اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
ہم ان ایام کو ایام فاطمیہ کے عنوان سے مناتے ہیں
اور دوسرا بڑا واقعہ عاشورا کا ہے جو محرم و صفر اور عاشورا اور اربعین میں منایا
جاتا ہے۔
شہادت سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) آنے والی نسلوں کے لئے ایک سوال
شاید یہ سوال پیش آئے کہ ان غم انگیز واقعات کو دہرانے اور زندہ رکھنے کا فائدہ کیا ہے کیا اس سے امت کے درمیان تفرقہ اور انتشار نہیں پھیلے گا؟
جواب یہ ہے کہ اگر یہ صرف تاریخی واقعات ہوتے تو ان کا احیاء ضروی نہ ہوتا اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہ ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگران واقعات کا ہمارے عقائد سے تعلق ہو تو کیا پھر ان کا احیاء غیر مفید ہوگا؟
اگر کچھ لوگ ان ہی واقعات کی بنا پر بعض انتہائی بنیادی ـ اور دنیاوی اور اخروی سعادت کا سبب بننے والے ـ اعتقادات کے قائل ہوئے ہوں تو ذمہ داری کیا ہے؟
چنانچہ جو لوگ ساڑھے چودہ صدیاں قبل امت اسلامی کی چوٹی پر براجماں ہوئے اور دو مکاتب "امامت" اور "خلافت" کے معرض وجود میں آنے کا باعث ہوئے، اور اپنے آپ کو دینی مرجع قرار دیا، ان کی تاریخ میں تحقیق حق طلب انسان کے لئے عقلی واجبات کے زمرے میں آتی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد دیکھئے:
"أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِ أَحَقُ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لاَ يَهِدِّي إِلاَّ أَنْ يُهْدَى فَمَا لَکُمْ کَيْفَ تَحْکُمُونَ؛
تو کیا جو حق کی طرف رہنمائی کرے، وہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود [محتاج ہدایت ہے اور] اس وقت تک راستا نہ پائے جب تک کہ اسے راستا دکھایا نہ جائے، تو تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیسے فیصلے کرتے ہو؟ (سورہ یونس-35)
اور پھر اللہ عزّ و جلّ نے حکم دیا اپنے حبیب کو کہ: "قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ؛ کہہ دیجئے [ان سے] کہ میں تم سے اس [رسالت] پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے"۔ (سورہ شوریٰ - 23)
دوسری طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے موصولہ احادیث سے واضح ہے کہ اہل بیت رسول کے حقوق کی رعایت اہم فرائض میں سے ہے۔ اس حوالے سے احادیث اتنی زیادہ اور متواتر ہیں کہ کسی ایک حدیث کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
قرآن و حدیث کی یہ تاکید اسلام کے سچے پیروکاروں کی خاص توجہ کا باعث بنی ہے، کیونکہ وہ وصیت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آخری وصیتوں سے واقف ہیں جن میں آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ قرآنی اور نبوی روش جاری رکھنے پر زور دیا۔
آپ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ امت کا بہترین فرد وہ ہے جو میرے اہل بیت کے لئے بہترین ہو، اور مشہور عالم "حدیث ثقلین" میں قرآن و عترت کو اپنے بعد کی اہم ترین امانتیں قرار دیا اور فرمایا کہ یہ دو ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے، یہ دونوں ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں اور مسلمان کو چاہئے کہ ان دو کی بیک وقت رعایت کرے۔
فریقین کے راویوں نے روایت کی ہے کہ "فاطمہ عالمین کی خواتین کی سیدہ و سردار ہیں"؛ جس سے آنجناب کے مقام کی عکاسی ہوتی ہے۔ یا اللہ تعالی اور اپنی ذات با برکات سے سیدہ کی خصوصی قربت پر مبنی حدیثوں میں بارہا فرمایا: "اے فاطمہ! یقینا خدائے تعالی آپ کے غضب کے لئے غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضا و خوشنودی پر راضی و خوشنود ہو جاتا ہے"۔
آنحضرت نے بیٹی سے اپنی دلی محبت کا اظہار کرتے ہوئے بارہا فرمایا: "فاطمہ میرا ٹکڑا ہیں"، یا فرمایا "فاطمہ میری جان اور میرا دل ہیں جو میرے سینے میں دھڑک رہا ہے، وہ میرا نور نظر اور میرے دل کا میوہ ہیں"۔
آپ نے سیدہ کو مختلف القاب و خطابات دے کر آپ کے احترام کے وجوب و لزوم پر تاکید فرمائی۔
چنانچہ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت درحقیقت سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی محبت ہے۔ یہی نہیں، بلکہ سورہ شوریٰ کی آیت 23 کی تفسیر کرتے ہوئے شیعہ اور سنی مفسرین نے آنجناب کو "آل" کا مصداق قرار دیا ہے۔
اہم سوال:
کیا یہ درست ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو سقیفہ میں بننے والی سرکار نے ایذاء اور ستم کا نشانہ بنایا ہے؟
اس سوال کا جواب قابل دسترس معتبر شیعہ اور سنی تاریخی کتب نیز کتب حدیث میں موجود ہے؛ ان کتب اور متون کے مطابق سیدہ بنت الرسول (علیہما السلام) نے اپنے والد حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد حکمرانوں کے ظلم و ستم کا شکوہ فرمایا ہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "صُبَّتْ عَلَيَّ مَصائِبُ لَوْ أَنَّها. صُبَّتْ عَلى الأيامِ صِرْنَ لَيالِيا؛ مجھ پر اس قدر مصیبتیں پڑیں کہ اگر دنوں پر پڑتیں تو وہ اندھیری راتوں میں بدل جاتے"۔
ایک دفعہ ام المؤمنین ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) نے عیادت کرتے ہوئے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے پوری صراحت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فقدان اور آنحضرت کے وصی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) پر روا رکھنے جانے مظالم سے اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: نفاق اور امیرالمؤمنین کے عظیم افتخارات و اعزازات کا انتقام، ان مسائل کا سبب بنا ہے۔
قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سقیفہ کے چند رکنی اجلاس کے بعد، مسلمانوں کی ایک جنرل اسمبلی بھی مسجد النبی میں منعقد ہوئی جس میں تمام مہاجرین و انصار کے مرد اور خواتین نے شرکت کی اور سیدہ نے آ کر ان سے خطاب فرمایا اور آپ کا وہ خطاب "خطبہ فدکیہ" کے نام سے مشہور ہؤا۔ آپ نے اس جنرل اسمبلی یا مجلس عمومی کو عدالت کی شکل دے دی اور ان کے انحراف اور بدسلوکی کو سب پر عیاں کر دیا۔
آپ نے اپنا احتجاج اپنی مختصر سی زندگانی کے آخری لمحے تک جاری رکھا لیکن جب آپ نے میراث نبوی کو تاراج ہوتے دیکھا اور دین کے رستے میں انحرافات پر عام مسلمانوں کو خاموش اور بے اعتنا پایا تو اپنی ناراضگی اور آزردگی کا آخری پیغام تاریخ کو دیا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے وصیت کی کہ: "میری شہادت کے بعد تجہیز و تکفین اور تدفین کی سنتوں نیز میری قبر کو لوگوں سے خفیہ رکھیں"، جس کا سیدھا پیغام یہی تھا کہ تاریخ اور مسلمانوں کی آنے والی نسلیں خود فیصلہ کریں کہ قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اتنے سارے احکامات کے باوجود، پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اکلوتی یادگار کیوں اس انداز سے دنیا سے رخصت ہوئیں، اور آپ کی قبر خفیہ کیوں ہے؟؟؟ کیا برسوں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مجلس میں بیٹھنے والے مسلمانوں کے ہاں اجر رسالت کی ادائیگی کا انداز یہی تھا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر محمد حسن زورق۔ آپ آئی آر آئی بی یونیورسٹی میں معارف اسلامی (اسلامیات) کے پروفیسر ہیں۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110