اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں آپ کی ملاقات کے لئے آنے والے مشرقی آذربائی جان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: "امریکہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے مرحلے سے گذر رہا ہے اور آرائش و زیبائش کے ذریعے شاندار دکھانے کی کوشش کررہا ہے"
مذکورہ بالا قول حقیقت کے عین مطابق ہے جو کبھی کبھی کروڑوں امریکیوں کو درپیش غربت، بھوک اور افلاس کی شرحوں کے بیچ سے اپنے آپ کو نمایاں کرتی ہے۔ امریکہ میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو اس قدر کھاتے اور چرتے ہیں کہ ان کا دم گھٹنے لگتا ہے اور بہت عظیم آبادی ایسی ہے جس کو شدید غربت و افلاس کا سامنا ہے، نہ روٹی، نہ مکان اور نہ ہی کپڑا۔
فوکویاما جاپانی نژاد برطانوی اور پھر امریکی فلاسفر اور سیاسی معیشت کے ماہر ہیں جنہوں نے امریکہ کے سلامتی ادارے کے لئے بڑے عرصے تک کام کیا ہے، امریکی وزارت جنگ سے وابستہ کمپنی رینڈ کے عسکری تجزیہ نگار ہیں جن کی وجۂ شہرت کتاب "تاریخ کا اختتام اور آخری انسان" ہے جو انھوں نے 30 برس پہلے لکھی تھی۔ انھوں نے اس کتاب میں دنیا بھر کے تمام عقائد و نظریات کو رد کردیا اور آج کے انسان کی غایت و مقصد کو لبرلزم تک پہنچنا قرار دیا جو ان کے بقول بنی نوع انسان کی ترقی اور پیشرفت کا سبب ہے، لیکن وہ بظاہر عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ اس نتیجے پر پہنچے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے تھے وہ نہ صرف درست نہيں ہے بلکہ ناقابل عمل بھی ہے بس امریکہ کی اس وقت کی طاقت کو دیکھ کر گویا جذباتیت میں کچھ لکھ چکے تھے جو اب باطل ہوچکا ہے چنانچہ دو سال قبل انھوں نے "شناخت: وقار کا مطالبہ اور آزردگی کی سیاست" (Identity: The demand for Dignity and the Politics of Resentment) نامی کتاب لکھ ڈالی جو 2018ع میں شائع ہوئی اور اس میں انھوں نے اپنے نظریات پر نظر ثانی کرتے ہوئے لبرلزم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہہ دیا کہ ٹرمپزم اور انتہاپسند دائیں بازو کی حکمرانی کا ظہور پذیر ہونا یورپ میں موجود لبرل سوچ کے پاسداروں کے لئے مصیبت کا سبب بنا ہوا ہے۔
فوکویاما کا خیال تھا کہ کمیونزم اور سوشلزم کے زوال کے بعد، لبرل جمہوریت کے لئے ایک عالمی اجماع معرض وجود میں آئے گا اور یہ اجماع تمام عقائد و نظریات کی تاریخ کی اختتام پذیری اور لبرل نظریئے کی فوقیت کے مترادف ہوگا۔
فوکویاما کے استاد اور "تہذیبوں کی جنگ" کے مصنف سیموئل ہنٹنگٹن ان کے نظریئے کو غلط سمجھتے تھے اور انہیں ان کی غلطیوں کی یاددہانیاں کرواتے تھے۔ جب روس نے پیوٹن کے ساتھ تیسرے ہزارے (3rd millennium) میں قدم رکھا، چین نے معیشت کے میدان میں حیرت انگیزیاں دکھانا شروع کردیں، امریکہ نے افغانستان اور عراق کو جارحیت کا نشانہ بنایا، یہودی ریاست کی مسلسلسل شکستوں کا آغاز ہوا اور اسلامی بیداری کی تحریکوں نے سر اٹھانا شروع کیا تو فوکویاما کی خوش فہمیوں کو درہم برہم کردیا۔ اس وقت وہ امریکی سیاست میں بش اور کلنٹن خاندانوں کی ظہور پذیری کو امریکی سیاسی زوال کی ایک بڑی نشانی سمجھتے ہیں اور خبردار کررہے ہیں کہ جو سلسلہ ان دو خاندانوں سے شروع ہوا ہے وہ آخرکار امریکی عوام کی مایوسی پر منتج ہوگی۔
اس کی پیش گوئی درست تھی، ٹرمپ شمال مشرقی دانشوروں اور جنوبی عوامِيَت پسَندوں کے دیرینہ تنازعے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکی رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ نے فوکویاما کی پیش گوئی کو سمجھ لیا۔ انھوں نے اعلانیہ طور پر ٹرمپ کی ظہور پذیری کو امریکی سیاسی زوال کا ثمرہ قرار دیا۔ وہ اپنی کتاب "شناخت: وقار کا مطالبہ اور آزردگی کی سیاست" عوامیت پسندانہ قوم پرستی، استبدادیت، دینی تنازعات، جمہوریت کے انحطاط اور تشخص کے بحران کی خبر دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ صف بندی"تشخص" کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے اور اس تشخص کی حقیقت ثقافتی ہے۔ تشخص کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بہت وسیع ہوچکا ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات اور مہمات کی جڑ بن چکا ہے۔
ان لوگوں کے نام پر سیاست بازی ـ جن کے "تشخص" نظر انداز کیا گیا ہے یا ان پر ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے، ـ سکہ رائج الوقت ہے۔ امریکہ ہر اس ملک اور ہر اس قوم سے خائف ہے دکھائی دینا چاہتی ہے یا چاہتی ہے کہ دنیا اسے تسلیم کرے۔ فوکویاما سمجھتے ہیں کہ لبرل نظام آج شناختی خلاء کا شکار ہے اور یہ نظام مزید کسی طرز زندگی اور اسلوب حیات کی ترویج نہیں کرتا۔
فوکویاما کو یہ سمجھنے میں 30 سال کا عرصہ لگا کہ خوش فہمی کا دور ختم ہوچکا ہے اور دنیا میں یک قطبی نظام (Unipolar system) کے لئے قصیدہ سرائی سیاسی ہذیان گوئی ہے۔ چنانچہ استکبار کی انتہائی طاقت کے نشے سے سرشار ہوکر لبرلزم کی مطلق حکمرانی کی خوشخبریاں سنانے والے فرانسس فوکویاما آج خوتنقیدی (Self-criticism) کی وادی میں بھٹک رہے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد لاکھوں کروڑوں انسانوں کو لبرل جمہوریت کے بھینٹ چڑھاکر قتل و غارت اور غربت و افلاس کا نشانہ بنانے کے اس طویل عرصے کے بعد، اس ناکام سیاسی فلسفے کے دانشوروں اور مفکرین آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں کہ لبرل جمہوریت کو طاقت کے استعمال اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر کسی بھی معاشرے پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور اس کے شرکائے کار کا انجام اور ملت ایران کے خلاف ان ظالمانہ، دہشت گردانہ اور غنڈہ گردانہ سیاسی اور معاشی پابندیوں کا انجام بھی، سب نے دیکھ لیا اور واضح ہوا کہ لبرلزم کے زوال پذیر تصور مسلط کرنے کی سوچ شکست کا حتمی انجام شکست کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس تصور کو شناختی فکرمندی (Identity concern) اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بننے والے علاقوں کے عوام کے تشخص اور [اور انہیں تسلیم کئے جانے] جیسے تصورات کے ساتھ جمع نہیں کیا جاسکتا۔
امریکہ یہ دکھانے کے لئے ـ کہ ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہے ـ مسلسل ہار سنگھار اور اپنے آپ کو سجا دھجا کر پیش کرتا ہے۔ عین الاسد کے امریکی اڈے پر ایران کے میزائل حملے نے ثابت کردیا کہ چچا سام کی عسکری طاقت زوال پذیر ہوچکی ہے اور اس میں مزید کوئی سکت نہیں رہی۔ سیاست اور حکمرانی کے میدان میں بھی کم ہی کوئی امریکی دانشور ہوگا جو اس بات کو تسلیم کرسکے کہ واشنگٹن کی صورت حال قابل قبول اور لبرل نظام کی اقدار کے موافق ہے۔ اس سال کی میونخ کی سالانہ کانفرنس میں، ـ جو مغرب میں طاقت کی فکری، سیاسی اور عسکری فکرمندیوں کی نگرانی کرتی ہے ـ زیادہ تر تقاریر "مغرب کا زوال" سے مختص کی گئی تھیں۔ اس کانفرنس میں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی تھی جن کی اکثریت گویا ابھی تک مغربی دانشوروں کی خود تنقیدی اور مغرب کے اعتراف زوال کا یقین نہیں آیا، جبکہ وہ بھی اس موضوع پر بحث اور خطاب کرسکتے تھے مگر شاید انہیں مغربیوں کی باتیں بھی ہضم کرنا مشکل ہورہی تھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں آپ کی ملاقات کے لئے آنے والے مشرقی آذربائی جان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: "امریکہ جو مغرب میں طاقت کی علامت ہے، دنیا کا مقروض ترین ملک ہے؛ اس ملک کے 80 فیصد مزدور شدیدترین غربت میں مبتلا ہیں اور ان کی تنخواہ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل نہیں کرتی۔ وہاں طبقاتی فاصلہ (social gap) ہولناک ہے۔ ٹرمپ کے زمانے میں وائٹ ہاؤس کا دعوی ہے کہ حالات بہتر ہوئے ہیں، [یہ بات صحیح ہے] لیکن عوام کے لئے نہیں بلکہ امریکی ارب پتیوں کے لئے۔ امریکہ میں جرائم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔ جلدی یا بہ دیر، امریکہ اندر یا باہر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے۔ جو لوگ سوچ رہے ہیں کہ وہ امریکیوں کی دیوار پر یادگاری لکھ سکتے ہیں، بہت غلطی پر ہیں۔ امریکہ بہت جلد اپنی بساط مغربی ایشیا سے لپیٹ کر جانے والا ہے۔ بدبخت وہ ممالک ہیں جو واشنگٹن سے لٹکے ہوئے ہیں۔ وہ عنقریب سمجھ لیں گے کہ اللہ کی تقدیر اور اقوام کے عزم و ارادے کا راستہ روکا نہیں جاسکتا۔ تیسرے عیسوی ہزارے میں تاریخ اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے جہاں عالمی استبدادیت کے ظالم اور خنجربرداروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محمد کاظم انبارلوئی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
/129
16 مارچ 2020 - 05:24
News ID: 1017844
امریکہ یہ دکھانے کے لئے ـ کہ ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہے ـ مسلسل ہار سنگھار اور اپنے آپ کو سجا دھجا کر پیش کرتا ہے۔ عین الاسد کے امریکی اڈے پر ایران کے میزائل حملے نے ثابت کردیا کہ چچا سام کی عسکری طاقت زوال پذیر ہوچکی ہے اور اس میں مزید کوئی سکت نہیں رہی۔ سیاست اور حکمرانی کے میدان میں بھی کم ہی کوئی امریکی دانشور ہوگا جو اس بات کو تسلیم کرسکے کہ واشنگٹن کی صورت حال قابل قابول اور لبرل نظام کی اقدار کے موافق ہے۔