اہل بیت نیوز ایجنسی ابنا کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کی جنوبی سرحدوں پر جاری کشیدگی اور مزاحمتی اسلحے سے متعلق بحث کے تناظر میں حزب اللہ کے ایک رکنِ پارلیمان نے مزاحمت کے آپشن کو جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی پسپائی کو مسترد کر دیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف دفاعِ مشروع کے حق پر تاکید کی ہے۔
اتوار کے روز ایرنا نے روسیا الیوم کی ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ لبنان کی پارلیمان میں حزب اللہ کے رکن حسین الحاج حسن نے کہا: “ہمارے قاموس میں تسلیم پذیری کی کوئی جگہ نہیں، اور اگر ہم پر جارحیت کی گئی تو اپنے دفاع کا حق ہمارا فطری اور قانونی حق ہے۔”
یہ بات انہوں نے بقاع کے علاقے میں حزب اللہ کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے زیر اہتمام ایک سیاسی نشست کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل سیکیورٹی، عسکری اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمت کو ختم اور اسے غیر مسلح کرنا چاہتا ہے، تاہم مزاحمت بدستور مضبوطی سے قائم ہے اور لبنان اور اس کے مفادات کے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
حسین الحاج حسن نے لبنان کی موجودہ ترجیحات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عوام، فوج اور مزاحمت کی اولین ترجیح اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ، لبنانی سرزمین سے قابض افواج کا انخلا، قیدیوں کی رہائی اور تعمیرِ نو کے عمل کا آغاز ہے، جس کے بعد قومی دفاعی حکمتِ عملی پر مکالمہ کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ لبنان اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل پیرا ہے، جبکہ اسرائیل نہ صرف اس قرارداد کی پابندی کرنے میں ناکام رہا بلکہ دشمنانہ کارروائیوں کی روک تھام سے متعلق معاہدوں کی بھی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کا یہ طرزِ عمل مزاحمت کے دفاعی حق کو مکمل طور پر جائز قرار دیتا ہے۔
حزب اللہ کے رکنِ پارلیمان نے مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ گزشتہ برسوں میں “شیعہ قومی اتحاد” (تحریک امل اور حزب اللہ) کو کمزور یا تنہا کرنے کی کوششیں کی گئیں، مگر حزب اللہ اور تحریک امل کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں اور آئندہ مزید مستحکم ہوں گے۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب لبنان کے وزیرِ اعظم نواف سلام نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ دریائے لیطانی کے جنوب میں اسلحے کی مرکزیت کے منصوبے کا پہلا مرحلہ اختتام کے قریب ہے اور حکومت فوجِ لبنان کے تیار کردہ منصوبے کے تحت لیطانی کے شمال میں دوسرے مرحلے کے آغاز کے لیے تیار ہے۔
آپ کا تبصرہ