31 دسمبر 2025 - 12:39
مکتبِ سلیمانی کے بارے میں دس نکات

انقلاب کے دونوں امام ایسے نظام کے قیام و تاسیس کے مقام پر ہیں۔ اس نظام کی بقاء اور دوام و استقلال کا پوشیدہ راز، قومی جہاد کے تمام میدانوں میں شہید الحاج قاسم سلیمانی جیسے سپاہیوں کی موجودگی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ||

1۔ مکتبِ سلیمانی اس حکومت اور ان نوجوانوں کے لئے چراغِ راہ ہے جو عالم اسلام کی ترقی اور پیشرفت اور خطے میں اسلامی انقلاب کے فروغ کی سوچ رکھتے ہیں۔ اگر ہم نظام کی کارکردگی کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں تو ہمیں شہید سلیمانی کی طرح "سوچنا" اور ان ہی کی طرح "عمل کرنا" ہوگا۔

2۔ مکتبِ سلیمانی کو ہمیں ان کے اس آخری تحریری ورثے کا دوبارہ مطالعہ کرکے، سمجھنا ہوگا، جو ان کی الٰہی-سیاسی وصیت کے طور پر انقلاب کی ایک پائیدار دستاویز ہے۔

3۔ شہید سلیمانی کو خدا اور روزِ قیامت پر گہرا یقین تھا اور وہ تاریخ بھر میں انبیاء اور اولیاء اللہ کو "کائنات کی روح" سمجھتے تھے۔

وہ تشیّع کو "اسلام کی حقیقی خوشبو" کے طور پر یاد کرتے ہیں اور اپنے ایمان کی سمت کو اسی فضا میں متعین کرتے ہیں۔

4۔ شہید سلیمانی دشمن کی نظر میں ایک فوجی جنرل ہیں جن کے پاس 40 سال کی فوجی تربیت، مشق اور تجربے کا کارنامہ ہے؛ لیکن وہ در حقیقت ایک سیاسی حکیم و فلسفی حکیم تھے۔ ان کے وصیت نامے کی دستاویز سے عیاں ہؤا کہ وہ ایک الٰہی حکیم کی حدود تک بھی پہنچ چکے تھے۔ ان کے دونوں ہاتھ ہمیشہ آسمان کی طرف پھیلے رہتے تھے۔ وہ 40 سال تک ایک درویش کی طرح پہاڑوں، بیابانوں اور صحراؤں میں حقیقت کی تلاش میں رہے، لیکن درویشی کا کِشکول لے کر نہیں بلکہ ان کے ہاتھ میں بندوق ہوتی تھی اور انسانیت کے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے رہے؛ اور دوسرے ہاتھ میں [تقویٰ اور زہد و عبادت کا] خنجر لے کر مسلسل نفس امارہ کے سر اور منہ پر پر مارتے رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ اندر اور باہر سے، حالتِ ہجرت میں رہتے تھے؛ وہ "مال"، "جاہ" اور "منصب" و "مرتبے" سے ہجرت کر کے انقلابی معاشرے میں الٰہی آدرشوں کے حصول کی طرف گامزن رہتے تھے۔

انتہائی سخت جنگوں میں بھی ان کا اہم ترین ہتھیار وہ تسبیح تھی جو وہ اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور کبھی خود سے جدا نہیں کرتے تھے اور وہ آنسو جو ان کے رخساروں پر فاطمہۜ کے حسینؑ اور رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاک اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے رواں رہتے تھے۔

5۔ شہید سلیمانی اسلامی جمہوریہ کو اسلام اور تشیّع کا مرکز سمجھتے تھے اور ایران کو "حرم" اور حسین ابن علی (علیہما السلام) کا مسکن (اور ہیڈکوارٹر)۔

ان کا عقیدہ تھا کہ حَرَمِ ابراہیمی، حجاز میں حَرَمِ محمدیؐ اور ایران، عراق اور شام میں دوسرے حرموں کی حفاظت کا انحصار مکمل طور پر حَرَمِ اسلامی جمہوریہ کی حفاظت پر ہے۔

اللہ جانتا ہے کہ سن 2009 کے فتنے میں انھوں نے کتنا دکھ اٹھایا جب کچھ سیاسی شخصیات نے نظام سے دوری اختیار کر لی۔ تاریخی 9 دی (30 دسمبر) کے قیام کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ عوام انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے 'حرم' کے ساتھ جم کر کھڑے ہیں۔

6۔ شہید سلیمانی ولایت فقیہ کو امت مسلمہ امت کا واحد نسخۂ نجات سمجھتے تھے۔ وہ انقلاب کے وفادار ساتھیوں کو ولایت فقیہ کے خیمے میں مؤثر اور مستقل موجودگی کی دعوت دیتے تھے۔ وہ انقلاب کے دو اماموں کے خیمے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) کا خیمہ سمجھتے تھے۔ ان کے نظریاتی کارنامے کسی مدرسے یا اسلامی تحقیقی مرکز کے کونے میں نہیں بلکہ دشمن کے خلاف میدانِ جنگ میں گولیوں، توپوں اور ٹینکوں کی مسلسل گولہ باری اور گھن گرج میں حاصل ہوئے۔

7۔ وہ بار بار اپنی وصیت میں انقلاب کے وفادار ساتھیوں کو "اصولوں" کی حفاظت کی دعوت دیتے ہیں۔ شہید سلیمانی کی نظر میں اصولوں کی پانچ قسمیں ہیں:

الف- ولایت فقیہ پر عملی یقین

ب- اسلامی جمہوریہ کے بنیادی اصولوں پر حقیقی ایمان

ج- بدعنوانی کا مقابلہ اور نمود و نمائش سے پرہیز

د- عوام کی بلاامتیاز خدمت اور معاشرے میں الٰہی اقدار کا تحفظ

ہ- دشمن کے مد مقابل اتحاد اور دشمن کے ساتھ سنجیدہ مقابلے میں قوم کی صفوں میں دو آوازیں پیدا ہونے سے باز رہنا

8۔ شہید سلیمانی کے بیانیے اور ان کے الٰہی مکتب کا مرکزی محور "ولایت فقیہ" اور "ولی فقیہ کی ذات" ہے۔ اس کے اطراف کے محور، اسلام، نظام، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ہیں۔

شہید سلیمانی کا مکتب ایک "فکری منظومہ" اور ایک عملی "منظومہ" ہے۔

وہ بلا شک و شبہ ایک قومی ہیرو اور "اسلامی امت" کے ہیرو ہیں۔

وہ ایران کے عوام اور اسلامی جمہوریہ کے سرکاری حکام کے لئے نمونہ عمل ہیں۔

وہ تمام افراد جو ـ "بیانیۂ گامِ دوم" (دوسرے قدم کے بیان) میں ـ رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے مقررہ اہداف و مقاصد کو عملی شکل دینے کے لئے فکر مند ہیں، انہیں ایسے نمونے کی اور ایسی عظیم سوچ کی ضرورت ہے۔

9۔ انقلاب کے وفادار ساتھیوں کا بنیادی کام جعلی دو قطبیوں میں داخل ہونے سے پرہیز اور حقیقی اور دو قطبیوں میں داخل ہونا ہے: "الٰہی ـ مادی"، "مزاحمت ـ سازباز"، "اسلامی ـ سیکولر"، "عوامی ـ اشرافی"، "پاک ـ بدعنوان" اور ... "خدمت گزار ـ طاقت کا طالب" وغیرہ۔

10۔ ہم ایک قائم و دائم، مستحکم، پائیدار، طاقتور اور دنیا کے مظلوموں کے دفاع کے لئے پرعزم نظام کے امین ہیں۔ اور یہ اس سرزمین کی وسعتوں میں، جو دنیا کا چوراہا ہے اور جس کی سات ہزار سالہ تہذیبی تاریخ ہے۔

انقلاب کے دونوں امام ایسے نظام کے قیام و تاسیس کے مقام پر ہیں۔ اس نظام کی بقاء اور دوام و استقلال کا پوشیدہ راز، قومی جہاد کے تمام میدانوں میں شہید الحاج قاسم سلیمانی جیسے سپاہیوں کی موجودگی ہے۔

ہم رہبر معظم امام خامنہ ای کے "دوسرے قدم کے بیان" میں، "خود سازی"، "تعمیر معاشرہ" اور "اسلامی تہذیب" کے قیام کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ نقطہ نظر انسانیت کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے اور یہ مشن "مکتبِ سلیمانی" کی منطق و بیان کے ساتھ چلتے رہنے کے بدولت، ممکن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوئی، سینئر صحافی اور سیاستدان

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha