اسی طرح شیعیان یمن بھی یمن کے مستقبل کا ڈھانچہ مرتب کرنے میں کردار ادا کریں گے اور یمن کی سیاست کو تبدیل کرکے رکھیں گے. یمن کی حکومت اہل تشیع کے حقوق تسلیم کرنے اور انہیں حق حیات دینے پر مجبور ہوگی جس کے نتیجے میں حوثی تحریک یمن کے مستقبل میں پیشرفت کرے گی اور یمن کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر اثرانداز ہوگی. کیونکہ ایک طرف سے حوثی مجاہدین نے شمال میں آمریت کا ناطقہ بند کررکھا ہے تو دوسری طرف سے جنوب میں بھی اسے خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے جبکہ حکومتی اداروں اور حلقوں کے درمیان اختلافات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
جنوب میں بھی عوام نے دوسال سے اپنی تحریک کا آغاز کیا ہے اور وہ شمالی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سعودیوں کی حمایت یافتہ خاندان بھی اپنی جگہ آمر علی عبداللہ صالح کے لئے چیلنج ہیں۔
* حکومت یمن کا مستقبل
اگر حکومت حوثیوں، جنوبی سیاسی اور مزاحمتی قوتوں اور مرکزی حلقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھادے اور انہیں اقتدار میں شریک کردے تو اس کا مستقبل کسی حد تک محفوظ ہوسکتا ہے مگر اس کے رویوں میں ایسے کسی مہذب عنصر کا دور دور تک نظر نہیں آرہا بلکہ یمنی آمر تو ہر مسئلے کو جنگ اور خونریزی کے ذریعے حل کرنے کا قائل ہے! اور اس کے مالی وسائل بھی بہت کم ہیں اور تیل اور گیس کے ذخائر کے باوجود یمن کا شمار غریب ممالک میں ہوتا ہے کیونکہ اس ملک میں 1990 سے لے کر اب تک کسی ترقیاتی منصوبے پر علملدرآمد نہیں ہوا ہے اور سرکاری حلقوں میں موجودہ مالی ذخائر کی بندربانٹ مسلسل جاری رہی ہے اور رہی سہی دولت بھی جنگوں کے نذر ہوئی ہے۔
دوسری صورت جنرل صالح کا زوال ہے کیونکہ وہ اندرونی جماعتوں کے ساتھ پرامن انداز میں مسائل حل نہیں کرسکا ہے اور ملک کی ترقی اور امن و امان کے سلسلے میں ناکام رہا ہے۔ ایسی صورت میں زیدی، جنوب کے معترض شہری اور الاحمر خاندان کے اندر ہی علی عبداللہ صالح کے مخالفین مل بیٹھ کر حکومت تشکیل دے سکیں گے.
ایسی صورت میں یمن میں قومی اتحاد کے لئے راستہ ہموار ہوجائے گا. مختصر یہ کہ یمن پر جنگ مسلط کرنے اور ملک پر بیرونی قوتوں کو ملک پر چڑھ دوڑنے کی دعوت دینے والا حلقہ اقتدار میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یمن میں اس وقت قومی وحدت کے لئے راستہ ہموار ہے بشرطیکہ بیرونی قوتیں اثرانداز نہ ہوں جو اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ حوثی زیدیوں کے سلسلۂ امامت کا احیاء کردیں اور گیارہ صدیوں تک جاری رہنے والی حکومت ایک بار پھر قائم ہوجائے لیکن حوثیوں کی طرف سے شائع ہونے والے متون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے. گو کہ ان کی فقہ بھی امامیہ فقہ کی مانند ہر زمانے کے مطابق شرعی احکام کے استخراج کی صلاحیت رکھتی ہے چنانچہ وہ یمنی کی موجودہ صورت حال میں نظام امامت کو ایک فیڈریشن کے اندر اپنے حقوق کے حصول کا ذریعہ بنا سکتے ہیں جس کے تحت شیعہ اکثریتی صوبوں میں زیدیوں کی حکمرانی ہوگی اور مرکزی حکومت میں تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کی حصہ داری ہوگی. وہ بہر صورت اپنی مقدرات کے تعین میں کردار ادا کرنے کا حق مانگتے ہیں جبکہ حکومت کے پاس بقاء کا صرف ایک راستہ ہے کہ وہ مخالف قوتوں کو دشمن نہ سمجھے اور ان کے ساتھ قومی مفادات کے حوالے سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے انہیں بنیادی حقوق دے دی. مگر جو حکومت ایک علاقے پر تسلط جمانے کے لئے چھ لڑائیاں تھونپ سکتی ہے وہ قومی مفادات کے بارے میں سوچنے کی قوت سے عاری ہی ہوتی ہے اور وہ ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی.
یمن میں قبائل طاقتور ہیں جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کمزور ہوتی ہے۔ صنعا کے حاکم کے ساتھ قبائل کے سربراہوں کی بیعت بہت ہی اہم ہوتی ہے اور اگر قبائل کے سربراہ حاکم کی بیعت سے انکار کرکے اس کے خلاف لڑنے پر اتر آئیں تو حکومت بہت آسانی سے زوال پذیر ہوجاتی ہے۔
قبائل کے شیوخ کا طاقت کے مراکز کی طرف رجحان یمن کی پرانی روایت ہے اور اگر صعدہ اور شمال میں الحوثی تحریک فتح پائے تو یہ امکان بھی ہے کہ یمنی قبائل کے شیوخ عبدالملک الحوثی کے ساتھ بیعت پر تیار ہوجائیں چنانچہ ایسی صورت میں صنعاء کی حکومت خود بخود گر جائےگی. لیکن ھاشد نامی بڑا قبیلہ اور اس کے ذیلی قبائل اس وقت یمنی پارلیمان کے سابق اسپیکر شیخ الاحمر کے قبیلے کے قابو میں ہیں اور یہ مسئلہ بھی بہر صورت علی عبداللہ صالح کے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔
بیرونی عامل
اس وقت تک علی عبداللہ صالح کے اقتدار کا سبب اندرونی قوتیں نہیں بلکہ امریکہ اور یورپی ممالک اس کو سہارا دیئے ہوئے ہیں اور ان ہی کے سہارے اس کا اقتدار قائم ہے؛ جنرل صالح مغربی قوتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے پورا پورا کردار ادا کررہا ہے لیکن سعودی عرب کے مفادات کی حفاظت نہیں ہورہی اور شیعیان یمن سمیت جنوبی علاقوں کے عوام کے حقوق پامال ہورہے ہیں جو صالح کے لئے لمبی مدت میں خوشائند نہیں ہے۔
یمن کے حالات کے سلسلسلے میں ہونے والے مباحثے کے سلسلے میں جناب پیر بداغی کے بعد یمن اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر جناب سعد اللہ زارعی نے فارس خبر ایجنسی کے سوالات کے جواب میں یمن کے حالات پر تبصرہ کیا جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
* امریکہ اور دیگر مغربی قوتیں یمنی بحران کو منیج (؟) کرنا چاہتے ہیں
سوال: حوثیوں کے قیام کے بعد علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کا رد عمل کیا تھا؟
زارعی: ہم مشرق وسطی ـ خاص طور پر عرب دنیا ـ میں اسلامی انقلاب اور مغرب یا امریکہ کے درمیان قریبی تقابل کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہ تقابل اور کشمکش اب تک جزیرہ نمائے عرب سے دور رہی تھی۔ ایک طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران اس علاقے میں تناؤ نہیں چاہتا تھا اور اس وقت بھی ہمیشہ کی طرح اسلامی جمہوریہ ایران اس علاقے میں تناؤ کے خلاف ہے؛ اور دوسری طرف سے مغرب کا اثر و رسوخ اس علاقے میں دیگر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس علاقے سے دنیا کا 40 فیصد ایندھن نکلتا ہے اور پھر یہ علاقہ باب المندب کے تزویری علاقے سے متصل ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے لئے یہ علاقہ بہت اہم اور حساس ہے۔ اس علاقے میں امریکہ نے دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ جمہوریت کو موجودہ حالت کی حفاظت و استحکام پر قربان کردیا ہے۔
امریکہ کو جب بھی عراق میں یا شام میں اسد خاندان کے استحکام کی وجہ سے اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت یا فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی کی وجہ سے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس نے اپنی ریشہ دوانیاں خلیج فارس پر مرکوز کی ہیں تا کہ علاقے کا انتظام اس کے ہاتھ سے نہ نکلے۔ حوثی تحریک نے قدم بقدم اور رفتہ رفتہ جزیرہ نمائے عرب میں بڑی تبدیلی کے اسباب فراہم کئے جس کی وجہ سے امریکہ نے اس کے خلاف مختلف اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
امریکہ نے حوثی تحریک کے خلاف دو اہم اقدامات اٹھائے:
1. اس نے حوثیوں کی تحریک کے بارے میں وسیع تحقیق کرکے عرب ممالک کو جلدبازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے باز رکھا۔