سوشل میڈیا نے ضابطہ اخلاق
کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے اور جس کو جو بھی لکھنا آتا ہے لکھ دیتا ہے، وہ بھی
لکھ دیتے ہیں جو اگر کسی کتاب اور مکتوبہ جرائد میں کچھ لکھ لیں تو شاید انہیں
عدالت سے سزا ہوجائے، لیکن یہاں نہ تو کوئی قدغن ہے اور نہ ہی کوئی پولیس اور قاضی
ہے، اور پیچھے سے کچھ لوگ کچھ چیزوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز
سے کچھ سمتیں بھی متعین کرتے ہیں، تو کم از کم اس کے آثار ہمیں ابھی تک دکھائی نہیں
دیئے ہیں۔
مؤمنین کے درمیان تنازعات کھڑے کرنے کے لئے مختلف قسم کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں؛ اور بڑی ہوشیاری سے تمام فریقوں کے مشترکہ مقدسات کی بے حرمتی کرتے اور کراتے ہیں؛ جن میں سے ایک یہ موضوع بھی ہے کہ “کیا ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) کے سوا کسی اور کو امام کہنا جائز ہے؟ چنانچہ راقم الحروف نے یہاں کچھ جملے تحریر کئے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں اور ضد اور ہٹ دھرمیوں سے محفوظ اور علم و دانش کے کے خواہاں ہیں وہ اس حوالے سے علم و دانش کے ہتھیار سے لیس ہو جائیں اور شبہات کو جواب دے سکیں۔
لفظ امام
لفظ امام دو صورتوں میں استعمال ہوتا ہے:
1۔ عام: جیسے امام جمعہ، امام جماعت، امام مسجد وغیرہ
2۔ خاص: جیسے امام علی، امام حسن، امام حسین، امام زین العابدین علی بن الحسین، امام محمد باقر، امام جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم، امام علی بن موسیٰ الرضا، امام محمد تقی الجواد، امام علی نقی الہادی، امام حسن عسکری اور امام مہدی حجت بن الحسن (علیہم السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی حضرت ابراہیم خلیل الرحمان (علیہ السلام) کی طرح امام ہیں خاص معنوں میں۔
جو حضرات اہل بیت (علیہم السلام) کے سوا کسی کے لئے امام کے لفظ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے ان کی مراد دوسری قسم کی امامت ہے جو مطلقا ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے لئے مختص ہے؛ کیونکہ پہلی قسم کی امامت کی نسبت دوسروں کو دینا، جائز ہے اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔
مراجع تقلید کو بھی امام کہا جاتا ہے اور عربی میں تو یہ بالکل عام سی بات ہے جیسے امام محسن امین العاملی، امام سید عبدالحسین شرف الدین، امام سید محمد حسن شیرازی، امام کاشف الغطاء، امام خوئی، امام خمینی، امام خامنہ ای، امام سیستانی وغیرہ۔
کچھ لوگ تو امامت کو دونوں صورتوں میں سب کے لئے استعمال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ہمارے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جنہیں پڑھیں گے تو پشیمان نہ ہونگے:
زیارت جامعہ سے ہی سے رجوع کرتے ہیں جو امام شناسی کا مکمل کورس ہے:
1۔ ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
“الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللّازِمُ لَهُمْ لاحِقٌ؛ [1]
جو ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے قدم آگے بڑھائیں وہ مارقین یعنی اطاعت حق سے خارج ہونے والے اور امام واجب الاطاعہ کی اطاعت چھوڑ دینے والے ہیں، [2] جو آپ سے پیچھے رہیں وہ ایک دم نیست و نابود ہو جانے والے ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ چلیں وہ لاحقین اور آپ سے آملنے والے اطاعت گذار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
“وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ؛ [3]
جو رسول عطا کریں اسے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آؤ، اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ سخت سزا والا ہے"۔
اور ہمارا ایمان ہے کہ کلام اللہ حق ہے، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ طاہرین خدا کے اولیاء (علیہم السلام)، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلفاء اور جانشین ہیں، چنانچہ جو وہ عطا کریں ہمیں لینا پڑے گا اور جو حکم دیں گے تعمیل کرنا پڑے گی اور جس چیز سے روکیں گے، باز آنا پڑے گا بصورت دیگر ناکثین، قاسطین اور مارقین کے زمرے میں شمار ہونگے۔
ارشاد رب متعال ہے:
"وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ؛ [4]
اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں روئے زمین پر دبایا [یا پیسا] گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو آخر میں قابض و متصرف بنائیں"۔
نیز خداوند متعال نے مختلف لوگوں کو امام اور ائمہ کے نام سے یاد کیا ہے:
لفظ امام:
"فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ؛ [5]
تو ہم نے ان (اصحاب ایکہ) سے بدلہ لیا اور یہ دونوں امام مبین (بمعنی شاہراہ عام) پر ہیں جو نمایاں ہے"۔
"يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ؛ [6]
اس دن ہم ہر دور کے لوگوں کو ان کے امام (بمعنی پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے"۔
"وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً؛ [7]
اور اس کے پہلے موسیٰ کی کتاب امام (بمعنی پیش رو) اور رحمت بن کر آئی تھی"۔
"وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا؛ [8]
اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار، ہمیں ہماری زوجات سے آنکھوں کی روشنی عطا فرما اور ہمیں پرہيزگاروں کا پیشوا اور امام قرار دے"۔
لفظ ائمہ:
"وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ؛ [9]
اور اگر وہ اپنی قسموں کو اپنے عہدو پیمان کے بعد توڑ دیں اور تمہارے دین پر طعن و تشنیع کریں تو "ائمۂ کفر" (یعنی کفر کے ان سرغنوں) سے جنگ کرو"۔
"وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ؛ [10]
اور انہیں ہم نے قرار دیا ایسے امام (بمعنی عمائدین) جو [دوزخ کی] آگ کی طرف بلاتے تھے؛ اور قیامت میں ان کی مدد نہ ہو گی"۔
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ؛ [11]
اور ان میں [بنی اسرائیل] سے ہم نے کچھ امام (بمعنی پیشوا و راہنما) قرار دیئے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں جب کہ انہوں نے صبر سے کام لیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے"۔
احادیث شریفہ میں بھی امام کا لفظ مختلف لوگوں کے لئے استعمال ہؤا ہے مثبت عنوان سے بھی اور منفی عنوان سے بھی:
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
"مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ وَمُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَمُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَمُؤَدِّبِهِمْ؛ [12]
جس نے اپنے آپ کو لوگوں کا امام مقرر کیا وہ دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے آپ کو تعلیم دے اور اپنی ذات اور روح کی تعمیر کرے اور زبان کے ذریعے سکھانے سے قبل اپنے کردار سے لوگوں کو تعلیم دے؛ کیونکہ جو اپنے آپ کو تعلیم دے اور ادب سکھائے، کوئی بھی اس شخص سے زیادہ اجلال و تعظیم کا لائق ہے، جو دوسروں کو تعلیم دیتا اور ادب سکھاتا ہے”۔
امام سجاد (علیہ السلام) رسالۂ حقوق میں ائمۂ [یعنی] حکام اور راہنماؤں کے حقوق بیان کرتے ہوئے، فرماتے ہیں:
“فَحُقُوقُ أَئِمّتِكَ ثَلَاثَةٌ أَوْجَبُهَا عَلَيْكَ حَقّ سَائِسِكَ بِالسّلْطَانِ ثُمّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ ثُمّ حَقّ سَائِسِكَ بِالْمِلْكِ وَ كُلّ سَائِسٍ إِمَامٌ؛
آپ کے ائمہ (حکام اور راہنماؤں) کے حقوق کی تین قسمیں ہیں: سب سے زیادہ واجب حق تم پر اس شخص کا ہے جو طاقت (اور شرعی صلاحیت) کے ذریعے تمہارے معاملات کا انتظام و انصرام کرتا ہے؛ بعدازاں اس شخص کا حق جو علم آموزی کے ذریعے تمہاری پرورش کرتا ہے؛ اور پھر اس کا حق جو حکومت و مملکت میں تیرا امام (و پیشوا) ہے اور 'ہر راہنما اور سرپرست امام ہے'۔"
چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی بہت ساری حدثیوں میں لفظ "امام" بصورت عام دوسروں کے لئے استعمال ہؤا ہے۔ اور اس لفظ کے دوسروں کے لئے استعمال سے 12 ائمۂ طاہرین (علیہ السلام) کی امامت خاصہ کو کوئی گزند نہیں پہنچتی۔
اس بحث کا نتیجہ:
آیات کریمہ میں اچھے اماموں اور برے اماموں کا تذکرہ گذرا؛ ایک آیت میں ارشاد ہؤا ہے کہ اللہ مستضعفین کو امام بنائے گا، اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو اپنے آپ کو لوگوں کا امام قرار دے، تو اسے ذاتی تعلیم اور تربیت کو مقدم رکھنا چاہئے اور امام سجاد (علیہ السلام) نے ہر سرپرست کو امام قرار دیا تو اب میں کون ہوں اور میری اوقات کیا ہے کہ یہ کہتا پھروں کہ لفظ امام کا استعمال غیر معصوم کے لئے جائز نہیں ہے! لگتا ہے کہ اگر ہم اپنی طرف سے معصوم کے احکامات کو نظرانداز کریں تو ممکن ہے کہ مارق اور زاہق کا مصداق ٹہریں جیسا کہ امام علی نقی الہادی (علیہ السلام) نے زیارت جامعہ میں فرمایا ہے:
"المُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالمُتَأَخِرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ؛
ان سے آگے نکلنے والا دین سے خارج اور ان سے پیچھے رہنے والا نیست و نابود ہونے والا ہے”۔
1- کسی بھی شیعہ مصدر و ماخذ میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ ائمۂ اہل بیت (علیہم السلام) نے اپنے سوا کسی اور کے لئے لفظ امام کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔
2۔ قدیم علماء کی روایت تھی کہ بطور مثال ان کے رسالوں کی جلد پر لکھا ہوتا تھا: “الامام”؛ جیسے الامام سید محمد حسن شیرازی، الامام سید ابوالقاسم خوئی، وغیرہ۔
3۔ جیسا کہ عرض ہؤا، قرآن کریم میں ائمہ کے مصادیق مختلف ہیں۔
چنانچہ ہمارے بارہ امام "بطور خاص" امام ہیں، لیکن ابراہیم (علیہ السلام) بھی امام ہیں، حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی امام ہیں، بنی اسرائیل کے پیغمبر بھی امام ہیں جو اللہ کے حکم پر لوگوں کی ہدایت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بھی رتبہ امامت حاصل ہے جو ملکوتی اور معنوی امامت ہے جس کے لئے جداگانہ تحقیق کی ضرورت ہے۔
4۔ اہل سنت اپنے مجتہدین اور محدثین کو امام کہتے ہیں جیسے:
* نعمان بن ثابت = امام ابو حنیفہ؛
* محمد بن ادریس شافعی = امام شافعی؛
* احمد بن حنبل شیبانی = امام احمد؛
* مالک بن انس اصبحی؛ امام مالک
* محمد بن اسماعیل بخاری = امام بخاری؛
* مسلم بن حجاج فشیری نیسابوری = امام مسلم وغیرہ۔
ہم امام جماعت، امام جمعہ، نماز عید کے امام، مسجد کے امام یا پیش امام کو بے دھڑک امام کہہ دیتے ہیں لیکن اگر کہیں کہ امام خمینی یا امام خامنہ ای کا نام نظر آئے تنگ نظری کے امام، فوری طور پر فتویٰ تو جھاڑتے اور مخالف موقف اپناتے ہیں۔
چنانچہ انصاف سے کام لینا چاہئے، اپنے جسم پر اور اپنے مکتب کے پیکر مظلوم پر اتنے زخم نہیں لگانا چاہئے، جبکہ مکتب کو فکری، علمی میدانوں میں بھی اور حتیٰ کہ میدان جنگ میں بھی دشمنوں اور مخالفین کا سامنا ہے، اور ہم بےخبری میں تمام تر مسائل اور اختلافات کو مکتب کے اندر دھکیل دیتے ہیں، اس سے فائدہ کس کو ملتا ہے؟ کیا مکتب تشیع مظلوم نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا ہم خود اس پر ظلم نہيں کررہے ہیں؟
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو لوگ امام خمینی اور امام خامنہ ای کو امام کہتے ہیں وہی لوگ اس وقت اگلے مورچوں میں مقدسات کے دفاع میں مصروف ہیں اور جان کا نذرانہ پیش کررہے ہیں اور ایسے افراد جو لفظ امام کے اطلاق پر منفی رد عمل ظاہر کرتے ہیں کہیں بھی مقدسات کے دفاع کے میدان میں دور دور تک نہیں دکھائی دے رہے ہیں، اور فلسطین اور غزہ کے مسئلے میں، بھی امامین انقلاب کے پیروکار اگلے مورچوں میں موجود ہیں جبکہ مخالفین اس میدان میں بھی کہیں نظر نہیں آتے ہیں! بلکہ کبھی ان کا موقف غاصب اسرائیلی ریاست کے موقف کے عین مطابق ہوتا ہے۔
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) اس زمانے میں پوری امت کے علمدار ہیں، اور شیعہ اور سنی نوجوان دنیا کے گوشوں گوشوں سے آکر آپ کے فرمان پر مقدسات اسلامی کے تحفظ کے لئے جانیں نچھاور کررہے ہیں۔
سوال : کیا واقعی امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اور امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے پیروکار انتہا پسند ہیں؟ کیا وہ انہیں امام معصوم کے برابر سمجھتے ہيں؟
جواب: ہرگز نہیں؛ مغربی اور ماسونی اصطلاح میں ہر اس شخص کو انتہا پسند مسلمان کہا جاتا ہے جو دین اسلام کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اور اسلام کے تمام احکام اور تعلیمات کے عملی نفاذ کے قائل ہیں؛ وہ جو قرآن کی تمام تعلیمات اور تمام آیات کی پابندی کے قائل ہیں، وہی جو ظلم کے خلاف جہاد کے قائل ہیں اور استکباری اور یہودی سازشوں اور ان کی یلغار کا سد باب کرنے کے قائل ہیں، جو مغربی منصوبوں کی پیروی کے بجائے خود سوچنے اور منصوبہ سازی کرنے اور اپنی تہذیب کے مطابق اپنی قوم کے امور کے انتظام کے قائل ہیں۔ چنانچہ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اور امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے پیروکار اتفاق سے اسی طرز فکر کے حامل اور قرآن کے مکمل نفاذ کے قائل ہیں اور اس راہ میں تمام مسلمانوں کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے رہے ہیں۔ وہ پورے قرآن کے قائل ہونے کے ناطے اتحاد مسلمین کے داعی ہیں۔
خدائے متعال نے یہودیوں سے ارشاد فرمایا:
“أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ؛ [13]
تو کیا تم کتاب کے کسی جزو کو تو مانتے ہو اور کسی جزو سے انکار کرتے ہو؟”۔
یا پھر ارشاد ہوتا ہے:
“إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُواْ بَيْنَ اللّهِ وَرُسُلِهِ وَيقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُواْ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً؛ [14]
بلاشبہ وہ جو اللہ اور اس کے پیغمبر کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبروں میں تفریق کرناچاہتے ہیں کہ ہم کچھ پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بیچ میں ایک راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں”۔
چنانچہ اگر ان بزرگواروں کے پیروکار پورے قرآن کو مانتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں تو وہ درحقیقت اللہ کے سچے بندے ہیں اور پھر وہ میدان میں جاکر جان ہتھیلی پر رکھ کر عملی صورت میں بھی جہاد اور تقابل کی آیات کو نافذ کرتے ہیں۔
لہٰذا پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انتہا پسندی یہی ہے تو یہ باعث فخر ہے ایک مسلمان کے لئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو حتیٰ کہ امام معصوم کو معصوم کہنے اور ان کے لئے “علیہ السلام” کہنے کے مخالف ہیں اور حتیٰ کہ ان کے مشاہد شریفہ کی زیارت اور ان سے طلب شفاعت کو حرام سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے ایسے بھی لوگ ہیں جو غلو اور زیادہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں جن کی مثال ہمارے اس مضمون کا موضوع بھی، ہے تو کیا ہمیں غلو سے بچنے کے لئے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے فضائل بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے؟
اور اگر آج اگر ہمیں ان علمداران امت کو امام کہنے کی بنا پر غلو اور انتہاپسندی کا ملزم ٹہرایا جائے تو کیا ہمیں ان کی شخصیات اور کارناموں کی تشہیر سے پرہیز کرنا چاہئے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم غلو کے الزام کے خوف سے ائمہ اہل البیت (علیہ السلام) کے فضائل بیان کرنا ترک کردیں، تو منکرین کی صف میں شمار ہونگے؟ تو کیا ان کے منکرین کا حال غالیوں سے بہتر ہوگا “روز قیامت”، جبکہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
“يَهْلِكُ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَبَاهِتٌ مُفْتَرٍ؛
(قال السيد الرضي:) وَهذا مثل قوله (عليه السلام): هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَمُبْغِضٌ قَالٍ؛ [15]
میری نسبت دو قسم کے لوگ ہلاک ہونگے وہ جو دوستی میں زیادہ روی کرتے اور اپنی حد سے بڑھ جاتے ہیں اور وہ جو جھوٹے اور بہتان تراش ہیں۔
(سید رضی (رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں کہ یہ امام کے اس ارشاد کی مانند ہے کہ) دو قسم کے لوگ میری نسبت ہلاک اور نیست و نابود ہونگے: وہ جو محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور وہ جو وہ دشمنی کرنے والے بیہودہ گوئی والے ہیں ہیں”۔
یقینا آج تک اس راقم کو کوئی شخص نظر نہیں آیا
جو امام خمینی یا امام خامنہ ای کو امام کے عنوان سے یاد کرے اور اس کا مقصد یہ ہو
کہ وہ (معاذاللہ) امام معصوم (علیہ السلام) کے ہم پلہ ہیں یا امام معصوم اور امام
زمانہ (عَجَّلَ اللہُ تعالىٰ فَرَجَہُ الشَّرِیف) کے مد مقابل ہیں؛ حقیقت تو یہ
ہے کہ یہ نائبین امام زمانہ ہیں اور یہ عقیدہ اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین کے
عین مطابق ہے؛ جبکہ معترضین ائمۂ معصومین (علیہ السلام) سے آگے بڑھ کر یا پیچھے رہ
کر مارقین و زاہقین کے زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں؛ جو کہ افسوسناک امر ہے اور ہمیں
اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے۔
کم علمی عیب نہیں ہے، لیکن کم علمی کے سامنے اگر صاحبان علم اپنی ذمہ داری پر عمل نہ کریں، یعنی اپنی دانش ظاہر نہ کریں اور کم علموں کو نہ سمجھائیں تو یہ (کم علمی) انتہاپسندی، زیادہ روی اور تشدد و تکفیر پر منتج ہوسکتی ہے۔ علماء اور اہل دانش کی ذمہ داری جہل، نادانی اور زیادہ روی کا ازالہ کرنا ہے نہ کہ اہل حق کو حق چھوڑنے کی نصیحتیں شروع کریں: امام حسین (علیہ السلام) کے مدینہ سے مکہ روانہ ہوتے اور مکہ سے عراق روانہ ہوتے وقت ایسے بہت سوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی ذمہ داری امام کا ساتھ دینا تھی لیکن انہوں نے ساتھ دینے کے بجائے امام حسین (علیہ لسلام) کو نصیحت کرنا شروع کر دی کہ آپؑ عراق نہ جائیں و۔۔۔ اور انہیں یہاں تک کا بھی ادراک نہ تھا کہ امام کو مشورہ نہیں دیا جاتا بلکہ امام کی تو بس اطاعت ہوتی ہے۔
ہدایت چاہتے ہیں اللہ کی، رسول اور آل رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صدقے، کہ ہم اپنا اور اپنے مؤمن بھائیوں کا وقت اور سرمایہ کم علمی سے جنم لینے والے اعتراضات پر صرف کرنے کے بجائے اپنی دانش میں اضافہ کریں، دشمن کو پہچان لیں، اس کی چالوں کو پہچان لیں اور سوچ لیں کہ کیا مؤمنین کے درمیان اس جیسی کوئی بھی بحث چھیڑنے میں کہیں کسی دشمن کا ہاتھ تو نہیں ہے! الٰہی آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواله جات
[1]۔ مفاتیح الجنان، زیارت جامعۂ کبیرہ۔
[2]۔ جنگ نہروان کے خوارج کو مارقین کہا جاتا ہے۔
[3]۔ سورہ حشر، آیت 7۔
[4]۔ سورہ قصص، آیت 5۔
[5]۔ سورہ حجر، آیت 79۔
[6]. سورہ اسراء، آیت 71۔
[7]۔ سورہ احقاف، آیت 12۔
[8]۔ سورہ فرقان، آیت 74۔
[9]۔ سورہ توبہ، آیت 12۔
[10]۔ سورہ قصص، سورہ 41۔
[11]۔ سورہ سجدہ، آیت 24۔
[12]۔ نہج البلاغہ، حکمت 73۔
[13]۔ سورہ بقرہ، آیت 85۔
[14]۔ سورہ نساء، آیت 150۔
[15]۔ نہج البلاغہ، حکمت 459۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110