2 اگست 2011 - 19:30

ترکی نے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیل سفیر کو ملک سے نکال دیا ہے اور تل ابیب کے ساتھ تمام فوجی معاہدے معطل کردیئے ہیں۔

ابنا: [اقوام متحدہ کی عجیب] رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے طاقت کا نامناسب استعمال کیا اور حملے میں ہونے والی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں۔گزشتہ سال 31 مئی کو اسرائیلی فوج نے امدادی سامان لے کر غزہ جانے والے ترک بحری جہازوں کے قافلے پر حملہ کیا تھا جس میں نو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں آٹھ ترک باشندے اور ایک ترک نڑاد امریکی امدادی کارکن شامل تھا۔ نیوزی لینڈ کے سابق وزیراعظم جیفری پامر کی سربراہی میں قائم اقوام متحدہ چار رکنی انکوائری پینل کی جائزہ رپورٹ کے اقتباسات امریکی اخبار نے شائع کئے ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی حملے کو نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ان پر تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے ترک امدادی قافلے کو روکنے کے لیے طاقت کا بہت زیادہ اورنامناسب استعمال کیا۔ اسرائیل نو ترک شہریوں کو ہلاک کرنے کی تسلی بخش وضاحت پیش نہیں کرسکا جن میں سے اکثر کو پشت پر یا انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کا ناکا بندی کے علاقے سے بہت دور کسی حتمی وارننگ کے بغیر اتنی طاقت کے ساتھ امدای قافلے پر دھاوا بولنا غیر ضروری اور نامعقول تھا۔انکوائری رپورٹ میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کارروائی کے بارے میں ندامت کا مناسب پیغام جاری کرے اور ہلاک و زخمی ہونے والے افراد یا ان کے اہل خانہ کو زرِ تلافی ادا کرے۔تاہم رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بحری ناکہ بندی کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔ کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحری ناکہ بندی کی خلاف ورزی کے سلسلے میں فلوٹیلا نے لاپرواہی سے کام لیا۔ رپورٹ میں اسرائیل اور ترکی سے کہا گیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطی میں استحکام کے لیے مکمل سفارتی تعلقات بحال کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

/110