اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، جماعت اسلامی ہند کے امیرسید سعادت اللہ حسینی نے معروف عالمِ دین مولانا توقیررضا خان کی گرفتاری اوربریلی میں متعدد دیگر افراد کی پولیس حراست کوانتہائی تشویشناک معاملہ قراردیا ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہمارے ملک کوفرقہ وارانہ سیاست اورنفرت پرمبنی طرزِحکمرانی کی طرف دھکیلنے کی خطرناک علامت ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ یہ سب ایک سادہ اورپُرامن نعرے آئی لَوپروفیٹ محمد ﷺ سے شروع ہوا، جومحض عقیدت اورمحبت کے اظہارکا ذریعہ تھا۔ لیکن اسے بدنیتی سے عوامی نظم و ضبط کے لیے خطرہ قراردے کربے قصورافراد کے خلاف ایف آئی آردرج کی گئیں اوران کی اجتماعی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ یہ عمل صرف غیرمنصفانہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی اس تہذیبی روایت پر کھلا حملہ ہے جو فرد کا احترام، مشترکہ تہذیب اور بقائے باہمی کی ضامن رہی ہے۔ صدیوں سے ہندوستانی عوام نے ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ زندگی گزاری ہے۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ محض عقیدت کے اظہار سے سماج تقسیم ہوسکتا ہے۔ حقیقت میں یہ پورا بحران منظم سیاسی شرانگیزی کا نتیجہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق ابتدائی طورپرمولانا توقیررضا کونظربند رکھا گیا اوربعد میں بھارتیا نیایئے سنہِتا (بی این ایس) کی سخت دفعات کے تحت ایف آئی آردرج کی گئیں، جن میں سینکڑوں مسلمانوں کوبغیرکسی شفاف تفتیش کے نامزدکردیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنماؤں نے ایک معززعالم دین کے خلاف توہین آمیززبان استعمال کی، جس سے اس پورے معاملے کے پیچھے چھپی ہوئی سیاست اجاگرہوتی ہے۔ ریاستی حکومت کی طرف سے طاقت کا اس قدرغیرمناسب استعمال نہ صرف قانون کی بالادستی کوکمزورکرتا ہے بلکہ عوام میں بے اعتمادی اوربے چینی کوبھی بڑھاتا ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہندوستان نے اپنے طویل جمہوری سفرمیں بے شماراحتجاج اورتحریکیں دیکھی ہیں۔ جہاں کہیں تشدد یا پتھراؤ اوراملاک کونقصان پہنچانے جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں، اُن کی مذمت ضرورکی جانی چاہئے، لیکن بغیرتحقیقات کے بے بنیاد الزامات عائد کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کے مطابق حکمرانی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے انصاف اورتوازن کے ساتھ ردعمل دیں۔ ماضی میں بغیرکسی سخت گیردفعات کے استعمال کے اس طرح کے کئی احتجاج سنجیدہ اورمتوازن اقدامات کے ذریعے قابومیں لائے گئے تھے۔ ایک مخصوص طبقے کومجرم ٹھہرانا اوران کے خلاف انتقامی کارروائی کرنا نہ صرف دستورِہند کی روح کے منافی ہے بلکہ انصاف اورشفاف حکمرانی کے بھی برخلاف ہے۔ آج جومنظرنامہ ہمارے سامنے ہے وہ دراصل ریاستی اداروں اورقانون نافذ کرنے والے عملے کا سیاسی مقاصد کے لیے بیجا استعمال ہے۔ جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں تویہی سلسلہ دہرایا جاتا ہے۔ ذات پات اورگروہوں کوباٹنا، بےاعتمادی پیدا کرنا اورملک کے سماجی تانے بانے کووقتی فائدوں کے لیے قربان کردینا۔ یہ نہایت خطرناک راستہ ہے، جوجمہوری اداروں اورآئینی اقدارکوکھوکھلا کردیتا ہے۔
امیرجماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حیسنی نے ملتِ اسلامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر، عدل اورامن کے راستے پرقائم رہیں اورنبی اکرم ﷺ کے صبر، رحمت اورشفقت کے پیغام سے رہنمائی حاصل کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بیجا مقدمات کوفوری طورپرواپس لے، جن بے قصورلوگوں کوگرفتارکیا گیا ہے، ان کو رہا کیا جائے۔ ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے طرزِحکمرانی میں انصاف، توازن اوربرابری کوبحال کرے۔ ہندوستان کی اصل طاقت اُس کے دستور، اُس کی تکثیریت اورباہمی احترام کے سماجی ڈھانچے میں مضمرہے۔ ان بنیادوں کووقتی سیاسی فائدے کے لیے نقصان پہنچانا صرف کسی ایک طبقے کونہیں بلکہ پورے ملک کوکمزورکرتا ہے۔
آپ کا تبصرہ