19 ستمبر 2024 - 08:18
حزب اللہ کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی شکست خوردہ صہیونی حکمت عملی

منگل کے روز کی صہیونی دہشت گردانہ کاروائی نہ حزب اللہ کو مقاومتِ غزہ کی حمایت سے باز رکھتی ہے اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ میں الجھاتی ہے، حزب اللہ خوب جانتی ہے کہ نیتن یاہو کو کس طرح ـ آہستہ آہستہ ـ بھونا جائے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

نیتن یاہو کے آفس سیکریٹری نے واقعے کے دن صبح کے وقت ایک بیان جاری کرکے کہا کہ صہیونی ریاست نے جاری جنگ کے اہداف کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان بے گھر ہونے والے یہودیوں کو بھی شمالی فلسطین میں اپنے گھروں کو واپس کیا جا سکے جو گذشتہ 11 مہینوں میں حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

شمالی مقبوضہ علاقوں کے اسرائیلی فوجی کمانڈر نے اس علاقے کے امن کے لئے لبنان کے ساتھ بفر زون قائم کرنے کی تجویز دی تھی اور وزیر جنگ یوآو گالانت کے خیال میں صہیونی پناہ گزینوں کی واپسی کا واحد راستہ فوجی کاروائی ہے!

صہیونیوں کو شمالی محاذ میں بھاری مالی اور جانی نقصانات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے غاصب ریاست کو شدید دباؤ کا سامنا ہے، چنانچہ غاصب ریاست کے سرغنے اس فیصلے پر متفق ہوجاتے ہیں کہ حزب اللہ کے ساتھ فوجی کشیدگی کو شدیدتر کیا جائے؛ چنانچہ وہ حزب اللہ کے پیغامات ارسال کرتے ہیں کہ گویا وہ فوجی کاروائیوں کا دائرہ جنوبی لبنان تک وسیع کرنا چاہتے ہیں!

جنگ کا دائرہ پھیلانے سے نیتن یاہو کے اہداف و مقاصد

نیتن یاہو نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی غرض سے آئے ہوئے امریکی ایلچی اموس ہوچسٹین (Amos Hochstein) کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل شمالی علاقوں کے یہودی رہائشیوں کو اپنے گھروں میں لوٹانے کے لئے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کار لائے گا اور امریکی انتباہات کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ شمالی علاقوں کے باشندوں کی واپسی کا دارومدار سلامتی کی صورت حال کی بہتری پر ہے اور گالانت نے بھی کہا تھا کہ جنگ واحد راستہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل فوجی اقدام کے ذریعے حزب اللہ کو غزہ میں فلسطینی مقاومت کی حمایت کے حوالے سے اپنا موقف ترک کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟

ہوچسٹین ـ جو معرکہ طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی حزب اللہ کو فلسطینی مقاومت کی حمایت ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی غرض سے لبنان کے مسلسل دورے پر رہتے ہیں، ـ اچھی طرح جانتے ہیں کہ شمالی محاذ پر ـ حزب اللہ جیسے طاقتور حریف کے ہوتے ہوئے ـ نیتن یاہو کی اس آرزو کا پورا کرنا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ وہ نیتن یاہو اور گالانت کو خبردار کررہے ہیں کہ لبنان کے جنوب میں نیا محاذ کھولنے سے جنگ کا دامن پھیل سکتا ہے اور یہ جنگ علاقائی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کوئی بھی چیز ـ غزہ کی پٹی میں امن و سکون قائم کرنے کے سوا ـ حزب اللہ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر آمادہ نہیں کرتی۔

دوسرے مبصرین کو بھی یقین ہے کہ فوجی کاروائی نہ تو حزب اللہ فلسطینی مقاومت کی پشت پناہی سے روکتی ہے اور نہ ہی شمالی فلسطین کے یہودی آبادکاروں کو پلٹا سکتی ہے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ غزہ کے محاذ پر امن و سکون قائم ہو جائے۔

تل ابیب میں فرانسیسی سفیر فریڈرک جورنیس (Frédéric Journès) بھی اسی تجویز سے متفق ہیں اور کہتے ہیں: شمال میں جنگ، نیتن یاہو کے مبینہ امن و سلامتی کا باعث نہیں بنتی۔

نیتن یاہو کا شمالی محاذ کھولنے پر اصرار، اس کی اقتدار میں رہنے کی کوششوں سے قطع نظر، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کو ان ایک لاکھ یہودی آبادکاروں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے جو حزب اللہ کے حملوں کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑ کر پناہ گزینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

وہ نیتن یاہو پر اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی گھروں کی عدم واپسی کا سبب ان کی ریاست کی کابینہ کی نااہلی اور بے بسی ہے جو شمالی علاقوں میں امن قائم کرنے سے عاجز ہے۔

ایک سروے کے مطابق، 71 فیصد صہیونی اپنی کابینہ کو شمال میں امن قائم کرنے سے عاجز و بے بس سمجھتے ہیں اور اس بحران کے حل کے لئے جنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ 18 فیصد شمال میں جنگ کی مخالفت کی ہے۔

یہ دباؤ کی وہ شکلیں ہیں جن کا نیتن یاہو اور اس کے وزیر جنگ کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ غزہ کے محاذ میں کسی قسم کی کامیابی کے حصول اور روشن مستقبل کی کوئی نشانی نظر آئے بغیر، شمالی محاذ پر بھی جنگ کا آغاز کریں۔

چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ شمال میں کشیدگی میں اضافہ، شمالی محاذ پر جنگ کے لئے ـ تھکی ہاری اور شکست خورد اسرائیلی فوج کی مستعدی ـ کی علامت نہیں بلکہ اندرونی محاذ کے شدید دباؤ کا نتیجہ ہے، جو نہ صرف اپنی فوج کو جنوب میں اپنے قیدیوں کی رہاؤئی اور حماس کی سرکوبی سے عاجز و قاصر سمجھتا ہے بلکہ اپنی کابینہ کو بھی شمالی محاذ پر امن و سلامتی کی بحالی اور وہاں کے نوآبادکاروں کو ان کے گھروں میں واپس لانے سے عاجز و بے بس گردانتا ہے۔

غاصب اسرائیل حالیہ ایک سالہ عرصے میں، تناؤ اور کشیدگی میں اضافے اور حزب اللہ کو ایک فوجی تقابل میں کھینچنے کے لئے، اپنے تمام آپشنز بروئے کار لا چکا ہے: حزب اللہ کے کمانڈروں دہشت گردانہ حملوں سے لے کر جنوبی لبنان پر راکٹ اور میزائل حملوں اور بمباریوں تک، لیکن وہ اپنے زیر قبضے شمالی فلسطینی علاقوں کا بحران حل کرنے کے حوالے سے کچھ بھی حاصل کرنے سے عاجز ہے۔

چنانچہ بے وقوفی ہے کہ نیتن یاہو پیجردہشت گردی کے ذریعے حزب اللہ کا اپنا مشن جاری رکھنے سے باز رکھ سکے گا، اور سید حسن نصر اللہ اسرائیل کو اپنے مقاصد تک پہنچنے کا امکان مہیا کریں گے۔ اور پھر حزب اللہ نے اپنے بیانات میں انتقامی کاروائی کی دھمکی دیتے ہوئی بھی کہا ہے کہ وہ اس دہشت گردانہ کاروائی کا جواب دینے میں "جذباتیت" سے کام نہيں لے گا۔

اب ایک سال کا عرصہ گذر چکا ہے جس کے دوران صہیونیوں نے اپنے تمام آپشنز آزما لئے ہیں، لیکن شمالی فلسطین میں امن و امان بحال نہیں ہو سکا ہے، بلکہ شمالی محاذ، تل ابیب کے لئے بنیادی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

نیتن یاہو نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے کئی مناسب مواقع گنوا دیئے ہیں، جس کے بعد، لگتا ہے کہ نیتن یاہو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ، اپنی ہی پالیسیوں کے جال ميں پھنس چکا ہے، اور پھر اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج حزب اللہ کا سامنا کرنے اور شمالی محاذ میں لڑنے سے بالکل عاجز ہے۔

سابق صہیونی فوجی جرنیل اسحاق بریک کا کہنا ہے کہ "کہ یہ محض ایک خطا ہے کہ ایسے حال میں کہ غزہ کے محاذ پر اسرائیلی فوج کی پوزیشن تاحال واضح نہیں ہوئی ہے، اور وہ ایک دوسرے محاذ پر بھی جنگ کا آغاز کر دے!

دوسرے مبصرین کی طرح بریک کا بھی خیال ہے کہ اسرائیلی سرکردگان غزہ میں اپنے اعلان کردہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے ہیں: وہ حماس کی سرکوبی اور اپنے قیدیوں کی رہائی کے مشن میں مکمل طور پر شکست کھا چکے ہيں، اور حماس نے غزہ کی پٹی کا پورا کنٹرول سنبھالے رکھا ہے اور اس وقت اس نے اسرائیل کو ایک تھکا دینے والی جنگ (Attrition Warfare) میں دھکیل دیا ہے جو اس کی معیشت اور بین الاقوامی ساکھ کو تباہ زیادہ سے زیادہ تباہ کر رہی ہے۔

حزب اللہ ـ صہیونیوں کی طرف سے ـ لبنان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کرنے اور منگل [17 ستمبر 2024ع‍] کو صہیونیوں کی گندی جنگ Dirty warfare کے نمونے پر منظر عام پر لانے اور 'پیجر دہشت گردی' شروع کرنے سے، ـ نہ خوفزدہ ہوتی ہے اور نہ وہ اسرائیل کے ساتھ وسیع پیمانے پر جنگ میں الجھتی ہے، بلکہ:

حزب اللہ خوب جانتی ہے کہ نیتن یاہو کو کس طرح ـ آہستہ آہستہ ـ بھونا جائے۔

۔۔۔۔۔۔

تحریر: قبس زعفرانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔

110