31 دسمبر 2025 - 02:24
ٹرمپ کی ہرزہ سرائی پر ایران کا گوٹیریس اور سلامتی کونسل کے نام خط

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے نے ٹرمپ کی ہرزہ سرائیوں کے بعد سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کے نام ایک خط میں ایران کے 'اپنے دفاع کے جائز حق' پر زور دیا اور اعلان کیا کہ اگر ایران کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، عوام یا قومی مفادات کسی جارحانہ عمل کا نشانہ بنے تو ہم فیصلہ کن اور مناسب طریقے سے اپرف اس حق کا استعمال کریں گے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیان پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اور سلامتی کونسل کے صدر سیموئل زبوگار کے نام خط لکھا۔

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے کے خط کا متن:

میں اپنی حکومت کے حکم کی تعمیل میں آپ کی فوری توجہ بین الاقوامی قانون کی ایک اور سنگین خلاف ورزی، ـ خاص طور پر امریکی صدر کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی صریح دھمکیوں ـ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ امریکی صدر نے 29 دسمبر 2025 کو اسرائیلی ریاست کے وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا:

"ہاں، اگر ایران اپنا میزائل پروگرام جاری رکھتا ہے تو میں ایران پر حملے کی حمایت کروں گا۔ اگر وہ اپنا جوہری پروگرام جاری رکھیں گے تو ہم فوراً حملہ کریں گے۔"

یہ اشتعال انگیز اور کشیدگی میں اضافہ کرنے والے بیانات، ـ جو طاقت کے استعمال کی دھمکی پر مشتمل ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہیں، ـ اقوام متحدہ کے چارٹر، خاص طور پر اس کے آرٹیکل 2 (4) کی واضح اور سنگین خلاف ورزی ہیں، جو واضح طور پر کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی کی ممانعت کرتا ہے۔

امریکہ اور اسرائیلی ریاست کا 13 سے 24 جون 2025 کے درمیان اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف غیر قانونی جارحیت کا پس منظر امریکی صدر کے حالیہ دھمکی آمیز بیانات کی سختی سے مذمت و سرزنش اور رد کرنے کو دوہری ضرورت بنا دیتا ہے۔ درحقیقت، یہ بیانات محض زبانی جمع خرچ نہیں ہیں بلکہ ایک غیر قانونی رویے کے تسلسل کی ایک نئی اور صریح دھمکی ہیں جو امریکہ کے لئے بین الاقوامی ذمہ داری کا باعث بنتی ہے۔

امریکی صدر نے 6 نومبر 2025 کو بر سر عام، جون 2025 کی جارحیت میں امریکہ کی براہ راست ذمہ داری اور شرکت کا اعتراف کیا، جس میں غیر فوجیوں اور عام شہریوں کو قتل کیا گیا، اہم بنیادی ڈھانچے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے جامع تحفظات کے تحت کام کرنے والی پرامن جوہری تنصیبات کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔  جیسا کہ ایران کے وزیر خارجہ کے 12 نومبر 2025 کے خط میں تصریح کی گئی ہے، اس طرح کے اعترافات امریکی صدر اور دیگر ملوث امریکی اہلکاروں کی انفرادی مجرمانہ ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں جنہوں نے جنگی جرائم سمیت بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔

امریکی صدر نے ایک بین الاقوامی طور پر مطلوب جنگی مجرم اسرائیلی ریاست کے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر منافقت کی انتہا کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کو دھمکی دی ہے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے فریم ورک میں بیان کردہ اس کے فطری حقوق سے انکار کیا ہے، اور ایران کے اپنے دفاع کے لئے ضروری وسائل اور سہولیات رکھنے کے ریاست حق کی بھی نفی کی ہے۔

یہ انتہائی باعث افسوس ہے کہ اس طرح کی صریح دھمکیاں ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست کی طرف سے آ رہی ہیں جس کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا امین قرار دیا جاتا ہے، جس کا اپنے معاہداتی وعدوں کی سنگین خلاف ورزیوں کا ایک طویل اور مسلسل ریکارڈ ہے، جس میں ایک غیر جوہری ریاست کی پرامن جوہری تنصیبات پر حملہ بھی شامل ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کا واحد مالک ہونے کے ناطے اسرائیلی ریاست کی غیر مشروط حمایت اور تعاون جاری رکھے ہوئے ہے، جو مکمل استثنیٰ کے ساتھ خطے کے دیگر ممالک کو اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دیتی رہی ہے۔ یہ صورت حال مسلسل اور واضح دوہرے معیار کی عکاسی کرتی ہے جس نے خطے اور بین الاقوامی سلامتی کو شدید کمزور کر دیا ہے اور یہ [جوہری] عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کی سالمیت پر براہ راست حملہ ہے۔

سلامتی کونسل کی ایسی صریح دھمکیوں اور جارحانہ کارروائیوں کے سامنے بےحسی اور مکمل مفلوجی اور بے بسی کا تسلسل سزا سے بریت (Impunity) کے ایک خطرناک ماحول کو مستحکم کر رہا ہے۔ یہ ناکامی امریکہ اور اسرائیلی ریاست کو، ـ جو امریکہ کی مکمل سیاسی، فوجی اور سفارتی حمایت سے مستفید ہے، ـ اپنے غیر قانونی رویے جاری رکھنے کی جرات دیتی ہے اور اس طرح خطے اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین اور براہ راست خطرہ پیدا کرتی ہے۔

مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر، اسلامی جمہوریہ ایران سلامتی کونسل اور خاص طور پر اس کے ذمہ دار اراکین سے درخواست کرتا ہے کہ وہ:

الف) امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی صریح دھمکی کی، ـ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی واضح اور سنگین خلاف ورزی کے طور پر ـ سختی سے اور صراحت کے ساتھ، مذمت کریں؛

ب) امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ فوری طور پر چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کرے، تمام دھمکیوں یا طاقت کے استعمال سے باز آئے، اور بحیثیت سلامتی کونسل کے مستقل رکن، اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق، اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرے؛

ج) کسی دوہرے معیار کے بغیر اور فیصلہ کن اقدامات کے ذریعے صورتحال کے مزید بگڑنے کا سدباب کریں؛ جو کونسل کے ایک مستقل رکن اور اس کے خطے کے نمائندے اسرائیلی ریاست کی طرف سے بین الاقوامی قانون کی کھلی توہین اور سزا سے بچنے کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔

اس معاملے میں بے عملی نہ صرف بین الاقوامی امن و سلامتی کو مزید کمزور کرے گی بلکہ سلامتی کونسل کے وقار، اختیار اور قانونی حیثیت کو بھی شدید متاثر کرے گی؛ جس پر بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہے۔ طاقت کے استعمال یا دھمکی کی ممانعت، بین الاقوامی برادری کے لئے ایک عالمی عہدِ عام ہے اور اس کی خلاف ورزی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کے لئے کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ ایسی خلاف ورزی ناگزیر طور پر اس بین الاقوامی قانونی نظام کو سنگین اور دیرپا نقصان پہنچاتی ہے جس پر اقوام متحدہ کو قائم کیا گيا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران بے پروائی اور ناعاقابت اندیشی پر مبنی دھمکیوں کی واضح مذمت کرتا ہے اور آرٹیکل 51 کے تحت کسی بھی مسلح حملے یا جارحانہ کارروائی کے خلاف اپنے جائز دفاع کے اپنے فطری اور ناقابل تنسیخ حق پر تاکید کرتا ہے اور ـ اگر اس کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، عوام، یا قومی مفادات کسی اور جارحانہ کارروائی کا نشانہ بنیں تو ـ اس حق کا فیصلہ کن اور مناسب طریقے سے استعمال کرے گا ۔

شکر گزار ہوں گا اگر آپ اس مراسلے کو سلامتی کونسل کی دستاویز کے طور پر رجسٹر اور تقسیم کرنے کی ہدایت دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha