14 ستمبر 2025 - 15:42
فافلۂ الصُمود میں 40 ملکوں سے 100 کشتیوں کی غزہ روانگی / امریکی مسافر نے ایرانیوں سے معافی مانگ لی + ویڈیو

شاید اگر وہ اپنا تعارف نہ کرائیں اور اپنی قومیت نہ بتائیں تو آپ سوچیں گے کہ وہ یمنی ہیں یا ان کے خون میں فلسطینی تشخص کی جڑیں ہیں، اس لئے کہ وہ وہ سب کہنہ مشق مجاہدین کی طرح بولتے ہیں اور دنیا کو حیران کر چکے ہیں۔ لیکن وہ نہ تو فلسطینی ہیں، نہ یمنی، نہ لبنانی۔ وہ عالمی مقاومت سے تعلق رکھنے والے مجاہدین ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اس بار ایک کشتی، دو کشتیاں یا چار کشتیاں نہیں ہیں۔ یہ حنظلہ اور میڈلن نہیں ہیں۔ یہ کشتیوں کا ایک عظیم قافلہ ہے؛ 100 کشتیاں ہیں، دنیا کے 44 ممالک سے۔ اس بار کہانی مختلف ہے۔ غزہ نے دنیا کے لوگوں کو جگا دیا ہے۔ بے خوف بنا دیا ہے۔ لوگوں نے اپنی زندگی، کام اور خاندان چھوڑ دیا ہے، وہ جو کچھ وہ اور ان کے اردگرد کے لوگ جو کچھ بھی جمع کر سکتے تھے، خوراک، دوائیں اور طبی سامان، جمع کر چکے ہیں اور خطرے کا سامنا کیا ہے حالانکہ انہوں نے اسرائیل کے وحشی پن اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، کہ انسانوں کو مارنے میں وہ کسی حد کے قائل نہیں ہیں۔

Women-only vessel joins Gaza flotilla as global activists rally behind Palestinian women

قافلۂ الصُمود پر اسرائیلی ڈرون حملے کا نتیجہ

کچھ دن پہلے اسرائیل نے الصُمود کشتی کے رضاکاروں کو ڈرانے کے لئے دو کشتیوں پر دو ڈرون حملے کئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، کوئی بھی نہیں ڈرا اور کسی کشتی کا انجن بند نہیں ہؤا۔ اب یہ بالکل بھی اہم نہیں ہے کہ یہ کشتیاں غزہ پہنچ سکیں یا نہ پہنچ سکیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صہیونی بموں اور گولیوں کی بارش کرکے ان کشتیوں کو روک دیں جیسا کہ انہوں نے مادلین اور حنظلہ کے ساتھ کیا، اہم بات، کاروان الصُمود کا پیغام، ہے۔ غزہ نے دنیا میں مقاومت و مزاحمت پھیلا دی ہے۔ مقاومت غزہ سے آگے نکل گئی ہے۔ دنیا میں پھیل گئی ہے۔ غزہ اور اس کے لوگوں کے صبر نے دنیا میں راستہ بنا لیا ہے ایک عالمی مشن کو جنم دیا ہے۔

فافلۂ الصُمود کے امریکی مسافر نے ایرانیوں سے معافی مانگ لی

ایرانی صحافیوں کا کاروان الصُمود کے اراکین کے ساتھ انٹرویو: یہاں تک کہ ایک فیصد کامیابی بھی غنیمت ہے

یہ ہماری بات نہیں ہے۔ ایرانی شہری جو کاروان الصُمود کی کشتیوں میں شامل ہونے کے لئے تیونس گئے تھے، انہوں نے غزہ کی طرف سفر سے پہلے کاروان کے کچھ اراکین کے ساتھ بات چیت کی؛ ان لوگوں کی باتیں قابلِ غور ہیں۔

شاید اگر وہ اپنا تعارف نہ کرائیں اور اپنی قومیت نہ بتائیں تو آپ سوچیں گے کہ وہ یمنی ہیں یا ان کے خون میں فلسطینی تشخص کی جڑیں ہیں، اس لئے کہ وہ وہ سب کہنہ مشق مجاہدین کی طرح بولتے ہیں اور دنیا کو حیران کر چکے ہیں۔ لیکن وہ نہ تو فلسطینی ہیں، نہ یمنی، نہ لبنانی۔ وہ عالمی مقاومت سے تعلق رکھنے والے مجاہدین ہیں۔

مثال کے طور پر محمد عزیز، تیونس کے ایک طبی کارکن ہیں۔، ایرانی صحافی نے ان سے پوچھا: "کیا آپ نہیں ڈرے اور خطرے کے وسط میں کود پڑے؟"، تو محمد عزیز کا جواب صرف چند الفاظ پر مشتمل تھا: "میں، میری دولت، میرا جسم، میرا خاندان فلسطین پر قربان!"

قافلۂ الصُمود میں شامل ایک کشتی کے اطالوی ملاح 'گلودیو' (Glodio)، سے پوچھا گیا: "کیا آپ کسی بھی صورتحال کے لئے تیار ہیں؟" وہ جانتے ہیں کہ یہ معاملہ مذاق نہیں ہے۔ اسرائیل کا وحشی پن ثابت ہو چکا ہے، لیکن وہ بڑی بہادری سے کہتا ہے: "ظاہر ہے، میں تیار ہوں۔ میں پہلے بھی جیل جا چکا ہوں۔ بدترین مصیبت جو ہو سکتی ہے، وہی ہے جو فلسطینیوں پر آ رہی ہے۔"

ڈومینک، ہالینڈ سے ہیں وہ بھی بہادری سے کہتے ہیں: "میں ہر قسم کے منظرنامے کے لئے تیار ہوں۔ کیونکہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو، وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔"

الجزائری شہری 'ملک'، گویا کاروان الصُمود کے تمام اراکین کے دلوں کی بات کو ایک ایسے جملے میں خلاصہ کرتے ہیں جو تفسیر اور معنی سے بھرپور ہے؛ وہ کہتے ہیں: "حتی کہ ایک فیصد کامیابی کا امکان بھی غنیمت ہے۔"

فافلۂ الصُمود میں 40 ملکوں سے 100 کشتیوں کی غزہ روانگی / امریکی مسافر نے ایرانیوں سے معافی مانگ لی + ویڈیو

ایرانیو! ہمیں معاف کرو

اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ قافلۂ الصُمود کی کسی کشتی میں کوئی ایرانی، یمنی یا لبنانی مسافر نہیں ہونا چاہئے؛ بصورت دیگر، وہ قافلے پر حملہ کرے گا۔ چنانچہ  قافلہ صمون میں شامل ہونے کے لئے تیونس جانے والے ایرانیوں نے صہیونیوں سے بہانہ چھین لینے اور عالمی قافلے کو خطرے سے بچانے کی غرص سے کشتیوں پر سفر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اسی مختصر موجودگی میں بھی انہوں نے ہمارا کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور قافلۂ الصُمود کے مسافروں کے دل کی بات پوچھی۔

انٹرویو دینے والے تمام افراد؛ کہنہ مشق مجاہدین کی طرح بولتے تھے، اور ان ہی میں سے ایک امریکی خاتون کیٹی گریوز تھیں جن کے الفاظ اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد ہیں جب وہ پہلی بار محاصرہ توڑنے کے لئے غزہ کے پانیوں کی طرف روانگی کے لئے اپنی ہمت اور شجاعت کی بات کرتی ہیں، اور کہتی ہیں: "اس قافلے کے ساتھ اس سفر کے تمام خطرے مول لینا، اہمیت رکھتے ہیں اور اس کے تمام لمحات غنیمت ہیں؛ کیونکہ یہی واحد راستہ ہے جس سے لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں کہ ہمارا ملک [امریکہ] بھی اسرائیل جتنا ہی قصوروار ہے۔ اگر ہم اسرائیل کو روکنا چاہیں تو ہمیں اپنے ملک 'امریکہ' کو روکنا ہوگا۔ موت بدترین ممکنہ اتقاق ہے جس کی مجھے توقع ہے، لیکن پھر بھی میرے خیال میں یہ اہم ہے۔ کیونکہ یہ اہم سوال ہے کہ اس کے سوا کوںسی ایسی چیز ہے جو دنیا کو حقائق سے آگاہ کر سکتی ہے؟ مجھے اپنے ملک کی طرف سے ایرانی عوام سے معافی مانگنا چاہئے۔ بہت سے امریکی بمباریوں اور آپ کے ساتھ ہونے والے واقعات پر ناراض اور پریشان ہیں۔"

فافلۂ الصُمود میں 40 ملکوں سے 100 کشتیوں کی غزہ روانگی / امریکی مسافر نے ایرانیوں سے معافی مانگ لی + ویڈیو

کاروان الصُمود کا انجام جو بھی ہو!

اسرائیل سے کوئی بھی حرکت بعید نہیں ہے؛ کیونکہ اس کو اسثنا حاصل ہے، مغربی اسے ٹوکتے نہیں، مسلمان اسے روکتے نہیں چنانچہ عین ممکن ہے کہ وہ  کشتیوں پر بمباری کر دے اور انہیں تباہ کردے۔ لیکن اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،

ایک باریک بین شخص نے لکھا تھا:

"فلسطین دنیا کے ساتھ کچھ خاص الخاص کام کر رہا ہے؛ غزہ نے دنیا سے کچھ نہیں لیا، کچھ نہيں چھینا، لیکن یہی مظلوم اور نادار اور زخمی فلسطین دنیا کو بہت کچھ دے رہا ہے ایسا جو تاریخ کا رخ بدل دے گا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha