اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے ابنا مطابق، وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر بقائی نے ہفتے کے روز اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ ایران کو افغانستان کے طرزِ عمل پر سخت اعتراض ہے کیونکہ اس نے ہیرمند اور ہریرود کے پانی کے معاملے میں وعدوں پر عمل نہیں کیا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پچھلے سال ایران کو صرف 16 فیصد پانی ملا، جب کہ مشرقی صوبوں، خاص طور پر خراسان اور مشہد کو بھی پانی نہیں پہنچ سکا۔
 ترجمان نے واضح کیا:
"ہم افغانستان کے طرزِ عمل سے ناراض ہیں۔ ہم نے ہر موقع پر افغان حکام سے کہا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق ایران کا حصہ فراہم کریں۔"
ناصر بقائی نے کہا کہ اگرچہ ہریرود کے بارے میں کوئی باقاعدہ معاہدہ موجود نہیں، لیکن مشترکہ دریاؤں کے بارے میں عالمی اصول یہ ہیں کہ اوپر والے ملک پر لازم ہے کہ نیچے والے ملک کے حصے کا پانی روکے نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں "بند سلما" کھولا گیا ہے تاکہ فصلِ خزاں کے لیے پانی مہیا کیا جا سکے، اور امید ہے کہ اس سے بندِ دوستی میں پانی کی مقدار بڑھے گی۔
ترجمان کے مطابق، ایران کے نائب وزیرِ خارجہ برائے قانونی و بین الاقوامی امور کاظم غریبآبادی کے حالیہ دورے میں افغان حکام سے تین اہم امور پر بات چیت ہوئی، جن میں ایک اہم نکتہ پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں ملک اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ جلد ہی مشترکہ فنی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی تاکہ پانی کے بہاؤ اور معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جا سکے۔
آخر میں ترجمان نے کہا کہ ایران نے اپنے مؤقف اور مطالبات کو واضح طور پر افغان حکام کے سامنے رکھا ہے اور امید ہے کہ ان رابطوں کے ذریعے ایران کو دریائے ہیرمند اور ہریرود سے اپنا حصہ مل جائے گا۔
واضح رہے کہ دریائے ہیرمند سے متعلق معاہدہ 1973 میں ایران اور افغانستان کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت افغانستان سے نکلنے والا یہ دریا ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ تاہم، سیاسی اور انتظامی اختلافات کے باعث اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
            
            
                                        
                                        
                                        
                                        
آپ کا تبصرہ