20 دسمبر 2025 - 21:55

سورہ نور کی آیات 54 سے 58 میں قرآن ایک پرانے تضاد کو نمایاں کرتا ہے: وہ لوگ جو دین و مذہب کا نام پسند کرتے ہیں لیکن جب خدا اور پیغمبر کے احکامات کی تعمیل کی بات آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ سچے ایمان کی پیمائش دعوؤں میں نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ نور کی آیات 54 سے 58، اس سورت کے عمومی ماحول کو قائم رکھتے ہوئے، ایمان کی ایک بنیادی خصوصیت کو بیان کرتی ہیں، ایک ایسا معیار جو 'حقیقی ایمان' اور 'از روئے دعویٰ [اور نعروں پر مبنی] دینداری' کے درمیان حد کو عیاں کرتا ہے۔

یہ آیات مخاطَبین کو خدا اور رسول کی اطاعت کی دعوت دیتی ہیں، لیکن ظاہری اور عارضی اطاعت نہیں، بلکہ ایک باطنی اور دائمی التزام [اور پابندی] ہے جس کے اثرات انفرادی اور سماجی رویوں میں نظر آتے ہیں۔ اس حصے میں خدا نے پیغمبر کی ذمہ داری نیز لوگوں کی ذمہ داری، دونوں کی وضاحت کی ہے۔ تاکہ دین و مذہب کے نام پر، ذمہ داریاں نبھانے سے، گریز نہ کرے۔

ذمہ داریاں الگ ہوسکتی ہیں، بہانے نہیں

آیت نمبر 54:

"قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ؛

کہہ دو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اگر منہ پھیرو گے [اور اطاعت نہیں کروگے] تو پیغمبر پر تو وہی [لازم] ہے جس کے وہ ذمہ دار ہیں اور تم پر وہی [لازم] ہے جو تمہاری ذمہ داری ہے، اور اگر ان کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے، اور رسول کے ذمے صرف صاف طور پر ابلاغ کرنا [اور پہنچا دینا] ہے۔"

اس آیت میں، خدا نبی کو حکم دیتا ہے کہ "کہہ دیجئے کہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔" اس کے بعد ایک اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے: اگر تم منہ موڑو گے تو جان لو کہ نبی صرف اس کام کے ذمہ دار ہیں جو انہیں سونپا گیا ہے اور تم اپنے ذمہ دار ہو۔

ذمہ داریوں کا یہ الگ الگ ہونا، اپنی ذمہ داری سے کسی بھی قسم کی پہلو تہی کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ پیغمبر ابلاغ کے ذمہ دار ہیں، جبر اور زبردستی ان کی ذمہ داری نہیں ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی اطاعت غیر اہم ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے انتخاب کے لئے جوابدہ ہونا چاہئے۔ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہدایت یافتگی کا دارومدار نبی کی شعوری اطاعت پر ہے، نہ کہ صرف دعویٰ کرنے یا مذہبی معاشرے میں نمایاں رہنے پر۔

پیغمبر کی اطاعت، ہدایت کا راستہ

آیت 54 کے تسلسل میں واضح بیان ہے، یعنی اگر تم نبی کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔ یہ جملہ مختصر لیکن بہت بنیادی ہے۔ ہدایت براہ راست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عملی پیروی کا نتیجہ ہے، نہ کہ دلی محبت یا زبانی کلامی نعروں اور دعوؤں کا نتیجہ۔

قرآن کی نظر میں ایمان، اطاعت کے بغیر، اپنی منزل تک نہیں پہنچتا۔ پیغام پہنچانے والا صرف نبی ہوتا ہے لیکن یہ پیغام اس وقت کارآمد ہوتا ہے جب یہ لوگوں کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں عملی صورت اختیار کرتا اور جاری اور ساری ہو جاتا جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر کسی بھی قسم کی آزاد اور غیر پابند دینداری کو چیلنج کرتا ہے۔

کچھ لوگ دین کو چاہتے ہیں مگر اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے، کیوں؟ + تصویر اور ویڈیو

ایک وعدہ جو مشروط ہے

آیت نمبر 55:

"وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ "مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛

اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ [اور جانشین] بنائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا تھا، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ان کے حق میں مستقر و متعین کرے گا جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے، اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا؛ تاکہ وہ میری عبادت کریں، اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد بھی کفرت برتے، تو وہی لوگ نافرمان ہیں۔"

اس آیت میں، خدائے متعال مؤمنوں سے ایک بڑا وعدہ کرتا ہے، یعنی زمین پر جانشینی، طاقت اور امن و سلامتی۔ ایسا وعدہ جو ہمیں صالح بندوں کی خلافت کی یاد دہانی کراتا ہے، جیسا کہ پچھلی امتوں نے ایمان اور عمل صالح کے ذریعے اسے حاصل کیا تھا۔ لیکن یہ وعدہ شرط کے بغیر نہیں ہے۔ ایمان اور عمل صالح اس کے دو اہم ستون ہیں۔

آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ ان کے لئے وہ دین قائم کرے گا جس سے وہ پسند کرتا ہے، اور ان کے خوف کو امن و سلامتی میں بدل دے گا، بشرطیکہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹہرائیں۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی تحفظ، سیاسی استحکام اور عمومی امن و سلامتی صرف دینداری کے دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی توحید اور ذمہ دارانہ تقویٰ سے جنم لیتی ہے۔

ایمان اور کفر کے درمیان لکیر، راستہ واضح ہونے کے بعد

آیت 55 کے آخر میں ایک اہم تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ان وعدوں کے بعد ناشکری اور اور کفر برتے گا وہ فاسقوں میں سے ہے۔ یہاں کفر محض زبانی انکار نہیں بلکہ ایمان سے جنم لینے والے فرائض سے عملی روگردانی ہے۔

جو اللہ کا وعدہ سنتا ہے، راستہ جانتا ہے، لیکن پھر بھی سرکشی کرتا ہے، وہ فاسقوں کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی معاشرے کے لئے اصل خطرہ صریح انکار نہیں ہے، بلکہ پہچان اور ادراک کے بعد بے حسی اور شعوری انحراف اصل خطرہ ہے۔

نماز، زکوٰۃ اور اطاعت: سماجی تقویٰ کے تین پہلو

آیت نمبر 56:

"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ؛

اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔"

یہ آیت تین کلیدی احکام کو ایک ساتھ بیان کرتی ہے: نماز قائم کرنا، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور نبی کی اطاعت کرنا۔ یہ ترتیب حادثاتی نہیں ہے۔ نماز انسان کا اللہ سے تعلق، زکوٰۃ اس کا معاشرے سے تعلق اور رسول کی اطاعت ان دونوں اور اللہ کے نظامِ ہدایت کے درمیان، تعلق ہے۔

خدا نے جس رحمت کا وعدہ دیا ہے اس کا ادراک اس جامع اور ہمہ جہت تقویٰ کے سائے میں ممکن ہوتا ہے؛ ایک تقویٰ جو انفرادی عبادت یا سماجی رسومات تک محدود نہیں بلکہ عقیدے، عمل اور اطاعت کا ہم آہنگ اور مربوط مجموعہ ہے۔

ظاہری طاقتیں اللہ کی طاقت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں

آیت نمبر 57:

"لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ؛

یہ ہرگز مت سمجھئے کہ جو لوگ کافر ہوئے ہیں، وہ [ہمیں] زمین [کی حکمرانی] میں بے بس کر دیں گے، ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور کیا برا ٹھکانہ ہے [یہ]"۔

یہ آیت ان لوگوں سے مخاطِب ہوتی ہے جو اپنی طاقت اور سماجی اثر و رسوخ کی نمود و نمائش کے ذریعے، سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت سے بھاگ کر بچ سکتے ہیں۔ اللہ صاف صاف ارشاد فرماتا ہے کہ یہ مت سمجھو کہ کافر لوگ خدا کو بے بس و بے اختیار کر سکتے ہیں۔ ان کی آخری منزل دوزخ کی آگ ہے اور کیا ہی برا انجام ہے [یہ]۔ یہ آیت ایمان کے کھلے دشمنوں کے لئے ایک تنبیہ بھی ہے اور ان مؤمنوں کے لئے تسلی وتسکین بھی، جو ظاہری طاقتوں سے ڈرتے ہیں۔

زندگی کا قانون، شائستگی، رازداری، اور خاندانی تحفظ

آیت 58:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ؛

اے ایمان لانے والو! تمہارے غلام اور کنیزیں، اور تمہارے وہ لڑکے جو ابھی بالغ نہیں ہوئے، تم سے [شب و روز کے دوران] ان تین وقتوں میں اجازت لے کر آیا کریں: صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت، جب کہ تم اپنے کپڑے اتار دیتے ہو؛ اور نمازِ عشاء کے بعد، یہ تین وقت تمہاری خلوت کے ہیں، ان کے بعد تم پر اور نہ ان پر کوئی الزام ہے، تم آپس میں ایک دوسرے کے پاس آنا جانا رکھو، اسی طرح اللہ تمہارے لئے [اپنی] آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ بہت جاننے والا بڑا حکمت والا ہے۔"

یہ آیت بحث کو بڑے پیمانے پر سماجی مسائل سے گھر کے اندرونی حصے تک لے آتی ہے۔ اللہ مؤمنوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے غلاموں اور نابالغ بچوں کو تین مخصوص اوقات میں اپنے کمروں میں داخل ہونے کی اجازت لینے دیں: صبح کی نماز سے پہلے، دوپہر کے وقت جب کپڑے اتارے جائیں اور شام کی نماز کے بعد۔

یہ آیت معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی ـ یعنی خاندان ـ میں بھی رازداری، عفت پاکدامنی اور اخلاقی نظم و ضبط کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اس حکم کی بنیاد پر، قرآن گھر کے اندر سے ہی نفسیاتی اور اخلاقی سلامتی کی بنیادیں استوار کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ ایک ایسے خاندان سے شروع ہوتا ہے جس کے افراد کے مابین واضح حدود ہوں۔

سورہ نور کی آیات 54 تا 58 'ذمہ دارانہ ایمان' کا ایک مربوط خاکہ پیش کرتی ہیں، ایک ایسا ایمان جو اطاعت، عمل صالح، سماجی اور خاندانی نظم و ضبط اور رازداری کو ملحوظ رکھ کر با معنی بن جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے، اللہ کے عظیم وعدے عملی اطاعت و پابندی کے بغیر حاصل نہیں ہوتے اور حقیقی تقویٰ گھر سے معاشرے تک مؤثر اور اور قابل مشاہدہ ہے۔

قرآن کریم کے صفحہ 357 پر ان آیات کی تلاوت دیکھیے اور سنیے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مہدی احمدی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha