بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا:
لیکن ایک بات ہے جس پر میرے خیال میں دشمن ہم سے زیادہ غور کر رہا ہے، اور وہ یہ کہ حزب اللہ ایک گہری جڑوں والی تحریک ہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک نظریاتی سوچ موجود ہے اور یہ مجاہدانہ راستے پر چل رہی ہے۔ جب اس تحریک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو اس کی صلاحیتیں مزید پھل پھول جاتی ہیں، اور ایک ایسی فکری تحریک جس کا طریق کار جہاد ہے، وہ اس طرح ختم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، ایران کے جوہری معاملے میں اگر کچھ یونیورسٹی کے پروفیسروں کو شہید کر دیا جائے، جب ہم اس موضوع کے نظریے پر عبور حاصل کر چکے ہیں، تو عقل کہتی ہے کہ بہت سے دوسرے لوگ بھی تربیت پا چکے ہونگے؛ لہٰذا دشمن کا مسئلہ شہادتوں سے حل نہیں ہوتا۔ فرض کریں کوئی یہاں بمباری کر دے لیکن ایران کا جوہری مسئلہ ان کے لئے حل نہ ہو، کیونکہ اس کا علم اور اس کی تھیوری بدستور موجود ہے؛ یہ مسئلہ اس سے کہیں گہرا ہے، جیسا کہ وہ سوچتے ہیں۔
حزب اللہ ایک گہری جڑوں پر استوار مضبوط تحریک ہے اور واقعی اس کا کردار مجاہدانہ ہے۔ میرے دوروں کے دوران، دیکھا جا سکتا تھا کہ وہاں ایک گہری نشوونما ہوئی ہے؛ لہٰذا انہوں نے بڑی حد تک اپنی تعمیر نو کر لی ہے اور یہ کام بہت جلد انجام کو پہنچا۔"
اسی وجہ سے دشمن لبنان کی زمین میں آسانی سے داخل نہ ہو سکا؛ کچھ جگہوں پر وہ تقریباً 300 میٹر اور کسی دوسری جگہ ایک کلومیٹر تک آگے بڑھے لیکن مزید آگے نہیں بڑھ سکے، کیونکہ حزب اللہ کی افواج موجود تھیں اور لڑ رہی تھیں۔
جب میں وہاں تھا، تو میری حزب اللہ کے کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ انہیں دیکھ کر مجھے فخر بھی محسوس ہؤا اور وہ واقعی متاثر کن تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جب شہید حسن نصراللہ شہید ہوئے، تو ہم محاذوں پر اکٹھے ہوئے اور سوگ منایا۔ ان کے حوصلے پست تھے اور انہوں نے کچھ گھنٹے سوگ منایا، لیکن پھر ان کے درمیان ایک احساس پیدا ہؤا کہ ان کے ان عظیم شہیدوں کی روحوں نے ان کی مدد کی اور انہوں نے کہا کہ ہمیں جان تک قربان کر کے ڈٹ جانا چاہئے۔ یہی وہ چیز ہے جو ایک نظریاتی مجاہدانہ تحریک میں ہوتی ہے۔
یہ امریکی، انگریز اور ان جیسے دوسرے درحقیقت عراق میں مقاومتی تحریک کو جنم دے رہے ہیں۔ ایک میٹنگ میں مجھ سے پوچھا گیا کہ "کیا وجہ ہے کہ تم عراق میں مقاومتی تحریکیں اٹھا دیتے ہو؟" میں نے کہا: "کیا تم وہی نہیں ہو جنہوں نے لبنان میں حزب اللہ کو جنم دیا تھا؟ اب تم عراق میں وہی کچھ دہرا رہے ہو۔"
تم نے ایک کی بجائے دو غلطیاں کیں۔ تم نے ہماری حزب اللہ کو جنم دیا، حزب اللہ نے وہی کیا جو خود اسرائیلیوں نے کیا تھا؛ اسرائیلی بیروت میں آئے اور اس پر قابض ہوئے اور قدرتی طور پر وہاں کے نوجوانوں نے محسوس کیا کہ انہیں اپنے ملک کا دفاع کرنا چاہئے، وہ اکٹھے ہوئے اور یہ تحریک معرض وجود میں آئی۔ البتہ ہم نے مدد کی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم نے مدد نہیں کی، لیکن وہ خود وجود میں آئے اور ہم نے مدد کی۔
عراق میں بھی یہی معاملہ ہے۔ آپ مغربی ممالک آئے اور عراقی عوام پر دباؤ ڈالا۔ وہ چاہتے تھے کہ عراق کو اپنا صوبہ بنا لیں۔ مسٹر بریمر آئے اور انھوں نے عراق کا آئین لکھا، وزراء کو مقرر کیا، اور یہاں تک کہ ان کے پاس ایک رسمی سا عراقی مشیر بھی تھا۔ کام اس طرح سے کیا گیا کہ اکثر عراقی عوام کو ذلت و خفت محسوس ہوئی۔ قابض افواج کے فوجی عوام کے گھروں میں دستک دیتے، دروازے کھولتے اور اندر داخل ہو جاتے۔ ایک عراقی نوجوان جو وہاں بیٹھا ہے، خود سے پوچھ لیتا تھا کہ ایسا کیوں ہے، اور ایسا کیوں ہو؟ فطری بات ہے کہ وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اور یوں قابض فوجیں خود اپنے ہی ہاتھوں مقاومتی اور مزاحمتی قوت کو جنم دیتے ہیں۔
البتہ ہم بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔ جب آپ خود ان قوتوں کو پیدا کرتے ہیں، تو ہم بھی ان کی مدد کرتے ہیں۔
نظریاتی تحریکیں زیادہ دباؤ کی وجہ سے مزید پھیل جاتی ہیں
مسئلے کی حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی تحریکیں زیادہ دباؤ سے ختم نہیں ہؤا کرتیں بلکہ مزید پھیل جاتی ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں حزب اللہ کی تحریک مزید گہری ہو گئی ہے۔ کسی بھی تنظیم میں نقصان اٹھانے کے بعد کچھ پریشان حالی پیدا ہو سکتی ہے، لیکن اگر تحریک کی جڑیں گہری ہوں تو وہ پھر سے مشکلات پر غالب آتی ہے۔ حزب اللہ ایسی ہی تحریک ہے اور اب چونکہ وہ اپنے عہد پر پکے ہیں اور جنگ بندی قائم ہے، تو وہ مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ان کے پاس میدان کو الٹ پلٹ دینے کی صلاحیت موجود ہے اور فی الحال وہ [تزویراتی] صبر و تحمل کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ لبنان کے عوام اور عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔ یعنی اس قسم کے نوجوان جو مجاہدانہ کردار کے مالک ہیں اور تربیت یافتہ ہیں، ایک بڑا اثاثہ ہیں۔
اسرائیل پریشان ہے؛ کیونکہ حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور مقام و منزلت نے اسے خوف زدہ کر دیا ہے۔ اگر حزب اللہ کوئی سطحی یا معمولی تحریک ہوتی تو اسرائیل کوئی پریشانی محسوس نہ کرتا، جیسا کہ دوسرے ممالک میں موجود کچھ گروہوں کے معاملے میں ایسا ہی ہے۔
میرے خیال میں حزب اللہ کی حقیقت کو سمجھنے میں وقت لگے گا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اس دور میں یہ مزاحمتی و مقاومتی قوتوں نے مسلمانوں کی تقدیر پر کیا اثر مرتب کیا ہے۔ اگر یہ قوتیں موجود نہ ہوتیں تو کیا ہوتا؟ شام میں اگر یہ مزاحمت، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، موجود ہوتی تو اسرائیل اپنے تباہ کن استعماری اقدامات اس ملک کے کونے کونے تک نہ پھیلاتا؛ درحقیقت اسی مقاومت و مزاحمت نے اسے باز رکھا تھا۔ شام میں سے اس مقاومتی دفاع کا امکان ختم ہؤا، تو آپ نے دیکھا کہ انہوں نے شام کے ساتھ کیا کیا؟ گویا کہ اس ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل جو چاہے کر رہا ہے۔ انہوں نے ایک گروہ کو دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا، ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی، اسے ذلیل کیا اور شامی عوام کا قتل عام کیا۔ اگر مثال کے طور پر تیس سال پہلے یہ مزاحمت وجود میں نہ آتی تو پورا آج خطہ اس تباہی کو بھگت رہا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ