بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صہیونی ریاست آج کل فلسطین خاص طور پر غزہ میں اپنے مظالم کی وجہ سے دنیا کے لوگوں کی طرف سے شدید دباؤ سے دوچار ہے۔ صیہونیوں کا خیال تھا کہ وہ غزہ اور فلسطین کا شدید بائیکاٹ کرکے رائے عامہ کو اس طرح متاثر کر لیں گے اور ایک ایسی فضا قائم کریں گے کہ گویا غزہ میں کچھ ہؤا ہی نہیں، اور حتیٰ کہ جب دنیا کے آزاد میڈیا نے ان مظالم کی تصاویر شائع کیں تو انہیں جعلی اور من گھڑت قرار دیا۔ لیکن میڈیا بائیکاٹ، خاموشی کے دائرے اور خبروں کی تردید زیادہ کا سلسلہ دیر قائم نہ رہ سکا اور دنیا کے لوگ جلد ہی سمجھ گئے کہ اس ملعون ریاست کے مظالم کی شدت و گہرائی کتنی ہے اور اس ریاست پر دباؤ کا آغاز ہو گیا۔
آج حالات یہ ہیں کہ دنیا کے اسٹیڈیمز سے لے کر اجتماعات اور سائنسی و میڈیا نشستوں تک اس ریاست کے نمائندوں کا یا تو بائیکاٹ کیا جاتا ہے یا انہیں ہٹانے اور نکال باہر کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
دشمن کے بائیکاٹ کی ضرورت کا معاملہ آج کل کا نہیں ہے، کیونکہ اللہ نے 1400 سال پہلے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ دشمن پر فتح پانے کا راستہ اقتصادی، سیاسی یہاں تک کہ ثقافتی میدان میں اس کا بائیکاٹ کرنا اور پس پابندی لگانا ہے۔ یعنی اس سے پہلے کہ ہم سخت مقابلے کے لئے دشمن کے خلاف میدان میں اتریں، قرآن ایک بنیادی اصول پر زور دیتا ہے؛ یعنی دشمن سے تعلق ختم کرنا اور امت کی اندرونی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے اس [دشمن] کو ہر طرف سے بائیکاٹ اور پابندی کے ذریعے الگ تھلگ کرنا۔ قرآن کے منطق میں یہ محض ایک جذباتی موقف نہیں، بلکہ ایک جامع حکمت عملی ہے، جسے آج "دشمن کے بائیکاٹ اور اس پر پابندی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس تحریر میں ہم دشمن کے بائیکاٹ اور اسے الگ تھلگ کرنے کی ضرورت کے قرآنی ثبوتوں پر بات کریں گے، ایک ایسا موضوع ہے جو اللہ کا براہ راست حکم ہے اور اس پر عمل درآمد دشمن پر فتح پانے کا راستہ ہے۔
دشمن شناسی، فتح کا نقطہ آغاز
قرآن بار بار یاد دلاتا ہے کہ دشمن محض بیرونی خطرہ نہیں، بلکہ ایک فعال کھلاڑی ہے جو مسلم امت کے اندر کی دراڑوں، وابستگیوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھلتا پھولتا ہے۔ سورہ ممتحنہ کی پہلی آیت میں مؤمنین کو واضح طور پر ان دشمنوں سے پیار بھرا اور خفیہ تعلق قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو دین کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ تعلق، ـ چاہے بظاہر بے ضرر ہی کیوں نہ ہو ـ دشمن کے اثر و نفوذ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے، وہ دشمن جو میدان جنگ میں کھڑا ہے، خطرناک ہے، لیکن جو دشمن جو معاشی ساتھی، سیاسی دوست یا مسلمانوں کے لئے ثقافتی نمونہ بن جائے، وہ زیادہ خطرناک ہے۔
اندرونی اتحاد، سودے بازیوں سے بالاتر سرخ لکیر
قرآن میں فتح کی بنیادوں میں سے ایک، مؤمنین کا اتحاد اور ہم آہنگی ہے۔ آیت "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (1) واضح کرتی ہے کہ انتشار اور تفرقہ، اس سے پہلے کہ سماجی کمزوری ہو، ایک 'تزویراتی گناہ گناہ' ہے۔ دشمن اس وقت فتح یاب ہوتا ہے جب امت یک زبان اور متحد نہ ہو۔ اسی لئے قرآن ہر قسم کے تعلق پر سخت سوال اٹھاتا ہے جو مؤمنین کی صف میں دراڑ کا باعث بنے۔ دشمن سے دوستی، اس پر انحصار اور یہاں تک کہ اس کی حمایت پانے کی امید، عملاً ایمان کے محاذ کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔
سیاسی بائیکاٹ، دشمن کی ولایت سے ممانعت
قرآن کی متعدد آیات میں مؤمنین سے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو اپنا ولی اور سہارا نہ بنائیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
"لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ" (2)
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ"، (3)
یہ آیات کریمہ واضح طور پر خبردار کرتی ہیں کہ دشمن پر انحصار ایمان کے راستے سے باہر ہو جانے کے مترادف ہے۔ ان آیات میں ولایت محض ذاتی دوستی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس میں سیاسی، سیکورٹی اور فیصلہ سازی کے حوالے سے دشمن کی مرجعیت اور قیادت قبول کرنا، بھی شامل ہے۔ اس نقطہ نظر سے، دشمن کا سیاسی بائیکاٹ ایک وقتی اور تاکتیکی انتخاب نہیں، بلکہ امت کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے کا قرآنی فریضہ ہے۔
معاشی بائیکاٹ، دشمن کی طاقت کی شریانیں کاٹنا
معیشت دشمن کی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور قرآن نے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا۔ سورہ نساء کی آیت 141 ایک بڑا اصول پیش کرتی ہے: اللہ کافروں کو مؤمنین پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہر قسم کا معاشی تعلق جو دشمن کی مضبوطی اور امت کی وابستگی کا باعث بنے، عملاً اس قرآنی اصول کی خلاف ورزی ہے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے، دشمن کو رقم ادا کرنا، چاہے وہ عام تجارت کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، باطل کے محاذ کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ دشمن کا معاشی بائیکاٹ محض ایک سیاسی اقدام نہیں، بلکہ غلبہ روکنے کے لیے امت کے جہاد کا حصہ ہے۔
اطاعت نہ کرنا، ثقافتی اور ابلاغی بائیکاٹ کا مرکزہ
قرآن میں بائیکاٹ صرف خرید و فروخت بند کرنے تک محدود نہیں۔
اللہ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو کافروں اور منافقوں کی اطاعت سے منع کرتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: "وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ"۔ (4) یہ اطاعت فکری، ثقافتی یا ابلاغی ہو سکتی ہے۔ دشمن اس وقت فتح یاب ہوتا ہے جب اس کا بیانیہ قبول کر لیا جائے اور اس کا تجزیہ معیار بن جائے۔
سورہ فرقان کی آیت 52 ایک قدم اور آگے بڑھاتی ہے اور قرآن کی رو سے بڑے جہاد کی بات کرتی ہے،: ارشاد ہوتا ہے "فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا" (5) یہ وہ جہاد ہے جس کو آج فعال ابلاغیاتی سرگرمیوں، ثقافتی مقابلہ اور دشمن کے بیانیے کا بائیکاٹ، قرار دیا جا سکتا ہے۔
سماجی حد بندی، برائت کے بغیر ایمان ممکن نہیں
بائیکاٹ کے معاملے میں سب سے واضح آیات میں سے ایک سورہ مجادلہ کی آیت 22 ہے؛ جہاں قرآن اعلان کرتا ہے:
"لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ" (6)
یعنی یہ کہ "ایمان کا اللہ کے دشمنوں سے دوستی اور ان کی صف ميں شمولیت کے ساتھ یکجا ہو ہی نہیں سکتا، چاہے بیچ میں باہمی رشتہ داری کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔ یہ آیت دشمن سے تعلق کے ہر جذباتی جواز کو رد کرتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ برائت سماجی ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ سماجی بائیکاٹ کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کو امت کی روزمرہ زندگی میں معمول کے جائز عنصر کے طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔
ابراہیمی نمونہ، کھلا اور بہادرانہ بائیکاٹ
ارشاد ہوتا ہے:
قرآن کریم دشمن کے بائیکاٹ کے لئے عملی نمونہ بھی پیش کرتا ہے۔ سورہ ممتحنہ کی آیت 4 میں حضرت ابراہیم اور ان کے پیرو واضح طور پر مشرک قوم سے برائت کا اعلان کرتے ہیں؛ ارشاد ہوتا ہے:
"قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ"۔ (7)
یہ برائت خفیہ یا کم از کم نہیں ہے؛ بلکہ کھلی، واضح اور بلا لحاظ ہے۔ یہ آیت عیاں کرتی ہے کہ مؤثر بائیکاٹ وہ ہے جو اجتماعی، شفاف اور جامع ہو۔ دشمن کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ امت کی طرف سے مردود و مسترد ہے۔
قرآن کا تاریخی تجربہ، دشمن کی شکست اندر سے
قرآن تاریخی کہانیوں میں بار بار بیان کرتا ہے کہ امت کے دشمن اس وقت شکست کھا گئے جب ان کے نفوذ اور اثر و رسوخ کا راستہ بند ہو گیا۔ فرعون، نمرود اور دیگر طاغوت اس وقت گر گئے جب وہ مؤمنین کے معاشرے پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ اس کے برعکس، جہاں بھی امت دوغلی پالیسی، وابستگی یا مصالحت کا شکار ہوئی، شکست سے دوچار ہوئی۔ اس تاریخی تجربے کا پیغام واضح ہے: فتح اتحاد اور دشمن سے تعلق ختم کرنے کا پھل ہوتی ہے، نہ کہ اس کے ساتھ جینے اور رہنے کا۔
قرآن کے منطق میں دشمن پر فتح پانے کی راہ متعینہ راستے سے گذرتی ہے؛ یعنی مؤمنین کے محاذ کا مکمل اتحاد، دشمن کی سرپرستی ختم کرنا، معاشی بائیکاٹ، فکری اور ثقافتی عدم اطاعت، اور واضح سماجی حد بندی۔ قرآن میں بائیکاٹ ایک عارضی عمل یا وقتی رد عمل نہیں، بلکہ امت کی عزت و عظمت اور آزادی و خودمختاری کے تحفظ کے لئے ایک مستقل حکمت عملی ہے۔ جہاں بھی یہ حکمت عملی اجتماعی سطح پر اور جامع انداز سے نافذ ہوئی، دشمن کمزور ہؤا، اور جہاں بھی اسے نظر انداز کیا گیا، امت کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں مت پڑو" (آل عمران - 103)
2۔ مسلمان مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں، اور جو کوئی یہ کام کرے اسے اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔" (آل عمران، آیت 28)
3۔ اے ایمان والو! مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (سورہ نساء، آیت 144)
4۔ اور کفار اور منافقین کا کہنا نہ مانیے۔ (سورہ احزاب، آیت 48)
5۔ تو كافروں کیا اطاعت نہ کرنا، اور [قرآنی تعلیمات کی رو سے] اے خلاف زور دار جہاد کیجئے۔ (سورہ فرقان، آیت 52)
6۔ آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگو ں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں گو کہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ (سورہ مجادلہ، آیت 22)
7۔ ے شک تمہارے لئے ابراہیم میں اچھا نمونہ ہے اوران لوگوں میں جو اس کے ہمراہ تھے، جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا بے شک ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، ہم نے تمہارا انکار کر دیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور بیر ہمیشہ کے لئے ظاہر ہوگیا یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاؤ۔ (سورہ ممتحنہ، آیت 4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: تحریر: مہدی احمدی
ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ