بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ |
امریکہ یا اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم صرف اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ برقرار رہے۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی بہت سی بریکنگ نیوز کی طرح، اس جنگ بندی کا اعلان بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر ہوا جہاں توقع کے مطابق امریکی صدر نے اسے اپنی ذاتی کامیابی قرار دیا۔
یہ ایک ایسے وقت میں ہوا کہ جب امریکہ بنیامن نیتن یاہو کی جانب سے شروع کی جانے والی صلیبی جنگ میں شامل ہوا اور وہ کیا جو اسرائیل کے لیے حاصل کرنا مشکل تھا۔ اس نے بی 2 بمباروں کی مدد سے فردو، نطنز اور اصفہان میں ایران کی جوہری تنصیبات پر ’بنکر بسٹر بم‘ برسائے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں لیکن آزاد ذرائع سے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جبکہ پیر کو فردو میں اسرائیل کے حملوں نے مزید سوالات اٹھائے۔
جنگ بندی کا اعلان ایران کی جانب سے قطر میں امریکی العدید اڈے پر چند میزائل داغے جانے کے فوراً بعد کیا گیا تھا جبکہ یہ پیش رفت شاید اتفاقیہ و غیراتفاقیہ دونوں ہوسکتی ہے۔ ایرانی میزائل تو اسرائیل کے آئرن ڈوم دفاعی نظام کو بھی چیرتے نظر آئے۔ بہرحال امریکہ یا اسرائیل کی جانب سے ایرانی حکومت کی تبدیلی کی تجویز یا کوشش کا خیال فی الوقت پس پشت نظر آتا ہے۔
یہ 1953ء میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ابتدائی مشنز کے مقابلے میں کافی مشکل تھا کہ جب انہوں نے محمد مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور غیرمقبول شاہ کو واپس لے کر آئے تھا جس نے آخرکار 1979ء میں انقلاب کی راہ ہموار کی جس کے بعد ایران کی کمان مذہبی رہنماؤں نے سنبھالی۔
ایران صرف امریکی سامراج کے اہداف میں سے ایک ملک ہے۔ سامراج جس کا آغاز امریکہ کے برطانوی نوآبادیاتی قوت اور بعدازاں ہسپانوی سلطنت کو شکست دے کر آزادی حاصل کرنے کے کچھ عرصہ بعد ہوا تھا۔ آزادی کے بعد اس کا پہلا ہدف میکسیکو تھا اور امریکہ نے میکسیکو کی زمین کے بڑے حصے پر قبضہ کیا جس میں آج کا کیلیفورنیا، نیواڈا، یوٹا، نیو میکسیکو، ایریزونا، کولوراڈو اور اوکلاہوما، کنساس اور وومنگ جیسی امریکی ریاستوں کے کچھ حصے شامل ہیں۔ امریکہ نے ٹیکساس پر بھی قبضہ کرلیا جسے میکسیکو اس وقت باغی صوبہ تصور کرتا تھا۔
20ویں صدی کے اوائل میں امریکہ دیگر ممالک میں مداخلت اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے لگا اور وہ یہ کام اپنی سرحدوں سے کافی دور بلکہ زیادہ تر وسطیٰ امریکہ اور بحر الکاہل کے متعدد جزیروں پر انجام دے رہا تھا۔ فلپائن ایشیا میں اس کی نادر مثال ہے اور اس کے بعد سے امریکہ نے کالونیز کے بجائے ’سیٹلائٹ ریاستوں‘ کو ترجیح دی۔
پاکستان 1947 میں آزاد ہونے کے فوراً بعد ان ریاستوں میں سے ایک بننے کے لیے بے چین نظر آیا حتیٰ کہ امریکہ سے 2 ارب ڈالرز کی امداد بھی مانگی۔
اس وقت تو امریکہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد اس نے پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں مداخلت کی اور پھر وسطی امریکہ کے ملک گواتیمالا کی جمہوری حکومت کا تخت الٹ دیا۔ پھر امریکہ کو جہاں جہاں موقع ملا، اس نے جمہوری اقدار کی پامالی کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔
انسانیت کے خلاف جرائم سمجھے جانے والے امریکی اقدامات کی طویل تاریخ کا مکمل جائزہ لینے میں کافی کوششیں درکار ہوں گی جس کا آغاز مقامی امریکیوں کی نسل کشی سے ہوا اور اس نے اسے آباد کار نوآبادیاتی ریاست بنانے میں مدد کی۔ اس کی اپنی سرحدوں میں بنیادی حقوق پر حملوں سے لے کر غزہ میں جاری نسل کشی کی پشت پناہی تک، آبادکار امریکی ریاست نے اندرونِ ملک اور غیرملکی نقصان دہ کارروائیاں انجام دیں یا ان کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا۔
بار بار میرا ذہن 58 سال قبل کی جانے والی اس قابلِ ذکر تقریر کی جانب راغب ہورہا ہے کہ جس میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا تھا کہ ’میری اپنی حکومت آج دنیا میں تشدد کی سب سے بڑی پیروکار ہے‘۔ افسوسناک طور پر زیادہ کچھ نہیں بدلا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ نے یہ بیان آج کی میک امریکہ گریٹ اگین (MAGA) تحریک سے ملتے جلتے خیالات رکھنے والے سفید فام بالادست کے ہاتھوں قتل ہونے سے ایک سال پہلے دیا تھا۔ ان کی موت نکسن کسنجر کے گروہ کے تحت انڈوچائنا میں ہونے والے بدترین مظالم سے ایک سال پہلے جبکہ انگولا، افغانستان، عراق، لیبیا، شام یا دیگر مقامات پر ان کی قوم کی اشتعال انگیز کارروائیوں سے کئی دہائیوں پہلے ہوئی تھی۔
1967ء میں انہوں نے کہا تھا، ’اگر امریکہ کی روح مکمل طور پر زہر آلود ہوجائے تو تاریخ کے کسی بھی تجزیے میں ویت نام جنگ کا ذکر ضرور ہونا چاہیے‘۔ مزید کہا ’ہم سے ان لوگوں کے لیے آواز اٹھانے کے لیے کہا جاتا ہے جو بے آواز ہیں، ہماری قوم کے متاثرین ہیں اور ان لوگوں کے لیے جنہیں ہمارا ملک ’دشمن‘ کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ انسانوں کا لکھا کوئی بھی قانون ان کی انسانیت نہیں چھین سکتا۔ وہ کسی صورت ہمارے بھائیوں سے کم نہیں‘۔
ویتنام جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے ’خواتین، بچوں اور بوڑھوں‘ کے مصائب پر افسوس کیا جو ’ہمیں ان کے پانی میں زہر گھولتا دیکھتے ہیں جنہیں اپنے علاقوں کو بلڈوزر سے تباہ ہوتے دیکھ کر رونا پڑا۔۔۔ وہ شہروں میں گھومتے ہیں اور ہزاروں بچوں کو بےگھر، بغیر کپڑوں کے، جانوروں کی طرح سڑکوں پر بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمارے فوجیوں کے ہاتھوں بچوں کو کھانے کی بھیک مانگتے ہوئے ذلیل ہوتے دیکھتے ہیں‘۔ یہ یاددہانی ہے کہ غزہ کتنے طریقوں سے ویتنام سے مماثلت رکھتا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اعتراف کیا کہ ’دنیا اب امریکہ سے پختگی کی توقع رکھتی ہے لیکن شاید ہم یہ کبھی حاصل نہ کرپائیں‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’ویتنام کی جنگ امریکہ کی روح میں موجود ایک پیچیدہ بیماری کی علامت ہے‘ اور ’ایک ایسی قوم جو سال بہ سال سماجی ترقی کے پروگرامز سے زیادہ فوجی دفاع پر پیسہ خرچ کرتی رہتی ہے وہ اپنی روحانی موت کی جانب سفر کررہی ہوتی ہے‘۔
مارٹن لوتھر کنگ کی جانب سے تبدیلی میں ’عجلت‘ کی درخواست شاید ہمارے کل کو بدل سکتی ہے۔ زیادہ ماضی میں جائیں تو شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’پوری دنیا ایک اسٹیج ہے جبکہ تمام مرد اور خواتین محض اداکار ہیں‘، لیکن شاید انہوں نے ایسے اسٹیج کا تصور پیش نہیں کیا تھا کہ جس میں تمام بڑے اداکار اپنے اپنے طور پر مارٹن لوتھر کنگ کے خواب کو رد کرنے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں یعنی ان کا ’دنیا کو شور اور تنازعات کو پرامن اور بھائی چارے میں تبدیل کرنے کا خواب‘۔ لیکن افسوس ناک طور پر یہ محض ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ماہر علی، ڈان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ