بین الاقوامی خبررساں ادارہ اہل بیت(ع) ـ ابنا ـ کے مطابق، الجولانی حکومت کے خارجہ امور کی وزارت نے گذشتہ دن (بدھ) کو اعلان کیا کہ اسرائیل نے حالیہ حملوں میں شام میں سرکاری اداروں اور غیر فوجی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے اور اسرائیل کے یہ اقدامات شام میں افراتفری، عدم استحکام اور قومی سلامتی کو تباہ کرنے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہیں۔
شام کی الجولانی حکومت نے ان حملوں کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صہیونی ریاست کو اس تنازعہ پیدا کرنے کا مکمل ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
دمشق نے سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کو ختم کریں اور اسرائیل کی طرف سے شام کی سرزمین پر بار بار ہونے والی جارحیتوں کو دہرانے کا سد باب کریں۔
اس وزارت نے ایک اور حصے میں اعلان کیا کہ شام بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے مطابق اپنی، اپنے عوام اور اپنی سرزمین کے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹتے ہی اور تحریر الشام (جبهة النصره) کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد شام کے فوجی، دفاعی، صنعتی، سائنسی اور اقتصادی بنیادی ڈھانچے پر وسیع پیمانے پر حملے شروع کیے اور انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا، لیکن تحریر الشام کی عبوری حکومت نے ایک بیان تک جاری کرنے کی زحمت نہیں کی اور اسرائیل پر حملہ نہ کرنے پر قائم رہی اور کہتی رہی کہ "شامی عوام جنگ سے تھک چکے ہیں، اور اسرائیل جو بھی کرے، دمشق کی نئی حکومت کوئی رد عمل نہیں دکھائے گی اور یہ کہ ہیئت تحریر الشام صرف ایران اور حزب اللہ کی دشمنی ہے اور اسرائیل کے ساتھ اس کی کوئی دشمنی نہیں ہے۔ تاہم اب، اب جب کہ شام تباہ ہو چکا ہے اور اس گروہ کا وجود خود خطرے میں پڑ گیا ہے، تو وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے مدد مانگ رہے ہیں اور خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور اپنے دفاع کا حق محفوظ سمجھ رہے ہیں، حالانکہ بشار الاسد کی حکومت کا جو کچھ بچا تھا اور جو اس ملک کا دفاع ممکن بنا سکتا تھا، وہ صہیونی اور امریکی ریاست کے بمباری سے تباہ ہو چکا ہے اور شام ایک بے دفاع ملک بن چکا ہے۔
الجولانی حکومت کا یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا جب اسرائیلی جنگی طیاروں نے دمشق، سویداء اور درعا کے علاقوں کو نشانہ بنایا۔
صہیونی فوج نے شام کے دروزی برادری کی حمایت کے دعوے کے تحت شام کی سرزمین پر درجنوں فوجی اور سیکورٹی کے مراکز پر حملے کئے، جن میں سب سے اہم حملہ الجولانی فورسز کے جنرل ہیڈکوارٹر پر وزارت دفاع پر کئے گئے۔
شام میں تنازعہ اتوار کو سویداء صوبے میں شروع ہؤا تھا، جہاں ایک دروزی شہری کی موت نے عرب قبائل اور دروزیوں کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا۔
الجولانی حکومت سے وابستہ فورسز، جو گزشتہ دنوں اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے سویداء میں داخل ہوئی تھیں، نے دروزیوں کے خلاف کارروائی کی، جس سے خطے میں تناؤ اور انسانی بحران بڑھ گیا۔ اس تشدد کے دوران درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور شہری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچا۔
سویداء صوبے میں جھگڑے بڑھنے کے ساتھ ہی صہیونی ریاست ـ جو کل تک شام کی عبوری حکومت کو اپنا ممکنہ اتحادی بتا رہی تھی اور مقبوضہ جولان پر شام کے دعوے سے، الجولانی کے دستبردار ہونے کے بعد، اس کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشاں نظر آ رہی تھی ـ نے دروزی برادری کی حمایت کے دعوے کے تحت تحریر الشام کے ٹینکوں اور مورچوں پر بمباری کی اور الجولانی فورسز کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
نکتہ:
ایک اہم نکتہ یہ کہ وہاں ٹرمپ ریاض میں الجولانی کی تعریفوں کا تانتا بانھے ہوئے تھے اور امریکہ میں، وزیر خارجہ مارکو روبیو، نے خبردار کیا کہ شام کو عنقریب خانہ جنگی کے خطرے کا سامنا ہے، جس کے پہلو بہت تباہ کن ہیں اور کچھ اخبارات نے روبیوں کی باتوں پر تبصرہ بھی لکھا کہ "امریکی سفارتی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عبوری حکومت بہت جلد وسیع البنیاد خانہ جنگی سے دوچار ہوسکتی ہے جس کے پہلو تباہ کن ہونگے اور اس کا نتیجہ اس ملک کی تقسیم کی صورت میں درآمد ہوگا"۔ مارکو روبیو نے پیش گوئی نہیں کی تھی بلکہ اپنا منصوبہ بیان کیا تھا جس پر اس وقت عمل درآمد ہو رہا ہے۔
کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں ابھی نہیں ابھر سکا ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی مغربی تہذیب فریبی اور جھوٹی اور اسلام دشمن ہے؟ کیا یہ سوال آپ کے ذہن میں نہیں آیا کہ "فریبی مغربی تہذیب نے شام کے ساتھ یہ کیا کیا؟
کیا ہمارے قارئین اب بھی شام کا دفاع کرنے والے مدافع حرم تنظیموں پر ملامت کرنا پسند کریں گے؟ کیا انہیں مقاومت کی کمی محسوس نہیں ہو رہی ہے؟
کیا شام کے مسئلے کو فرقہ وارانہ نگاہوں سے دیکھنے والے عرب اور اسلامی دنیا کے حکمران اب بھی سمجھ رہے ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت کو جانا چاہئے تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ