوال کے خوف" میں پیوست ہے؛ کیونکہ جب ظالموں کی طاقت جھوٹ پر قائم ہوتی ہے، تو حقیقت کا ظہور ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔
فرعون سے آج کے فرعونیوں تک
فرعون محض ایک تاریخی کردار نہیں، بلکہ ہر اس استکباری نظام کی علامت ہے جو پراپیگنڈے، دھمکیوں اور تحریف کے اوزاروں کو بروئے کار لاکر حق کے مد مقابل آ کھڑا ہوتا ہے۔ آج کے فرعونی بھی اسی طرح ذرائع ابلاغ کو سچے پیغام کے خلاف اور پیغام حق پر الزام تراشنے کے لئے جھوٹی تشہیری مہم چلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، 'عوام کے خوف' کو اپنی طاقت و اقتدار قائم کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ایمان کو اپنی حکمرانی اور تسلط پسندی کا دشمن سمجھتے ہیں۔

سورہ طٰہٰ کی آیات 52 تا 64 کا اردو ترجمہ
تاریخ میں اس طرز عمل کی تکرار قرآن کے ابدی پیغام کا اظہار ہے اور وہ یہ کہ دشمن ہمیشہ نئی شکل اختیار کر لیتا ہے، لیکن اس کی فطرت ہمیشہ غرور و استکبار اور خود پرستی و خودغرضی ہی ہوتی ہے۔
یہ آیات مؤمنوں کو سکھاتی ہیں کہ انہیں دشمن کے مقابلے پر نکلتے ہوئے اس کی ظاہری طاقت سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔ فرعون اپنی ساری شان و شوکت اور فوج کے باوجود 'ایمان کی لاٹھی' کے سامنے شکست کھا گیا۔
قرآن کی نگاہ میں 'دشمن شناسی' سے مراد محض کسی خاص فرد یا قوم کی پہچان نہیں ہے؛ بلکہ مراد ان خصوصیات کو سمجھنا ہے جو ہر مستکبر اور تسلط پسند میں پائی جاتی ہیں: تکبر، فریب، تحریف اور تخویف (خوف و ہراس پھیلانا)۔ آخرکار جو باقی اور قائم و دائم رہتا ہے وہ ایمان اور حق طلبی ہے، اور جو تباہ و برباد ہوتا ہے وہ فرعونی حکومتیں ہیں جو جھوٹ اور ظلم پر قائم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
قرآن کریم کے صفحہ 315 پر سورہ طٰہٰ کی آیات 52 سے 64، دیکھئے اور سنئے:
آپ کا تبصرہ