بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | کیا باطل ہے یہ تصور، انہوں نے جسموں کو نشانہ بنایا، روح کی کیا خبر ہے انہیں؟ انہیں ایک نام کی گونج کی کیا خبر ہے جو ایک قوم کی رگوں میں جاری ہے؟ آج ایران سوگ نہیں منا رہا، بلکہ رجزخوانی کرتا ہؤا، اپنے سورماؤں کو کندھا دے رہا ہے، یہ ایک وداع نہیں بلکہ تجدید عہد ہے خون کے ساتھ۔
کیا تم نے گمان کیا کہ جان لے کر تم نام اور تشخص کو بھی لے سکتے ہو؟ کیا تم نے یہ سوچا کہ ایک جسم کو گرانے سے کسی عزم کی بنیادوں کو مٹایا جا سکتا ہے؟
آج دیکھو، ان تین رنگوں والے تابوتوں کو جو استوار کندھوں کے سمندر پر تیر رہے ہیں۔ یہ لکڑی اور کپڑے نہیں ہیں؛ یہ وطن کی بانہیں ہیں۔ وہ آغوش جو آخری بار اپنے بہادر بیٹوں کو تھامے ہوئی ہیں۔ پرچم، جو عزت کا ابدی نشان ہے، آج کفن نہیں بلکہ اس بدن کا فخریہ ہے اس جسم کے لئے جو آخری سانس تک ان ہی تین رنگوں کے لئے ثابت قدمی سے لڑتا رہا۔
یہ ایک جرنیل تھا؛ ایک پہاڑ تھا جس کی آہٹ کی گونج دشمن کے وجود پر کپکپی طاری کر دیتی تھی۔ وہ دوسرا، ایک کمانڈر تھا؛ ایک شاہین، جس کی نگاہیں آسمان مسخر کرتی تھیں۔ اور وہ تیسرا، ایک ذہن تھا، ایک سائنسدان، ایک سوچ جس نے ترقی کے فارمولے اس سرزمین غیرت کے تختی پر کندہ کر دیئے تھے۔
کیا تم نے سوچا کہ جسم کو منظر سے ہٹا کر وہ قدم، وہ نگاہ اور وہ سوچ بھی مٹ جائے گی؟
آج ہر ایرانی نوجوان خود ایک جرنیل ہے۔ ہر طالب علم، چوٹیاں فتح کرنے کے لئے ایک مزید پرعزم سائنسدان ہے۔ تم نے ایک جسم کو تو مار ڈالا، لیکن لاکھوں روحوں کو بھڑکا دیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اس سرزمین پر شہید کا خون جوہرِ حیات ہے؟
یہ اختتام و انتہا نہیں ہے
کیا یہ ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موج جو سڑکوں اور گلیوں میں رواں ہے، غم کے گھٹنوں پر سر رکھنے کی علامت ہے؟ کیا یہ بند مٹھیاں بند اور فضا میں لہرائے جانے والے ہاتھ مایوسی اور بے بسی کا اظہار ہیں؟ کیا یہ آسمان کو چیرتے ہوئے 'اللہ اکبر' کے نعرے کسی شکست خوردہ [شخص یا قوم] کی سسکیاں ہیں؟
نہیں! ہرگز نہیں! یہ جواب ہے ایک قوم کا، تاریخ کو۔ یہ گرج، مرثیہ نہیں بلکہ ایک نئے آغاز کا رزمیہ ہے۔
یہ متراکم اور گھنی صفیں، وداع کہنے کے لئے نہیں بلکہ اس راہ کے ساتھ بیعت کا اعلان کر رہی ہیں، جسے ان شہیدوں کے خون نے کھول دیا ہے۔
ہر بچے کی آنکھوں میں جو اپنے باپ کے کندھے پر سے اس منظر کو دیکھ رہا ہے، انتقام کی چمک اور مستقبل کی عظمت کی لہر دوڑ رہی ہے۔
ہر غم زدہ ماں کی خاموشی میں تاریخ کی بلندیوں تک پہنچنے والی ایک پکار ہے جو کہتی ہے: میرا بیٹا اس سرزمین پر قربان۔
یہ وہ حلف نامے ہیں جو دلوں پر کندہ ہو رہے ہیں۔ انتقام کے عہدنامے ہیں جو الفاظ سے نہیں بلکہ آگ اور فولاد کا جواب ہوگا۔
اے شہیدو! تمہارے خون سے ہزاروں سَرْو اگیں گے۔
ہم جسموں کو سپرد خاک، لیکن راستے کو، اور مشن کو نہیں۔
جسم کو بطور امانت زمین کے سپرد کریں گے، لیکن مشن کو آسمان سے جوڑ دیں گے۔
اس سائنسدان نے اپنے خون سے ایک حتمی مساوات [اور ایک حتمی فارمولے] کو ثابت کر دیا: "ایک قوم کی ترقی کی صلاحیت اس کے عزم کو شہیدوں کی تعداد سے ضرب دینے کے برابر ہے"۔ چنانچہ تمہارے خون کا ہر قطرہ وہ ضرب (اور وہ Multiplication) ہے جو ہماری طاقت کو لامحدود کر دیتی ہے۔
اور اے اس سرزمین کے دشمنو! اے اندھیرے کے پجاریو اور شب پرستو! تم نے ایک بیج بو دیا۔ ایک مقدس غضب کا بیج، اس زمین میں جو خون سے سیراب ہوئی ہے۔
اب تم بیٹھ کر ہزاروں بلند قامت سرووں کے اگنے کا تماشا دیکھو جو اس سرزمین کے ہر کونے سے سر اٹھا رہے ہیں۔ وہ سرو جن کی جڑیں غیرت میں پیوست ہیں اور جن کا سایہ تمہارے لئے ابدی خوابِ پریشان کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
آج، ایران زخمی ہے، لیکن پہلے سے زیادہ مضبوط۔؛ دکھی ہے، لیکن پہلے سے زیادہ پرعزم۔ یہ ققنوس (Phoenix) اپنے بچوں کی راکھ سے پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا۔
آنکھوں میں کیا گذر رہا ہے؟
اس انسانی طوفان کے بیچ ایک لمحہ ٹھہرو اور آنکھوں میں جھانکو۔ یہ عام پتلیاں نہیں ہیں۔ ہر ایک ایک آئینہ ہے جو اس رزمیے کو ایک نئی زبان میں بیان کر رہا ہے۔
اس کی بوڑھی نظر ایک شاہد و گواہ کی نظر ہے۔ اور اس کی جوان نظر ایک تعہد (Commitment) کی نظر ہے، اور اور باپ کے کندھے پر بیٹھے بچے کی نظر مستقبل کی نظر ہے۔
وہ مستقبل جو عظیم کارناموں اور ان سے جنم لینے والے رزمیوں کے ساتھ پروان چڑھتا ہے اور غیرت کا سبق کتابوں سے نہیں بلکہ تاریخ کی جیتی جاگتی گلیوں سے سیکھتا ہے۔
کیا وہ دشمن جو صرف جسموں کو دیکھتا ہے، ان آنکھوں میں چھپی ہزاروں داستانوں اور بیانیوں کو پڑھ سکتا ہے؟
مٹی کی معنی خیز خاموشی
آخر وہ لمحہ آ ہی جاتا ہے، وہ لمحہ جب امانت کو خاک کے سپرد کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ رک جانے اور اختتام کا نقطہ ہے؟
جب جسم آہستگی سے زمین کی آغوش میں اترتی ہیں، تو ہجوم کا شور و غل ایک گہری، معنی خیز خاموشی میں بدل جاتا ہے۔
یہ سکون طوفان سے پہلے کا سکون ہے۔ زمین ایک بہترین امانت دار ہے۔ وہ جسموں کو تو قبول کر لیتی ہے، لیکن ان کی بہادری کی گونج کو اپنے ذرے ذرے میں بسا دیتی ہے۔
اب سے، اس زمین کا ہر ذرہ ایک جرم کی دستاویز اور مقاومت کی ایک نشانی ہوگا۔
یہ مٹی غیرت کا اسلحہ خانہ ہے
اے تاریکی میں بھٹکنے والو دشمنو! کیا یہ اندھا دھند دہشت گردانہ اقدام تمہاری طاقت کا اظہار ہے؟ کیا تاریکی میں چھپ کر پیٹھ میں خنجر گھونپنا بہادری کی علامت ہے؟
ہرگز نہیں! یہ عمل تمہاری بے بسی اور درماندگی کی اونچی پکار ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ میدانِ جنگ میں تمہارے اندر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے اور ان کمانڈروں کا براہ راست مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔
مار دو ہمیں، ہماری قوم بیدارتر ہو جائے گی
یہ اس بات کی گواہی ہے کہ اُس سائنسدان کے افکار نے تمہاری لرزتی ہوئی طاقت کی بنیادوں کو اس قدر ہلا دیا تھا کہ تمہیں اس کے بزدلانہ قتل کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔
تم جنگل میں شیروں کا سامنے سے سامنے کا مقابلہ کرنے سے ڈر گئے، اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھروں پر شبیخون مارا۔
لیکن کیا اس سرزمین کی منطق کو بھول گئے ہو؟ وہی منطق جس کو ہمارے پیر و مرشد خمینیِ کبیرؒ تاریخ میں امر کر دیا:
مار دو ہمیں، ہماری قوم بیدارتر ہو جائے گی
تم نے ان شہیدوں کے خون سے اسی ملین ایرانیوں کے لیے بیداری کی گھنٹی بجا دی۔
تم نے ان شہیدوں کے خون سے نو کروڑ ایرانیوں کے لئے بیدارباش کی گھنٹی بجا دی۔
زمین پر گرنے والا خون کے ہر قطرے نے لاکھوں سوئی ہوئی آنکھوں کو کھول گیا، لاکھوں ہاتھوں کے کھلے پنجوں کو بند گھونسوں میں بدل دیا، اور لاکھوں خاموش ارادوں کو مشتعل کر دیا۔
تم نے اپنے کھوکھلے حسابات میں اس الٰہی فارمولے کو شامل نہیں کیا تھا کہ
"قوم کی بیداری تمام شہیدوں کے خون کا لازوال حاصل جمع ہے۔"
یہ قتل نہ صرف ہماری طاقت کا خاتمہ نہیں بلکہ تمہاری ابدی بےبسی پر مہر تصدیق اور ہماری قوم کی لازوال بیداری کا نقطہ آغاز تھا۔
بیٹھو اور دیکھو کہ کیسے اس خون سے ـ کس طرح ـ ایک ایسی طاقت جنم لیتی ہے جو تمہاری ذلت آمیز زندگی کے بساط کو لپیٹ دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ