ساتویں مجلس؛ حضرت علی اصغر (ع) کے مصائبجب امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ کو تنہا پایا تو لوگوں پر اپنی آخری حجت بھی تمام کی اور بآواز بلند فرمایا: "ہل من ذابّ يذبّ عن حرم رسول اللہ؟ ہل من موّحد يخاف اللہ فينا؟ ہل من مغيث يرجو اللہ باغاثتنا؟ ہل من معين يرجو ما عنداللہ في اعانتنا؟" يعني: "کیا کوئی مدافع ہے جو حرم رسول اللہ کا دفاع کرے اور اس کی حفاظت کرے؟ کیا کوئی یکتاپرست ہے جو خدا کاخوف کرے اور ہماری مدد کو آئے؟ کیا ہے کوئی فریادرس جو خدا کے لئے ہماری نصرت کرے؟ کیا ہے کوئی جو خدا کی رضا اور رضوان کی خاطر ہماری مدد و نصرت کو آئے؟"۔امام علیہ السلام کی مدد خواہی کی صدا جب خیموں میں پہنچے تو بیبیوں کو معلوم ہوا کہ امام علیہ السلام تنہا رہ گئے ہیں۔ گریہ و بکاء کی صدا بلند ہوئی۔ امام علیہ السلام نے خیموں کی جانب رخ کیا تاکہ بیبیاں آپ (ع) کو دیکھ کر کسی حد تک مطمئن ہوجائیں؛ اسی اثناء میں امام علیہ السلام کے شش ماہہ فرزند حضرت "عبداللہ ابن الحسین" - جو علی اصغر(ع) کے نام سے مشہور ہیں – پیاس کی شدت سے رونے لگے۔ امام علیہ السلام نے اپنے فرزند دلبند کے رونے کی آواز سنی۔علي اصغر شیرخوار طفل تھے؛ جن کی پیاس بجھانے کے لئے نہ تو خیموں میں پانی تھا اور نہ ہی ان کی والدہ "رباب" کے سینے میں دودھ تھا جو ان کو پلایا جائے۔امام (ع) نے علي اصغر کو گود میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے؛ یزیدی دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور فرمایا: "اے لوگو! اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے تور اس طفل پر رحم کرو..." لیکن گویا کہ سنگدل دشمنوں کے دلوں پر رحم کا بیج بویا ہی نہ گیا تھا اور دنیا کی تمام رذالتیں اور پستیاں ان کے وجود کی گہرائیوں تک گھر کرگئی تھیں؛ کیونکہ انھوں نے فرزند رسول(ص) کو چلو بھر پانی دینے کے بجائے بنو اسد کے ایک تیرانداز (جو مؤرخین کے بقول "حرملة بن كاہل" ہی تھا) کو کام تمام کرنے کا حکم دیا اور کہا "اقطع کلام الحسین(ع) = حسین(ع) کا کلام منقطع کرو"۔ حرملہ نے ایک تیر کمان میں رکھا اور طفل شیرخوار کے گلے کا نشانہ لیا۔ اچانک امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ اور سینہ خون میں نہا گیا... طفل تشنہ لب و شیرخوار کا سر مقدس بدن سے جدا ہوگیا تھا...امام (ع) نے علی اصغر کا خون ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی جانب پھینکا اور فرمایا: «هونٌ عَلَيَّ ما نَزَلَ بِي انہ بعين اللہ ـ اس مصیبت کا تحمل میرے لئے آسان ہے کیونکہ خدا اسے دیکھ رہا ہے»... اسی حال میں، «حصين بن تميم» نے تیر پھینکا جو امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر بیٹھ گیا اور آپ کے ہونٹوں سے خون جاری ہوا۔ اور آپ(ع) خدا کے ساتھ مناجات کی؛ عرض کیا: "بارخدايا! میں تیری بارگاہ میں شكايت کرتا ہوں ان تمام مظالم کی، جو اس قوم نے میرے اور میرے خاندان اور بھائیوں پر روا رکھے ہیں"...اس کے بعد دشمن کی سپاہ سے دورہوئے؛ شمشیر کے ذریعے چھوتی سی قبر تیار کی اور شیرخوار فرزند کو اس میں دفن کیا.........شہادتیں کربلا کی سب سوزناک ہیں اور دلگداز لیکن علی اصغر علیہ السلام کی شہادت کا سوز کچھ اور ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے شاعر اہل بیت(ع) کمیت اسدی سے مخاطب ہوکر فرمایا: یا کُمَیتُ اَنشِدنی فی جَدِّیَ الحسین (ع) فَلما اَنشَدَ کُمَیتُ اَبیاتاً فی مُصیبة الامام علیه السلام بَکیَ الامام بُکاء ًشدیداً وبَکَت النِّسوة و اهل حریمه وصَحنَ فی حجراتهن اِذ خَرجت جارِیَه مِن خَلفِ الَّستر مِن حُجَرات الحَرم وفی یَدِها طفلٌ صغیر رَضیعٌ فَوَضَعَته فی حِجرِ الاِمام فاَشتَدَّ حینئذٍ بُکاء الامام فی غایهِ الاِشتداد وعَلا صَوته الشریف و عَلَت اَصواتُ النِّساء الطاهرات خلف الاَستارِِمِن الحجرات.اے کمیت! میری جد حسین(ع) کے بارے میں شعر سناؤ؛ کمیت نے جب اشعار پڑھے تو امام(ع) بہت روئے اور خواتین اور اہل خانہ بھی اپنی کمرے میں روئے اور سب نے آنسو بہائے۔ اسی وقت ایک خاتون شیرخوار بچہ لے کر کمرے سے باہر آئیں اور بچے کو امام علیہ السلام کی آغوش میں ڈال دیا امام کی بکاء شدیدتر ہوئی اور آپ(ع) کے رونے کی صدا بلند ہوئی اور گھر کی خواتین بھی پردوں کے پیچھے بلند آواز سے روئیں۔جانتے ہونگے آپ بھی کہ امام(ع) اس چھوٹے بچے کو ہاتھ میں لے کر کیوں شدت سے روئے؟ اس لئے کہ اس بچے کی وجہ سے امام(ع) کو کربلا کے چھوٹے جانباز علی اصغر(ع) یاد آئے تھے۔کتنا سنگدل تھا حرملہ جس نے یہ ظلم کیا اور کتنا شدید دشمن تھا عمر بن سعد اور شمر بن ذی الجوشن جنہوں نے یہ مناظر نہ صرف دیکھے بلکہ خود ہی حکم دے کر یہ مظالم خاندان رسول(ص) پر کروائے اور کتنا ستمگر تھا عبیداللہ بن مرجانہ جس نے سنگدلوں اور شقیوں کو چن چن کر آل اللہ کے قتل کے لئے کربلا روانہ کیا تھا اور کتنا دور تھا اسلام اور اس کے احکام سے یزید بن معاویہ جس نے بدر و احد میں اپنے مشرک آباء و اجداد کے علی بن ابیطالب(ع) کے ہاتھوں قتل کا بدلہ لینے کے لئے کربلا میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیا! ذرا سوچئے۔موت سے بھی زیادہ تلخمرحوم حائری مازندرانی اپنی کتاب "معالی السبطین" میں لکھتے ہیں: کسی نے بقراط سے پوچھا کہ انسان کے ذائقے میں موت سے زیادہ تلخ چیز کیا ہوسکتی ہے؟بقراط نے کہا: ایک بزرگ اور کریم انسان کے ذائقے میں موت سے زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ وہ مجبور ہوکر کسی بخیل اور لئیم اور پست شخص سے کچھ مانگے۔فَما حال الحسین الکریم بن الکریم حینَ رَفع رَضیعَه علی یَدیه و طَلب لَه جُرعَة مِنَ الماء مِن اللؤماء اللُّعَناء اَهل الکوفةپس حسین(ع) اس کریم بن کریم کا حال کیا رہا ہوگا جب آپ(ع) نے اپنے شیرخوار کو ہاتھوں پر اٹھا کر پست ترین، اور ملعون ترین کوفیوں سے پانے کا ایک گھونٹ مانگا!!؟روایت ہے کہ جب امام(ع) نے علی اصغر(ع) کے لئے پانی مانگا تو اسے چومنے کے لئے منہ کے قریب لے گئے اور اسی حال میں حرملہ بن کاہل اسدی لعنةاللہ علیہ نے سہ شعبہ تیر سے بچے کے گلے کو نشانہ بنایا جس سے گلا کٹ گیا اور مولا حسین(ع) نے اپنا شہید شیرخوار سیدہ بنت زہراء (س) کے حوالے کیا اور ان کا خون اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھا کرآسمان کی طرف اچھالا اور فرمایا: جو مصیبت مجھ پر وارد ہوئی وہ میرے لئے آسان ہے کیونکہ یہ سب مصائب خداوند آگاہ و دانا کے سامنے ہیں اور اللہ یہ سب دیکھ رہا ہے۔قالَ الْباقِرُ عَلیه السلام : فَلَم یَسقُط مِن ذلکَ الدَّمِ قَطرَه الی الارضامام محمد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں: خون اصغر(ع) جو امام حسین(ع) نے آسمان کی طرف اچھالا اس میں سے ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرا۔وقال اِبنُ نما: ثُم حَمَلَه فَوَضَعه مَعَ قَتلی اَهْلبَیتهاور ابن نما کہتے ہیں: امام حسین(ع) نے اس کے بعد بچے کو اٹھایا اور اپنے خاندان کے شہداء کے ساتھ رکھ دیا۔ ابن مخنف کی روایت:جب امام حسین علیہ السلام ام کلثوم(س) کے ساتھ علی اصغر(ع) کے بارے میں بات کررہے تھے تو سیدہ(س) نے عرض کیا: اگر ممکن ہے تو علی اصغر(ع) کے لئے تھوڑا سا پانی فراہم کریں۔امام(ع) نے طفل کو اٹھایا اور یزیدیوں کی طرف چل دیئے اور فرمایا: تم نے میرے بھائیوں، بیٹوں اور اصحاب کو قتل کردیا اور اس طفل کے سوا کوئی زندہ نہیں بچا ہے جو پانی سے باہر پڑی مچھلی کی طرح پیاس سے تڑپ رہا ہے، ایک گھونٹ پانی اس بچے کو دے دیں۔لیکن یزیدیوں نے پانی کا ایک جرعہ دینے کی بجائے طفل کے گلے پر سہ شعبہ تیر چلایا اور خون سیدالشہداء راکب دوش رسول(ص) کے سینے پر جاری ہوا جبکہ طفل کا گلا کان سے کان تک کٹ گیا تھا. آپ(ع) نے بچہ خیموں میں لوٹا دیا اور اللہ سے اشقیاء کی شکایت کی۔تاریخ کی روایت کے مطابق علي اصغر (ع) کی شہادت ائمہ طاہرین کے نزدیک جانسوز ترین مصائب میں سے تھی۔ "عقبة بن بشير اسدي" کہتے ہیں: "امام مح
10 نومبر 2013 - 20:30
News ID: 480242

تاریخ کے تلخ ترين لمحے قریب آرہے تھے؛ اصحاب و انصار سیدالشہداء(ع) میدان جاکر شہید ہوچکے تھے۔ حق و حقیقت کی جانب صرف دو مرد باقی تھے: سید الشہداء اباعبداللہ الحسين (ع) اور امام علی ابن الحسین سجاد (ع) جو اس روز مشیت الہی کی بنا پر بیمار پڑ گئے تھے اس لئے کہ انہیں زندہ رہنا تھا اور امام حسین علیہ السلام کے بعد امت کی قیادت و امامت کرنی تھی۔