اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے
ایران کے قومی ٹیلی ویژن کے نیوز چینل سے مفصل بات چیت کی ہے جس کا خلاصہ درجہ ذیل
ہے:
علاقائی دورے
وزیر خارجہ نے بیروت کے
حالیہ دورے کے بارے میں کہا کہ وہ بحرانی صورت حال تھی، شہید سید حسن نصراللہ اور
شہید نیل فروشان شہید ہوچکے تھے، اس سے قبل شہید اسماعیل ہنیہ شہید ہوچکے تھے جس
کے بعد ہم نے وعدہ صادق-2 آپریشن میں صہیونیوں کو جواب دیا۔
یہ وہ وقت تھا جب حزب اللہ
کو نقصان پہنچا تھا اور ضرورت اس امر کی تھی کہ ایران کی طرف سے مقاومت کی حمایت
کا اظہار کیا جائے اور ہم میدان جنگ میں حاضر ہو جائیں اور حزب اللہ سمیت خطے میں
مقاومتی دوستوں کو ایران کی مستقل حمایت کی یقین دہانی کرائیں اور ایران کی طاقت
کا مظاہرہ بھی ہو جائے۔
بیروت میں
ملاقاتیں کافی اچھی رہیں، حزب اللہ آج اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی ہے اور ہر روز
صہیونیوں کو زبردست مالی اور جانی نقصانات پہنچا رہی ہے۔
میرے دورے کے
بعد اسپیکر پارلیمان ڈاکٹر محمد باقر قالیباف اور ڈاکٹر علی لاریجانی نے بیروت کا
دورہ کیا، اور یوں مقاومت کے حوصلے بحال ہوئے اور حزب اللہ میدان میں پہلے سے
زیادہ مؤثر انداز سے فعالی ہوئی۔
مقاومت قائم و
دائم ہے
میں اس کے بعد
دمشق اور دوسرے عرب دارالحکومتوں کے دورے پر گیا جن کا مقصد خطے کو یہ بتانا تھا
کہ مقاومت و مزاحمت قائم و دائم ہے۔
دوسرے مرحلے میں
میرے دوروں کا مقصد انذار (اور انتباہ دینا اور خبردار کرنا) تھا صہیونی حملوں کے
حوالے سے اور عرب ممالک کو یہ بتانا مقصود تھا کہ صہیونی اہداف لبنان اور غزہ تک
محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ بہت وسع ہے اور وہ پورے خطے کے آگ کے شعلوں میں
دھکیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے ان ملاقاتوں میں ممکن صورت حال کی حقیقت
پسندانہ تصویری کشی کی۔ کچھ ممالک کی معلومات بہت کم تھیں اور ان کا تجزیہ بھی
درست نہیں تھا؛ چنانچہ صہیونیوں کے اگلے اہداف کے سلسلے میں "مشترکہ
فکرمندی" معرض وجود میں آئی اور یہ دورے کامیاب رہے۔
مشترکہ علاقائی
محاذ
ہم غاصب ریاست
کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ صہیونی جنگ کا دائرہ وسیع کرکے
خطے میں ایک عظیم المیے کے درپے تھے، جس کا سد باب کیا گیا اور ہمارا مشترکہ دباؤ
مؤثر رہا۔
یہ ہماری علاقائی سفارتی کوششیں تھیں، ساتھ ہی ہماری
فوجی قوت بھی بالکل تیار اور میدان میں ہے، سفارتکاری اور میدان نے خطے میں مقاومت
کے لئے بھی مناسب ماحول فراہم کیا اور آج کے حالات کنٹرول شدہ ہیں۔ صہیونیوں نے
جارحیت کی تو پورے خطے نے اس کی مذمت کی۔ اسلامی-عرب سربراہی کانفرنس میں بھی
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے صہیونی جارحیت کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی۔
یقینی امر ہے کہ
اگر پورا خطہ مشترکہ اقدام کرے، مشترکہ آواز اٹھائے، صہیونیوں کی طرف سے ابھرنے
والے خطرات کو ایک ہی شکل میں سمجھا بوجھا جائے تو یہ صہیونی قتل کی مشین کو
لگام دینے میں مؤثر رہے گا۔
ایلون مسک کے ساتھ ایروانی کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی
سید عباس عراقچی
نے اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی کی
ایلون مسک سے خفیہ ملاقات پر مبنی امریکی ذرائع ابلاغ کی غلط بیانی کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا: ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے اور اس کے مقاصد بھی واضح ہیں۔ میں
نے نماز فجر کے بعد اس خبر کو دیکھ لیا، ظہر تک اس کو جواب دینے کا لائق نہیں
سمجھا، نیویارک میں صبح ہونے کے منتظر تھے، دوستوں سے رابطہ ہؤا تو انھوں نے تردید
کردی ویسے بھی ایسی کوئی ملاقات ہماری ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ بہرحال اس خبر کے اوپر رد عمل
آنے کا سلسلہ شروع ہؤا تو وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس افواہ کی تردید کر دی۔
امریکیوں نے یہ افواہ اڑا کر حالات کا جائزہ لینا چاہتا تھا اور یہ بھی جتانا تھا
کہ امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد ایران، اس ملک کے ساتھ رابطوں کا خواہاں
ہے۔
اس وقت اس قسم
کی کوئی بھی ملاقات قبل از وقت ہے، اس میں کوئی مصلحت بھی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا
کوئی عزم پایا جاتا ہے۔ میں دو ٹوک الفاظ میں ایسی کسی ملاقات کی تردید کرتا ہوں۔
ہم نئی امریکی
حکومت کی پالیسیوں کا انتظار ہے
وزیر خارجہ نے
کہا: ہم نئی امریکی حکومت کی پالیسیوں کے اعلان کے منتظر ہیں، جس کے بعد ہم اعلیٰ
سطوح پر فیصلہ کریں گے۔ ہم اپنی پالیسیوں کو اپنے مقاصد اور اصولوں کی بنیاد پر متعین
کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برتاؤ کا تعین ان کی پالیسیوں کی بنیاد پر ہوگا۔ ٹرمپ نے
مختلف عہدوں کے لئے شدت پسندوں اور صہیونی ریاست کے شدید حامیوں کو متعارف کرایا
ہے، جن کے لئے ہم کسی اہمیت کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارے مقاصد و اہداف اور پالیسیاں
واضح ہیں۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ
ہماری جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں، کیا کچھ ہوگا
وزیر خارجہ
اسلامی جمہوریہ ایران نے وعدہ صادق-3 آپریشن کے بارے میں کہا: کچھ تجزیئے کہتے ہیں
کہ گویا یہ آپریشن نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے
لیکن میں نے ملک کے رسمی اور سرکاری موقف میں کوئی تبدیلی نہیں دیکی ہے۔ صہیونی
ریاست نے جارحیت کی تو اس کے دوسرے روز سے ہی ہمارا موقف بالکل واضح اور صریح تھا
کہ ایران بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جواب دینے کا حق
رکھتا ہے اور اس کے وقت اور کیفیت کا فیصلہ ہم خود ہی کریں گے اور یہ کاروائی اپنے
وقت پر انجام پائے گی۔
ایران نے گذشتہ
برسوں میں بھی اور طوفان الاقصیٰ اور جنگ غزہ کے بعد بھی ثابت کرکے دکھایا ہے کہ
اس کے اقدامات دانشمندانہ اور حکمت آمیز ہیں۔ اور وہ حکمت، مصلحت اور عزت کی بنیاد
پر کام کرتا ہے۔
ایران کی جوہری تنصیبات
پر حملے کی صہیونی دھمکیوں کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ گوکہ صہیونی ریاست بین
الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پابند نہیں ہے، اور جو کر سکتی ہے کر بیٹھتی ہے،
اور اس میں بھی شک نہیں ہے کہ بین الاقوامی ادارے بھی امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے
اس کے اقدامات سے چشم پوشی کرتے ہیں، اور صہیونیوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم پر
خاموش رہتے ہیں۔
صہیونیوں نے بہت
ساری دھمکیاں دی ہیں، ہم نے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی سے بھی کہا
ہے، اور جس سے بھی کہنا ضروری تھا اس سے بھی کہہ چکے ہیں، اور میں نے علاقائی
دوروں کے دوران بھی کہہ دیا ہے کہ صہیونی ریاست جو بھی اقدام کرے ہم اس کے تناسب
سے اسی قسم کا جواب دیں گے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ اگر ہماری جوہری تنصیبات پر حملہ
کریں تو کیا واقعہ رونما ہوگا۔
روس کے ساتھ
جامع سمجھوتے پر دستخط صدر کے دورہ ماسکو کے موقع پر
وزیر خارجہ نے
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ہماری سفارتکاری میں پڑوسی پہلے نمبر پر ہیں، اس
کے بعد چین اور روس جیسے دوست ممالک ہیں، اور ہم اپنی سفارتکاری کے لئے مزید
علاقوں کی تلاش میں بھی ہیں۔ متعدد بحرانوں کے باوجود، چین اور روس کے ساتھ تعلقات
احسن طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ برکس سربراہی اجلاس اچھا موقع تھا جو ہماری خارجہ
پالیسی نے فراہم کیا۔ صدر پزشکیان نے چین، روس، برازیل، جنوبی افریقہ اور ہندوستان
کے سربراہوں سے مفید ملاقاتیں کیں۔
صدر پیوٹن کے
ساتھ، ایک ہفتے میں صدر پزشکیان کی یہ دوسری ملاقات تھی۔ چینی صدر کے ساتھ ملاقات
بہت اہم تھی اور چینی صدر نے اپنے کئے ہوئے فیصلوں کا اعلان کیا اور اس کے اثرات
بھی الحمد للہ دکھائی دیئے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی توجہ ہمسایہ اور علاقائی ممالک
کے بعد برکس کے رکن ممالک پر مرکوز ہے۔
چین کے ساتھ 25
سالہ سمجھوتہ مستقبل کا منصوبہ اور ایک ایکشن پروگرام ہے جس کو مختلف شعبوں میں
متعدد معاہدوں میں تبدیل ہونا چاہئے۔ روس کے ساتھ ہی ایسے ہی سمجھوتے کا مسودہ
تیار کیا جا چکا ہے جس پر ممکنہ طور پر اگلے ایک یہ دو مہینوں میں، صدر پزشکیان کے
دورہ ماسکو کے دوران دستخط ہونگے۔ یہ بھی ایک ایکشن پلان ہے جو دو ملکوں کے درمیان
تعاون کی سمتوں کا تعین کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
110