2 اکتوبر 2012 - 20:30

ایک امریکی اخبار نے لکھا کہ امریکہ اور مغرب کی طاقت کا زوال ناگزير ہوچکا ہے۔

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق امریکی جریدے "دی نیشنل انٹرسٹ (The National Interest) کے لکھاری کرسٹوفر لین نے اس موضوع کا جائزہ لیا ہے کہ "امریکہ اور مغرب کا زوال کیونکر زوال پذیر ہوا؟"۔ لکھتے ہیں؛ جب بڑی طاقتیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیں ان کے حکمران نئی صورت حال کا انکار کردیتے ہیں۔بیسویں صدی عیسوی کی آمد پر برطانویوں نے اپنے عالمی تسلط کے خاتمے کو مبہم انداز سے بھانپ لیا تھا۔ برطانوی سیاستدان لارڈ سیلسبری (Lord Salisbury) نے ایک نظریئے کا خاکہ کھینچا جو ایک طرف سے برطانوی استعمار کے خاتمے کی نشاندہی کررہا تھا اور دوسری طرف سے اس نے اسی حقیقت کا انکار کردیا تھا۔"انھوں نے کہا: زمانہ پیچھے کی جانب لوٹ رہا ہے اسی بنا پر ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ واقعات کم از کم رونما ہونے دیئے جائیں"۔ آج امریکی کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے؛ یہاں بھی زوال کی سوچ نے ہمارے حکام کو حیرت زدہ اور فکرمند کردیا ہے؛ کلنٹن، اوباما، رامنی اور دوسرے، اگرچہ اس حقیقت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ حقیقی عالمی تبدیلیوں کو ہرگز نہيں روک سکیں گے؛ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جنھوں نے مل کر، دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والے عالمی نظام کو للکارا ہے۔ امریکی تسلط کا زمانہ ختم ہونے کو ہے اور جس قدر اس کی طاقت میں کمی واقع ہوگی اسی تناسب سے عالمی معیشت و سلامتی کے انتظام میں بھی اس کی صلاحیتیں کمزور ہوتی جارہی ہیں۔وہ لکھتے ہیں: درست یہ ہے کہ کہا جائے کہ امریکی دور اپنے اختتام کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اور بین الاقوامی سیاسی ڈھانچے میں امریکہ کا اثر اور اس کی طاقت کم ہوجائے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد معرض وجود میں آنے والا پرانا نظآم اپنا رنگ کھو رہا ہے اور البتہ فطری سی بات ہے کہ ہمارے حکام اس کا انکار کریں گے یہ پھر عوام کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس موضوع کو پھیکا کرکے پیش کریں گے۔ انھوں نے لکھا: امریکہ کی سیاسی اور معاشی قوت تحلیل ہورہی ہے اور ہم مسلسل اور دائروی ردعمل کا مشاہدہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کو درپیش مسائل میں محدود کردینے والے داخلی قید و بند کا بھی اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ شدید اور بڑھتے ہوئے مالی بحران میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے اس کے اپنے اخراجات کم کرنے پڑ رہے ہیں اور بیرونی دنیا میں اس کو چین جیسی نئی فوجی اور معاشی طاقتوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک طرف سے ایک بڑی طاقت کی فوجی اور معاشی صورت حال اور دوسری طرف سے اعتبار، نرم طاقت اور مذاکرے اور منصوبہ بندی کی صلاحیت، کے درمیان ایک حساس ربط پایا جاتا ہے جس طرح کہ امریکہ کے مادی نظام کی بنیادیں فرسودگی کاشکار ہوجاتی ہیں اسی تناسب سے اثرگذاری، مثال و نمونہ عمل بننے اور سخاوت کرنے اور پیسہ خرچ کرنے کے ذریعے عالمی نظام کی تشکیل میں اس ملک کا کردار کمزور سے کمزور تر ہوجاتا ہے اور یہ واقعہ خاص طور پر امریکہ کے بارے میں پیش آیا ہے جو 2008 کے مالی بحران اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی جمود کے بعد بےبسی کا شکار ہوچکا ہے۔ کرسٹوفر نے مزید لکھا ہے: امریکی پوزیشن کو بہت بنیادی نقصانات پہنچے ہیں؛ موجودہ عالمی نظام کو متاثر کرنے کے لئے نوظہور طاقتوں کی جرأت اور ان کی طرف سے اس نظام کو ان کے خاص مفادات، آداب و اقدار کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرنے کے اقدامات میں اضافہ ہوگا۔ پرانے عالمی نظام میں امریکہ اور مغرب کے تسلط کا قریبی خاتمہ، بین الاقوامی سیاست میں ایک فکرمند کردینے والے والے مبہم عبوری دور کی نوید دے رہا ہے۔ نیشنل انٹرسٹ کے تجزیہ نگار نے لکھا ہے: 2008 کے بعد رونما ہونے والا معاشی بحران امریکہ اور مغرب کی طاقت کے زوال کا یقین رکھنے والوں کی رائے کا عملی ثبوت تھا؛ جبکہ آنے والے دس برسوں میں امریکہ کا مالی مستقبل بالکل تاریک اور مبہم ہے اور یہ امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے امریکہ کے اندرونی مسائل کے علاوہ، عالمی سطح پر مختلف اقوام بھی اٹھ چکی ہیں اور وہ مغرب سے ـ طویل عرصے تک امریکہ اور مغرب کی پالیسیوں کی پیروی کرنے پر مجبور ممالک کی طرف ـ طاقت کی منتقلی کے اس دور سے اپنے لئے رعایتیں حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہوچکی ہیں۔انھوں نے لکھا ہے: امریکہ کو آئندہ دو عشروں کے دوران بہت مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور اس کو بد اور بدتر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا؛ کیونکہ عالمی طاقت کا ڈھانچہ تبدیل ہورہا ہے اور اس ساتھ ساتھ امریکہ کی بڑی تزویر (Strategy) کو بھی تبدیلی کے دور سے گذرنا پڑے گا۔ہوشیار اور زیرک امریکیوں کو اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتا کرنا ہی پڑے گا کہ مغرب ہمیشہ کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک مقدر (اور مقرر) تسلط سے بہرہ نہیں رہ سکتا؛ اور قوی امکان ہے کہ مستقبل مشرق میں رقم ہوگا۔ کرسٹوفر لین نے آخر میں لکھا ہے: تاریخ رکے بغیر آگے بڑھتی ہے؛ دنیا مزيد، دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سرمست کرنے والے ایام سے عبارت نہيں ہے جب امریکہ نے دنیا کی آقائی کا لبادہ اوڑھا تھا اور امریکہ نے ہی ایک عالمی نظام کی بنیاد رکھی تھی اور یہ عالمی نظام تقریبا ستر سال تک قائم رہا۔ نیز یہ اب 1989 سے 1991 کا پرشکوہ دور بھی نہيں ہے جب سوویت یونین پارہ پارہ ہوگیا اور اس کے ملبے نے امریکیوں کے ذہن کو طاقتور امریکی توہمات اور یک قطبی امریکی دور کے آغاز کے سپنوں سے مالامال کردیا۔ اب یہ پرانا عالمی نظام اپنی انتہا کے قریب پہنچ گیا ہے خواہ ہم اس کو ایک رومینٹک نگاہ ہی سے کیوں نہ دیکھ رہے ہوں!............/110