سیدالشہداء (علیہ السلام) کے اصحاب کی
خصوصیات میں سے ایک "دشمن کو درست دیکھنے کا ہنر" ہے۔ یہی الٰہی
بصیرت تھی جس نے انہیں امام حق اور اپنے زمانے کے ولی کی اطاعت کی طارف راغب کیا،
کہ وہ حق اور باطل کی تمیز کی صلاحیت کے مالک بن گئے تھے اور انہوں نے خالص محمدی
اسلام سے ہٹ کر رواج پانے والے فکری دھاروں کو پہچان لیا تھا۔
1۔ انس بن حرث کاہلی، 80 سالہ معمر صحابی رسول(ص) تھے، جو بدر و حنین کے غزوات میں بھی شرکت کر چکے تھے، اور کربلا میں، فرزند رسول(ص) کے رکاب میں لڑنے کی توفیق بھی حاصل کر چکے۔ مروی ہے کہ جب امام حسین (علیہ السلام) نے جنگ کا اذن دیا تو انھوں نے آنکھوں پر لٹکے ہوئے سفید بھوؤں کو ایک رومال سے اپنی پیشانی پر باندھ لیا تاکہ "دشمن کو درست دیکھ لیں"، اور تلوار کو دشمن کے بجائے اپنوں کے سر پر نہ اتاریں۔
2۔ ان کا پیغام اور زبان حال یہی ہے کہ تم غفلت اور عدم بصیرت کے بھؤوں کو آنکھوں سے اٹھا لو، تاکہ حق کو درست سکو، دشمن کو بھی درست دیکھ سکو؛ اور بچ سکو اس سے کہ کہیں کسی منصب پر براجماں افراد کے غلط اعمال کے لئے جواز نہ ڈھونڈو، اور خالص اسلام کے مد مقابل نہ آؤ؛ انقلاب حسینی سے ہٹ کر آگے بڑھنے والوں کی حمایت نہ کرو؛ اسلام کے بدترین دشمن (1) کو پہچان سکو اور جان کر یا انجانے میں اس کی صف میں کھڑے ہونے سے باز رہو۔
3۔ بے شک اگر ہم غفلت کے بھوؤں کو پیشانی پر نہ باندھیں، اور بصیرت کے ساتھ آگے نہ بڑھیں، اپنے مثبت پس منظر کے باوجود، ممکن ہے کہ، اسلام اور امام حسین (علیہ السلام) کے دشمنوں کے صفوں میں شامل ہو جائیں اور اپنی تلوار کو حق و حقیقت کی جبین پر اتار دیں۔ تاریخ نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابتدائی طور پر امیرالمؤمنین اور سیدہ فاطمہ زہراء (علیہما السلام) کے جان فدا حامی تھے، لیکن خلافت علویہ کے آغاز میں ہی پرچم بغاوت بلند کرکے جمل جیسے واقعات کا باعث بن گئے۔
4۔ معاویہ بن ابی سفیان اور پھر یزید بن معاویہ کے زمانے میں زور دیا جاتا تھا کہ لوگ قرآن کی تلاوت کریں اور خیال رکھیں کہ تلاوت قرآن ترک نہ ہونے پائے لیکن امیرالمؤمنین، حسن مجتبیٰ اور سیدالشہداء (علیہم السلام) ـ جو قرآن ناطق تھے ـ کے ساتھ اعلانیہ دشمنی کی جاتی تھی۔ واقعۂ سقیفہ بنی ساعدہ کی روشنی میں بننے والے اسی ماحول میں قرآن ناطق کے نسخوں کو یکے بعد دیگرے شہید کیا گیا؛ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو [بظاہر] خوارج نے، امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کو معاویہ نے اور امام حسین (علیہ السلام) کو یزید نے شہید کیا۔ قرآن مجسم کے نسخوں کو شہید کیا گیا، اور شاید امام حسین (علیہ السلام) کے سر مبارک کے سر نیزہ تلاوت قرآن کا واقعہ ـ ناقابل انکار ہے ـ اسی حقیقت کی تفہیم و اثبات کے لئے تھا؛ جب آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:
"أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحٰابَ اَلْكَهْفِ وَ اَلرَّقِيمِ كٰانُوا مِنْ آيٰاتِنٰا عَجَباً؛
کیا تم سمجھتے ہو کہ اصحاب کہف و رقیم ہماری نشانیوں میں سے کوئی بڑی انوکھی چیز تھے؟"۔ (سورہ کہف، آیت 9)
شاید نیزے کی نوک سے فرزند رسول(ص) کی اس تلاوت کا راز یہی تھا کہ اے قرآن خوانو! تم اس قدر غفلت کے بھنور میں ڈوب گئے ہو کہ قرآن ناطق شہید ہؤا اور تمہیں سمجھنے کی توفیق نہ ہوئی۔
سوال: ایسی تلاوت قرآن، جس کے ساتھ شرابی یزید کے حاشیہ نشین بننے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ ہو، کیسی تلاوت ہے؟
عصر حاضر میں بھی یہ قاعدہ جاری و ساری ہے، قرآن کی بہت عمدہ تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے جرائم پیشہ یزیدوں ـ امریکہ اور یہودی ریاست اور ان کی مغربی حاشیہ برداروں کے ساتھ ـ سازباز کرنا، یہ سب کیونکر ممکن ہے، یہ کس قسم کی تلاوت ہے جو انسان کو صحیح اور غلط تک کی پہچان میں مدد نہ دے، کیا قرآن کی تلاوت کرکے حسین (علیہ السلام) کے قتل میں شرکت کرنے والوں، حسین کی شہادت پر پسندیدگی کا اظہار کرنے والوں اور زمانے یزیدوں کے حاشیہ نشین بننے والے والوں کو سب سے پہلے اس حدیث شریفہ پر غور نہیں کرنا جانا چاہئے: " رُبَّ تالٍ لِلقُرآنِ وَالقُرآنُ يَلْعَنُهُ؛ ایسے بہت ہوتے ہیں جو قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے"۔
کیا بصیرت نہ ہونے کی صورت میں تلاوت قرآن وسیلۂ نجات بن سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب خود تلاش کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ دیکھئے: سورہ مائدہ، آیت 82۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110