اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے اس سال کے موسم حج کے موقع پر حجاجِ بیت اللہ کے نام پیغام جاری کیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرّحمن الرّحیم
والحمد لله ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علی خیر خلق الله محمّدٍ المصطفی وآله الطّیّبین وصحبه المنتجبین ومن تبعهم باحسان الی یوم الدّین.
حج مؤمنوں کی آرزو، مشتاقوں کی عید اور سعادت مند انسانوں کے لئے روحانی رزق ہے اور اگر یہ حج اس کی پراسرار گہرائیوں کے ساتھ ادا ہو تو یہ امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ پورے بنی نوع انسان کے زیادہ تر دکھوں کا علاج ہے۔
حج کا سفر [ان] دوسرے سفروں کی مانند نہیں ہے، جو تجارت، سیاحت یا دوسرے مختلف النوع اہداف کے لئے انجام پاتے ہیں، اور شاید اس دوران کوئی عبادت یا نیک کام بھی کیا جاتا ہے؛ حج کا سفر معمول کی زندگی سے حیات مطلوب (مطلوبہ زندگی) کی طرف ہجرت کی مشق ہے۔ حیات مطلوب توحیدی زندگی ہے جس میں حق کے محور کے گرد مستقل طواف کرنا، دشوار چوٹیوں کے درمیان مستقل اور دائمی سعی (دوڑ اور تلاش و کوشش)، شریر و شرپسند شیطان پر مستقل طور پر کنکریاں برسانا، ذکر، دعا و مناجات و ابتہال کے ساتھ وقوف، زمین پر پڑے غرباء اور مسافروں کو کھانا کھلانا، انسانوں کے رنگ و نسل اور جغرافیے کو یکسان [اور ایک آنکھ سے دیکھنا]، ہر حال میں خدمت کے لئے آمادہ رہنا، مستقل طور پر اللہ کی پناہ مانگنا اور دفاع حق کا پرچم لہراتے رہنا شامل ہے یہ حیات مطلوب کے بنیادی اور مرکزی عناصر ہیں۔ مناسک حج نے اس حیات کے کئی علامتی نمونوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور حاجی کو ان سے روشناس کراتے ہیں اور ان کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اس دعوت کو سننا چاہئے؛ دل کو، ظاہری آنکھ کو اور باطن کی نظر کو کھولنا چاہئے؛ سیکھنا چاہئے اور ان اسباق کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کو مضبوط رکھنا چاہئے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس راہ میں ایک قدم بڑھا سکتا ہے؛ اور علماء، روشن دانشور، سیاسی عہدوں پر فائز لوگ اور معاشرتی حیثیت رکھنے والے افراد دوسروں کے مقابلے میں اس راہ میں زیادہ [بہتر] قدم بڑھا سکتے ہیں۔
دنیائے اسلام اس وقت پہلے سے کہیں زيادہ، ان اسباق کی محتاج ہے۔ امسال دوسرا موسمِ حج ہے جو غزہ اور مغربی ایشیا میں جاری المیوں کے عین موقع پر منعقد ہو رہا ہے۔ فلسطین پر مسلط جرائم پیش صہیونی ٹولے نے، حیرت انگیز سنگ دلیوں، اور انوکھی قساوت اور شرانگیزیوں کے ساتھ غزہ کے المیے کو ناقابل یقین سطح تک پہنچا دیا ہے۔ آج فلسطینی بچوں کو ـ بموں، گولوں اور میزائلوں سے کہيں بڑھ کر ـ بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کیا جا رہا ہے؛ اپنے عزیزوں، نوجوانوں، باپوں اور ماؤں سے محروم ہونے والے سوگواروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؛ کس کو اس انسانی المیے کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا؟
بے شک اسلامی ممالک اس ذمہ داری کے پہلے مخاطَب ہیں، اور عوام حکومتوں سے اس پر عمل کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔
بیشک دولتهای اسلامی، نخستین مخاطب این تکلیفند و ملّتها، مطالبهگرانِ عمل دولتها به آن. دولتهای مسلمان شاید در مسائل گوناگونی دچار اختلاف نظر سیاسی باشند، این نباید آنان را از اتّفاق نظر و همکاری در ماجرای سهمگین غزّه و دفاع از مظلومترین مجموعهی بشری در جهانِ امروز باز دارد. دولتهای مسلمان باید همهی راههای کمکرسانی به رژیم صهیونی را مسدود کنند و دست جنایتکار را از ادامهی رفتار شقاوتآمیز در غزّه کوتاه سازند. آمریکا شریک قطعی جنایات رژیم صهیونی است؛ مرتبطین آمریکا در این منطقه و دیگر مناطق اسلامی، به ندای قرآن دربارهی دفاع از مظلوم گوش فرا دهند و دولت مستکبر آمریکا را مجبور به توقّف این رفتار ظالمانه کنند. آئین برائت در حج، گامی در این راه است.
مسلمان ممالک شاید مختلف سیاسی مسائل پر اختلاف رکھتے ہوں، لیکن اسے غزّہ کے المناک معاملے اور آج کی دنیا کے سب سے مظلوم انسانوں کے دفاع میں متفقہ موقف اور تعاون سے باز نہیں رکھنا چاہیے۔ مسلمان حکومتوں کو چاہیے کہ وہ صہیونی ریاست کو ہر قسم کی امداد کے راستے بند کریں اور اس مجرم کو غزّہ میں اپنی سفاکانہ کارروائی جاری رکھنے سے روکیں۔ امریکہ صہیونی ریاست کے جرائم کا یقینی شریک ہے؛ اس خطے اور دیگر اسلامی علاقوں میں امریکہ سے وابستہ لوگوں کو چاہیے کہ قرآن کے مظلوم کے دفاع کے حکم پر عمل کریں اور متکبر امریکی حکومت کو اس ظالمانہ سلوک کو روکنے پر مجبور کریں۔ حج کے موقع پر "برائت از مشرکین" کا اعلان اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
مقاومت اعجابانگیز مردم غزّه، مسئلهی فلسطین را در رأس توجّهات دنیای اسلام و همهی آزادگان جهان قرار داده است؛ از این فرصت باید استفاده کرد و به یاری این ملّت مظلوم شتافت. به رغم تلاش مستکبران و حامیان رژیم صهیونی برای فراموشیِ نام و یاد مسئلهی فلسطین، ذات شریر سردمداران این رژیم و سیاست احمقانهی آنان، وضعیّتی پدید آورده که امروز نام فلسطین از همیشه درخشانتر، و نفرت عمومی از صهیونیها و حامیانشان، از همیشه بیشتر است؛ و این فرصت مهمّی برای دنیای اسلام است.
غزہ کے عوام کی لازوال مزاحمت نے فلسطین کے مسئلے کو دنیائے اسلام اور تمام آزادی پسند انسانوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس مظلوم قوم کی مدد کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ باوجود اس کے کہ صہیونی حکومت اور اس کے حامی طاقتیں فلسطین کے مسئلے کو فراموش کرانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن اس حکومت کے سربراہوں کی شریرانہ فطرت اور ان کی احمقانہ پالیسیوں نے ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ آج فلسطین کا نام پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہے، اور صہیونیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف عوامی نفرت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یہ اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
سخنوروں، خطیبوں اور سماجی رہنماؤں پر لازم ہے کہ وہ عوام کو بیدار کریں، انہیں حساس بنائیں اور فلسطین سے متعلق مطالبات کو مزید فروغ دیں۔ اے حج کرنے والو! تم بھی اس مقدس موقع سے غفلت نہ کرو، دعا کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو، اور خدائے متعال سے صہیونی ظالموں اور ان کے حامیوں پر فتح کے لئے دعا مانگو۔"
صلوات اور سلام ہو خدا کا اسلام کے پیغمبر اعظم اور آپ کے خاندان گرامی پر اور اور سلام و درود ہو حضرت مہدی بقیۃ اللہ (عَجَّلَ اللہُ ظُہُورَہُ)۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سیّد علی خامنہ ای
30 مئی 2025ع
آپ کا تبصرہ