29 اکتوبر 2025 - 17:43
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلے پر جماعت اسلامی ہند تشویش کا اظہار کیا

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹوں کی ملک گیر’خصوصی نظرثانی‘کے اعلان پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق،جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹوں کی ملک گیر’خصوصی نظرثانی‘کے اعلان پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بہار میں ہونے والے حالیہ SIR سے سبق سیکھنے پر زور دیتے ہوئے آ گاہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو شفافیت، انصاف اور شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ بڑے پیمانے پر ووٹروں کے اخراج کی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو۔

میڈیا کے لیے جاری ایک بیان میں ملک معتصم خان نے کہا کہ بہار میں SIR کے دوران سنگین بے ضابطگیاں اور شفافیت کی شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں تقریباً 65 لاکھ نام ووٹر لسٹوں سے حذف کر دیے گئے، جو کہ ایک غیر معمولی تعداد تھی ۔ نظرثانی کے بعد بھی 47 لاکھ ووٹرز فہرست سے خارج کر دئے گئے۔ اس پورے عمل کے دوران شہریت کا ثبوت فراہم کرنے کا پورا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا جبکہ یہ ذمہ داری حکومت کی تھی۔

اس طرح اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹ نظر ثانی کے ایک انتظامی کام کو شہریت کی تصدیق کے نیم عدالتی عمل میں بدل دیا گیا۔ ملک بھر میں اس عمل کو نافذ کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کو ایس آئی آر سے متعلق عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کے تسلی بخش جوابات فراہم کرنےچاہئے۔

اس ضمن میں ملک معتصم خان نے کئی اہم سوالات اٹھائے جن کا جواب الیکشن کمیشن سے طلب کیا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ بہار کے تجربے سے کیا سبق حاصل کیا گیا اور SIR کے رہنما اصولوں میں کیا تبدیلیاں کی گئیں؟

انہوں نے کمیشن کے مقرر کردہ وقت پر بھی اعتراض کیا کہ صرف ایک ماہ میں اتنے وسیع عمل کو انجام دینا مختلف مسائل کو جنم دے گا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ اس اہم عمل کے لیے لوگوں کو مناسب وقت کیوں نہیں دیا جا رہا ہے؟ انہوں نے 2002/2003 کو کٹ آف سال برقرار رکھنے پر بھی سوال اٹھایا جبکہ ان برسوں میں کسی قسم کی شہریت کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے الیکشن کمیشن سے یہ بھی پوچھا کہ کیا مبینہ ’ غیر قانونی غیر ملکیوں ‘ کی شناخت اس عمل کا مقصد تو نہیں ہے؟ ملک معتصم خان نے یہ وضاحت بھی چاہی کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود آدھار کارڈ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر کیوں مسترد کیا جا رہا ہے ؟ جبکہ دیگر دستاویزات قبول کی جا رہی ہیں اور 2002/2003 کی ووٹر لسٹ میں درج نام کی بنیاد پر استثنا کن افراد کو حاصل ہوگا ؟ صرف اس شخص کو جس کا نام لسٹ میں شامل تھا یا اس کے بچوں کو بھی یہ راحت حاصل ہوگی؟

انہوں نے گھر گھر تصدیق کے نئے طریقۂ کار پر بھی اپنے شبہات کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا اس مسودہ میں نئے ووٹرروں کو شامل کرنے کی اجازت ہے؟ اور الیکشن کمیشن یہ کیسے یقینی بنائے گا کہ جمع کرائے گئے تمام فارموں کی رسید ووٹرروں کو فراہم کی جائے گی؟ ملک معتصم خان نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کئی رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض افسران یا بوتھ لیول افسر (BLOs) نے لوگوں کی رضامندی کے بغیر فارم پُر کئے ہیں ۔

اس طرح کی جعلسازی سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ انہوں نے مزدور طبقے، خاص طور پر نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی حالت پر بھی توجہ دلائی جو عموماً کاغذات کی کمی کے باعث ووٹر فہرست سے خارج کر دئے جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر نے بہار میں خواتین کی ووٹر لسٹ میں شمولیت اور ان کی نمائندگی میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟ انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ ووٹر لسٹ سے خارج افراد کو پیشگی اطلاع اور ان کو اپنے اعتراضات درج کرانے کا موقع دیا جائے گا یا انہیں ؟ یا ’ نئے ووٹر ‘ کے طور پر ان کو دوبارہ درخواست دینا ہوگی؟ اس کے علاوہ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر عام شناختی دستاویزات جیسے پین کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، منریگا جاب کارڈ، راشن کارڈ، اور بینک پاس بک جو الیکشن کمیشن میں قبول کی جاتی ہیں ، انہیں اس بار منظوری کی فہرست سے کیوں نکال دیا گیا ہے؟

آخر میں ملک معتصم خان نے ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال ، شفافیت اور لسٹ کی درستگی پر زور دیتے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کوئی مؤثر ڈی-ڈپلیکیشن سسٹم نافذ کیا ہے؟ اور کیا وہ مسودہ اور حتمی ووٹر لسٹ مشین ریڈایبل (Machine-Readable) شکل میں عوام کے لیے جاری کی جائے گی ؟ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات ووٹروں کے اعتماد کو قائم رکھنے اور کسی بھی قسم کی ہیرا پھیری یا غلطی سے بچاؤ کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

ملک معتصم خان نے مزید کہا ’’ووٹر فہرستوں کی نظرثانی کے عمل کو شہریت کی تصدیق کے طور پر نہیں کیا جانا چاہئے۔ ملک کے تمام شہریوں کو ووٹ کا حق محفوظ ہونا چاہیے ، اسے بیوروکریٹک رکاوٹوں کے ذریعے محدود نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ ان تمام سوالات کا جواب عوامی سطح پر دیا جائے ۔

اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی شہری کو دستاویزات کی کمی یا انتظامی بدنظمی کی وجہ سے ووٹ کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تمام طبقات کی شمولیت اور اعتماد ہو۔ اس کے لیےالیکشن کمیشن کو شفاف طرزِ عمل اپنانا ہوگا، آئینی اصولوں کی پاسداری کرنی ہوگی اور ہر ہندوستانی کے حقِ رائے دہی کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha