18 اگست 2024 - 12:58
اربعین حسینیؑ کس سال واقع ہؤا؟

اربعین کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ احادیث میں اربعین اور اس کی اہمیت کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور اسی عنوان سے زیارات بھی معصومین (علیہم السلام) سے وارد ہوئی ہیں۔ اس اختلاف کی توجیہ کیونکر ممکن ہے؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

سوال:

اربعین حسینیؑ کس سال کو واقع ہؤا؟ اربعین کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں حالانکہ احادیث میں اربعین اور اس کی اہمیت کی طرف اشارہ ہؤا ہے اور اسی عنوان سے زیارات بھی معصومین (علیہم السلام) سے وارد ہوئی ہیں۔ اس اختلاف کی توجیہ کیونکر ممکن ہے؟

جواب:

 کسی نے اربعین کا انکار نہیں کیا ہے اور اختلاف اس میں ہے کہ اہل بیت (علیہ السلام) اربعین سنہ 61ھ کو کربلا پہنچے تھے یا پھر اربعین سنہ 62 میں کربلا مشرف ہوئے؟

مختلف اقوال بالاختصار:

1۔ اہل بیت (علیہم السلام) شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر، یعنی 20 صفر المظفر سنہ 61ھ ہی کو  کربلا میں داخل ہوئے۔ [1]

2۔ اہل بیت (علیہم السلام) شام جانے سے قبل ہی 20 صفر کو کربلا سے گذرے ہیں۔ یہ قول محمد تقي سپہر (لسان الملک کاشانی) کی کتاب "ناسخ التواریخ" میں منقول ہے۔

3۔ اہل بیت (علیہم السلام) سنہ 62ھ یعنی ایک سال بعد 20 صفر المظفر کو کربلا تشریف لائے ہیں۔ قاجاری شہزادے معتمد الدولہ فرہاد میرزا بن نائب السلطنہ عباس میرزا کی کتاب کی کتاب "قمقام الزخار و صمصام البتار" میں مروی ہے:

اربعین سنہ 61 کو کربلا میں اہل بیت (علیہم السلام) کا آنا مشکل ہی نہیں بلکہ عقل کے خلاف بھی ہے کیونکہ سیدالشہداء (علیہ السلام) عاشورا سنہ 61ھ کو شہید ہوئے اور عمر سعد نے اپنے ہالکین کی تدفین کے لئے وہیں توقف کیا اور گیارہ محرم کو وہاں سے کوفہ کی طرف روانہ ہؤا اور چند روز تک کوفہ میں قیام کیا۔ اس کے بعد یزید کی طرف سے حکم موصول ہؤا کہ اسیران آل رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کو دمشق روانہ کیا جائے چنانچہ عبید اللہ بن زیاد نے اسیران آل رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کو حران اور جزیرہ اور حلب کے راستے سے دمشق روانہ کیا جو ایک طویل مسافت ہے۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کو چھ مہینوں تک اسیری میں رکھا حتیٰ کہ یزید کا غصہ ٹھنڈا ہؤا [2] اور جب مطمئن ہؤا کہ عوام بغاوت نہیں کریں گے، تو اس نے امام سجاد علی بن الحسین (علیہ السلام) اور اسیران آل رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) کی مدینہ واپسی سے اتفاق کیا اور یہ سارے واقعات چالیس دن کے مختصر عرصے میں میں رونما ہونا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اہل بیت (علیہم السلام) کا کربلا میں داخلہ سنہ 62ھ میں ہی ممکن ہے"۔ [3]

لیکن ان مسائل سے ظاہر نہيں ہوتا کہ اہل بیت (علیہم السلام) سنہ 62 کو کربلا تشریف لائے ہیں کیونکہ کوفہ میں اہل بیت (علیہم السلام) کو طویل عرصے تک قید رکھا جانا، ثابت نہیں ہے، اس حقیقت کے پیش نظر کہ مؤرخین کی اکثریت نے کہا ہے کہ اسیران کربلا یکم صفر المظفر کو دمشق میں داخل ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شہید محراب، آیت اللہ سید محمد علی طبابائی بن سید میرزا باقر (رحمہ اللہ) اپنی کتاب "تحقیق دربارہ اولین اربعین حضرت سید الشہداء (علیہ السلام)" میں ان تمام اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا ہے جو صفر المظفر سنہ 61ھ کو اسیران کربلا کے کربلا میں آنے کی مشہور روایت کی مخالفت میں وارد ہوئے ہیں۔

چنانچہ صرف یہ کہنا کہ "ایسا ہونا ممکن نہيں ہے" اس بات کا انکار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) پہلے اربعین میں ہی کربلا پہنچے ہیں۔

4۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) شام سے مدینہ گئے اور مدینہ سے کربلا تشریف لائے اور انہوں نے اس سفر میں سید الشہداء (علیہ السلام) کا سر مبارک بھی کربلا منتقل کیا؛ لیکن پہلے اربعین کو نہیں بلکہ مدینہ واپسی کے بعد کربلا آئے۔

سبط بن جوزی نے ہشام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: سیدالشہداء(ع) کا سرمقدس ابتداء میں مدینہ منتقل کیا گیا ہے اور اس کے بعد کربلا روانہ کیا گیا اور امام(ع) کے جسم مبارک سے ملحق کیا گیا ہے۔ [4] لیکن اس روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ سر مبارک کس نے منتقل کیا اور یہ بھی نہیں کہا گیا کہ اہل بیت (علیہم السلام) سر مبارک کے ساتھ کربلا تشریف لائے ہیں اور یہ اشارہ بھی موجود نہیں ہے کہ کیا شہداء کے سرہائے مبارک کو کربلا بھجوایا کر ان کے اجسام مبارک سے ملحق کیا گیا ہے۔

کچھ مؤرخین نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) ابتداء میں مدینہ واپس چلے گئے ہوں اور اس کے بعد کربلا آئے ہوں لیکن 20 صفر المظفر کو نہیں ـ جو اربعین تھا ـ کیونکہ جابر بن عبداللہ انصاری حجاز سے کربلا آئے تھے، اور واقعے کی خبر حجاز پہنچنے اور جابر کے کربلا روانہ ہونے کے لئے 40 دن سے زیادہ عرصہ درکار تھا لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ جابر مدینہ نہيں آئے تھے بلکہ کوفہ یا دوسرے کسی شہر سے کربلا روانہ ہوئے تھے تو یہ بات صحیح ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے اربعین کو کربلا پہنچے تھے۔ [5] لیکن یہ قول ابن طاؤس، شیخ بہائی (محمد بن عزّالدین حسین)، ابن نما حلی اور بعض دیگر بزرگوں کے اس قول سے متصادم ہے کہ "جابر بر عبداللہ انصاری پہلے اربعین یعنی 20 صفر سنہ 61 ہجری کو کربلا آئے تھے"۔

ان مقدمات کے ساتھ، بہتر قول یہ ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) سنہ 61 ہجری کو شام سے واپسی پر 20 صفر المظفر کے دن کربلا میں داخل ہوئے ہیں۔ [6]

زیارت اربعین کے بارے میں کہنا چاہئے کہ: اربعین وہی چہلم یعنی امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کا چالیسواں دن ہے اور شہداء کی یاد کا احیاء اور ان کی تکریم و تعظیمث ان کی راہ، مشن اور مکتب کی تکریم ہے اور زیارت اسی تکریم اور تعظیم کا ایک وسیلہ ہے۔ زیارت امام حسین (علیہ السلام) ـ بالخصوص 20 صفر کو جو کہ شہادت امام حسین(ع) کا چہلم ہے ـ بہت زیادہ فضیلت کی حامل ہے۔ زیارت اربعین کا متن صفوان جمّال نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ایک زیارت اور بھی ہے جو جابر بن عبد اللہ انصاری نے اربعین کے دن پڑھی ہے اور اس زیارت کا متن رجب کے وسط میں پڑھنے کے لئے نقل ہؤا ہے۔ [7]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]۔ دیکھئے: غیاث‌الدین خواند میر (880–941ھ) کی کتاب "حبیب السِّیَر فی اخبار افراد البشر"، ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کی کتاب "الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ"، علی بن موسیٰ بن طاؤس الحلی کی کتاب "اللہوف علی قتلی الطفوف" اور محمد بن جعفر بن نَما الحلی کی "مثیر الاحزان" اور بعض دیگر۔

[2]۔ موثق روایات کے مطابق یزید اسیری کے پہلے ایام میں ہی حضرت زینب اور حضرت سجاد علیہما السلام کے خطبوں کے بعد خوف اور دہشت کا شکار ہؤا تھا اور اموی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگی تھیں چنانچہ یزید کا غصہ ٹھنڈا ہونے یا اپنے گناہ سے پشیمان سے متعلق اقوال صحیح نہیں ہیں۔ 

[3]۔ قمقام الزخار، ص 582۔

[4]۔ سبط بن الجوزی (یوسف بن حسام الدین قزاوغلی)، تذکرۃ الخواص (یا تذکرۃ الخواص من الأمۃ بذکر خصائص الأئمۃ)، ص150۔

[5]۔ فرہاد میرزا، قمقام الزخار، ص582۔

[6]۔ مہدی قِزِلّی، قصۂ کربلا، ص527۔

[7]۔ شیخ عباس بن محمد رضا محدث قمی، مفاتیح الجنان۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110