اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ | برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی سفیر برائے برطانیہ خالد بن بندر نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ 1973 کے بعد علاقائی جنگ چھڑنے کے سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔
شہزادہ خالد نے کہا کہ خطے میں خونریزی کو روکنے کیلئے نئے سرے سے کوششوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کا تنازع پوری دنیا کے لوگوں کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتا ہے۔
سعودی سفیر نے مزید کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم جنگ بند کرنے کے لیے ازسرنو کوشش کریں۔
۔۔۔۔
توقع تو یہ نہ تھی فلسطینیوں کو عالم اسلام کے پیشوا کہلوانے والے مبینہ خادمین حرمین شریفین، ناکارہ اور بے فائدہ موقف اپنانے کی، توقع تو حمایت کی تھی مگر سعودیوں کا بیان اور کسی دورافتادہ غیر جانبدار چھوٹی سی ریاست کے بیان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ توقع تھی کہ غزہ اور فلسطین کا پرچم خادمین حرمین کہلوانے والے اٹھا لیں مگر۔۔۔۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ابو جہل اور ابو لہب زندہ ہوتے تو ان کا کردار آج کے عربوں یعنی عرب مسلمانوں، نیز غیر عرب مسلمانوں سے بہتر ہوتا، کم از کم اس لئے کہ ان میں عروبت کی حمیت تو تھی مگر ان میں نہ عربی حمیت ہے اور نہ ہی اسلامی غیرت۔
مثال کے طور پر:
یہی نہیں بلکہ سعودی ولی عہد نخادم الحرمین کا ٹائٹل رکھنے پر "خدا کا شکر" ادا کر رہے ہیں اور اسی اثناء میں انہیں ـ فلسطینیوں کے غموں میں شریک ہوئے بغیر اور ان کی کسی قسم کی حمایت بغیر، اور اسرائیل کو مالی اور غذائی امداد فراہمی کے حوالے سے امارات اور اردن سے تعاون کے باوجود، ـ غاصب ریاست کے ساتھ [اعلانیہ] تعلقات قائم کرنے کا غم کھائے جا رہا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ "مسئلہ فلسطین حل ہونے تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے"، حالانکہ ان کے اسرائیلی دوست فلسطین کا نام سننے کے لئے تیار نہيں ہیں۔
انہوں نے نام نہاد سعودی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ:
"ہم فلسطینی عوام کیساتھ کھڑے ہیں"،
فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کی پرزور مذمت کرتے ہیں،
اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو فوری طور پر حل کیا جائے!!!
انہوں نے یہ نہیں کہا اور کسی نے اس سلسلے میں پوچھنے کی جرات بھی نہیں کی کہ وہ بطور سعودی ولیعہد اور ان کے والد بطور سعودی بادشاہ اور ان کی ریاست بطور عرب ریاست فلسطین اور غزہ کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ
"مسئلہ فلسطین حل ہونے تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے،
ہم دو ریاستی منصوبے کے حل کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں اس پر عمل درآمد سے فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم ہوگا اور خطے میں امن قائم ہوگا۔
وہ البتہ خادم الحرمین کہلوانا نہیں بھولے اور کہا: "ہم بطور خادم حرمین شریفین وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔۔۔"۔۔۔۔۔
110
