اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق،امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں جرائم کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر شروع کیے گئے آپریشن پر عدالتوں نے سنگین تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ ایک وفاقی جج نے تسلیم کیا ہے کہ درجنوں مقدمات مؤثر انداز میں آگے بڑھنے کے بجائے مختومہ کر دیے گئے ہیں۔
آپریشن کے آغاز سے اب تک 50 سے زائد افراد پر وفاقی الزامات عائد ہوئے، مگر کم از کم 11 مقدمات عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی بند کر دیے گئے۔ بعض سنگین مقدمات، جن میں وفاقی افسران پر حملے اور اسلحہ سے متعلق الزامات شامل تھے، بھی بغیر عدالتی کارروائی ختم ہو گئے۔
قضات کا کہنا ہے کہ مقدمات کے اچانک خاتمے سے عدالتی وسائل ضائع ہو رہے ہیں، جبکہ جیوری اراکین نے بھی کئی مقدمات میں الزامات واپس کرنے سے انکار کر کے استغاثہ کے شواہد پر سوال اٹھا دیے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب صدر ٹرمپ دعویٰ کر رہے ہیں کہ نیشنل گارڈ اور وفاقی اہلکاروں کی تعیناتی سے واشنگٹن کی سڑکیں پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گئی ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ سات اگست سے شروع ہونے والے آپریشن میں دو ہزار سے زیادہ افراد گرفتار ہوئے ہیں۔
دوسری طرف، شہر کی میئر موریل بوزر نے اعلان کیا ہے کہ پولیس اب امیگریشن حکام کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔ اس اعلان کے بعد ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر تعاون بحال نہ ہوا تو وہ ایمرجنسی نافذ کر کے واشنگٹن کو براہِ راست وفاقی کنٹرول میں لے آئیں گے۔
واشنگٹن میں ہزاروں افراد نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے خلاف مظاہرے کیے، جن میں تارکین وطن اور فلسطینی حامی گروپ بھی شریک تھے۔ مظاہرین نے "ٹرمپ کو ابھی جانا ہوگا” اور واشنگٹن کو آزاد کرو جیسے نعرے لگائے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی انسدادِ جرائم پالیسی کے تحت نیشنل گارڈز کو لاس اینجلس اور واشنگٹن میں تعینات کیا ہے اور شیکاگو، میمفس اور نیو اورلینز جیسے شہروں میں بھی بھیجنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ تاہم ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ صدر کس قانونی اختیار کے تحت مقامی شہروں میں یہ فوجی اقدامات کر رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ