6 دسمبر 2025 - 13:52
ام البنین سلام الله علیها کی زندگی اور شخصیت پر ایک نگاہ

جناب فاطمہ بنت حزام المعروف بہ 'ام البنین' (سلام اللہ علیہا) (وفات 64 ہجری) امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کی زوجہ اور حضرت عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان (علیہم السلام) کی والدہ ہیں۔ [۔۔۔]

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || جناب فاطمہ بنت حزام المعروف بہ 'ام البنین' (سلام اللہ علیہا) (وفات 64 ہجری) امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کی زوجہ اور حضرت عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان (علیہم السلام) کی والدہ ہیں۔ ان کے چاروں بیٹے عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔ کربلا کے واقعے کے بعد، ام البنین روزانہ جنت بقیع جایا کرتی تھیں اور امام حسین (علیہ السلام) اور آپؑ کے فرزندوں کے لئے ماتم و عزا کا اہتمام کرتی تھیں۔

مزار ام‌البنین در قبرستان بقیع

شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں مقام

شیعہ علماء نے ام البنین کی شجاعت، فصاحت اور اہل بیت (علیہم السلام) بالخصوص امام حسین (علیہ السلام) سے والہانہ محبت کی تعریف کی ہے۔ [1] اور انھیں نیک اور بلند مرتبہ قرار دیا ہے۔ دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید ثانی اور شیعہ مقتل نگار سید عبدالرزاق مقرم (وفات 1391 ہجری) کے مطابق، ام البنین کو خاندانِ نبوی سے شدید محبت تھی اور انھوں نے خود کو ان کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اہل بیت (علیہم السلام) بھی ان کا خصوصی احترام کرتے تھے اور عید کے دن ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ [2] شیعہ تاریخ دان باقر شریف قرشی (وفات 1433 ہجری) نے بھی کہا ہے کہ تاریخ میں ام البنین جیسی کوئی عورت نہیں دیکھی گئی جس نے اپنے شوہر کی دوسری بیوی کے بچوں کے ساتھ ایسی خالص محبت کی ہو اور انہیں اپنے اپنے بچوں پر ترجیح دی ہو۔ [3]

سید محمود حسینی شاہرودی (وفات 1394 ہجری) نے کہا ہے کہ "میں مشکلات میں جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے لئے سو مرتبہ صلوات بھیج کر حاجت مانگتا ہوں"۔ [4] کچھ روایات کے مطابق، ایرانی خواتین اپنی حاجت برآری اور صبر و تحمل کی قوت بڑھانے کے لئے جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) سے توسل کرتی ہیں اور ان کے نام پر نیاز کا اہتمام کرتی ہیں۔ [5] نیز بعض شیعہ علاقوں میں "سفره مادر حضرت ابوالفضل" (مادر حضرت ابو الفضل العباس کا دسترخوان) یا "سفره ام البنین" (ام البنین کا دسترخوان) کے نام سے نیاز کا رواج ہے۔ [6]

ایران میں، 13 جمادی الثانی، ـ جو جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کی تاریخ وفات ہے، ـ کو "روز تکریم مادران و ہمسران شہدا" (شہیدوں کی ماؤں اور زوجات کی تعظیم کا دن) کے طور پر سرکاری تقویم میں شامل کیا گیا ہے۔

جنة البقیع

تعارف اور نسب

حضرت عباس (علیہ السلام) کے ننھیالی آباء و اجداد میں بھی عرب کے نامور پہلوانوں کے نام ملتے ہیں جو عرب میں اعلیٰ شہرت رکھتے تھے۔ عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب ملقب بہ "مُلاعبُ الأَسنّةِ" (نیزوں سے کھیلنے والا)، حضرت عباس (علیہ السلام) کے ننھیالی اجداد میں سے ہیں۔ جن کے بارے میں جاہلی دور کے مشہور شاعد "اوس بن حجر" نے کہا ہے:

یُلاَعِبُ اَطْرَافَ الاْسِنَّةِ عَامِرٌ

فَرَاحَ لَهُ حَظُّ الْکَتَائِبِ اَجْمَعِ

عامر، نیزوں کو بازیچہ بنا دیتا ہے

چنانچہ وہ تنہائی میں بھی ایک لشکر جتنا طاقتور ہے۔ [7]

جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) قبیلہ بنی کلاب سے تھیں۔ ان کے والد حزام بن خالد یا حرام بن خالد تھے [8] اور ان کی والدہ لیلا یا ثمامہ بنت سہل بن عامر بن مالک تھیں۔ [9] مورخین کے مطابق، قبیلہ بنی کلاب بہادری، جوانمردی، شجاعت اور اخلاقی محاسن کے لئے مشہور تھا اور یہی بات امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کی جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ شادی کا سبب بنی۔ [10]

ام البنین سلام الله علیها کی زندگی اور شخصیت پر ایک نگاہ

ولادت

جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کی تاریخ ولادت اور وفات کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ تاریخی شواہد کی بنیاد پر بعض نے ان کی ولادت 5 سے 9 ہجری کے درمیان بتائی ہے۔ [11]

حضرت امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے شادی

سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد، امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) نے بھائی عقیل سے، ـ جو عرب نسب شناس تھے ـ سے مشورہ کیا کہ  ایسی زوجہ کا انتخاب کیا جائے جو شریف اور بہادر خاندان سے ہو اور جو بہادر اور جنگجو بچوں کی ماں بنے۔ عقیل نے فاطمہ بنت حزام کا نام تجویز کیا اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے ان سے شادی کی۔ [12] جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) نے حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے شادی کرنے سے پہلے کسی اور سے شادی نہیں کی تھی۔ [13]

اس میں اختلاف ہے کہ جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بعد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی دوسری یا تیسری زوجہ تھیں۔ [14] بعض تاریخی روایات کے مطابق امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد آپۜ ہی کی وصیت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی نواسی اَمامہ بنت ابی العاص سے شادی کی۔ [15] تاہم، امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک روایت کی بنیاد پر جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے بعد امام علی (علیہ السلام) کی پہلی زوجہ تھیں۔ [16] کچھ راویوں کا خیال ہے کہ چونکہ جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے پہلے فرزند کی ولادت 26 ہجری میں ہوئی، اس لئے شادی 23 ہجری سے پہلے ہوئی ہوگی، جبکہ بعض سالِ شادی 13 یا 16 ہجری بتاتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ شادی اور ان کے سب سے بڑے بیٹے حضرت عباس (علیہ السلام) کی ولادت میں دس سال کا فاصلہ تھا۔ [17]

ام البنین کا لقب

کہا جاتا ہے کہ شادی کے کچھ عرصے بعد، جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) نے امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام "فاطمہ" سے نہ پکاریں، تاکہ حسنین (علیہما السلام) فاطمہ نام سن کر اپنی ماں کو یاد نہ کریں۔ اس لئے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) انہیں "ام البنین" (بیٹوں کی ماں) کا لقب عطا کیا اور انہیں اسی لقب سے پکارا کرتے تھے۔ [18]

اولاد

جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے چار بیٹے تھے: عباس بن علی (علیہ السلام)، عبداللہ بن علی(علیہ السلام)، جعفر بن علی (علیہ السلام) اور عثمان بن علی (علیہ السلام)۔ [19]

سہل بن عبداللہ بخاری کے نقل کے مطابق، جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) نے امام علی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی۔ [20]

بیٹوں کی شہادت کی خبر پر ردعمل

جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) واقعہ کربلا میں موجود نہیں تھیں، لیکن ان کے چاروں بیٹے عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔ [21] جب کربلا کے اسیروں کا قافلہ مدینہ پہنچا اور انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو انھوں نے امام حسین (علیہ السلام) کا حال پوچھا؛ جب انہیں امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو انھوں نے کہا: "کاش! میرے بیٹے اور زمین کی ہر چیز حسین (علیہ السلام) پر قربان ہو جاتی اور وہ زندہ رہتے۔" یہ قول ان کی اہل بیت (علیہم السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) سے گہری وابستگی کی دلیل ہے۔ [22]

بیٹوں کے لئے عزاداری

مقاتل الطالبیین کے مطابق، جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کو اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر ملنے کے بعد، وہ روزانہ اپنے پوتے عبیداللہ بن عباس کے ساتھ جنت بقیع جایا کرتی تھیں اور وہاں اپنے کہے ہوئے مرثیے پڑھ کر بین کرتی تھیں۔ اہلیان مدینہ ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور ان کے ساتھ روتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ مدینہ کا حاکم مروان بن حکم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جاتا تھا۔ [23]

معروف ہے کہ جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) ادیبہ، شاعرہ، علم و فضل اور دانش کی حامل تھیں [24] ان سے، اپنے فرزند حضرت عباس (علیہ السلا) کی عزا میں مندرجہ ذیل مرثیے نقل ہوئے ہیں:

يَا مَنْ رَأَي الْعَبَّاسَ كَرَّ عَلَي جَمَاهِيرِ النَّقَدِ

اے وہ جس نے عباس کو وہ پست فطرت کمینوں کے گروہوں پر حملہ کرتا دیکھا ہے

وَوَرَاهُ مِنْ أَبْنَاءِ حَيْدَرَ كُلُّ لَيْثٍ ذِي لَبَدٍ

جبکہ اس کی پشت پر حیدر کی اولاد میں سے ہر بہادر شیر ہوتا تھا

أُنْبِئْتُ أَنَّ ابْنِي أُصِيبَ بِرَأْسِهِ مَقْطُوعَ يَدٍ

مجھے خبر پہنچی کہ میرے بیٹے کے سر پر ضرب لگی حالانکہ اس کا ہاتھ کٹا ہؤا تھا

وَيْلِي عَلَي شِبْلِي أَمَالَ بِرَأْسِهِ ضَرْبُ الْعَمَدِ

افسوس ہے میرے شیر کے بچے پر کہ جس کے سر کو عمود (لاٹھی) کے وار نے مائل کر دیا تھا

لَوْ كَانَ سَيْفُكَ فِي يَدِيْكَ لَمَا دَنَا مِنْهُ أَحَدٌ [25]

اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو یقینا ان میں سے کوئی بھی تیرے قریب آنے کی جرات نہ کرتا

*****

لا تَدْعُوِنِّي وَيْكِ أُمَّ الْبَنِينَ تُذَكِّرِينِي بِلِيُوثِ الْعَرِينِ

وائے ہو تم پر، مجھے مزید ام البنین (بیٹوں کی ماں) مت کہنا، کہ تم مجھے جنگل کے شیروں کی یاد دلا رہی ہو

كَانَتْ بَنُونَ لِي أُدْعَى بِهِمْ وَ الْيَوْمَ أَصْبَحْتُ وَلا مِنْ بَنِينَ

میرے کچھ بیٹے تھے جن کی خاطر مجھے اُم البنین (بیٹوں کی ماں) کہا جاتا تھا لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے

أَرْبَعَةٌ مِثْلُ نُسُورِ الرُّبَى قَدْ وَاصَلُوا الْمَوْتَ بِقَطْعِ الْوَتِينِ

چار بیٹے جو پہاڑی عقابوں کی طرح تھے اور یکے بعد دیگرے، رگ حیات کٹنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا گئے

تَنَازَعَ الْخِرْصَانُ أَشْلاءَهُمْ فَكُلُّهُمْ أَمْسَى صَرِيعا طَعِينَ

ان کی لاشوں پر نیزے آپس میں جھگڑ پڑے اور وہ سب نیزوں کے زخموں سے خاک پر گر پڑے

يَا لَيْتَ شِعْرِي أَ كَمَا أَخْبَرُوا بِأَنَّ عَبَّاسا قَطِيعُ الْيَدَينِ [26]

کاش! میں جانتی کہ ـ جیسا کہ مجھے خبر دی گئی ہے، ـ کیا میرے عباس کا دایاں ہاتھ واقعی کٹا ہؤا تھا؟!

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) ان اشعار کے بارے میں فرماتے ہیں: "میں، بطور مثال، سمجھتا ہوں کہ حضرت ابوالفضل العباس (علیہ الصلاۃ والسلام) کے مصائب کے سلسلے میں، ایک اہم اور شاندار حصہ، جو اس مصیت کو بیان کرتا ہے، حضرت ابوالفضل (علیہ السلام) کی والدہ کی زبان حال ہے؛ وہی "لا تَدْعُوِنِّي وَيْكِ أُمَّ الْبَنِينَ" اور ایک دوسرا مرثیہ جو ان سے منسوب ہے"۔ [27]

یَک موضُوعی رسائل (Monograph)

• "ستارہ درخشانِ مدینہ" (مدینہ کا چمکتا ہؤا ستارہ) ایک کتاب ہے جو علامہ علی ربانی خلخالی نے جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں لکھی ہے۔ قم میں "مکتب الحسین(ع)" پبلکیشن نے اس کتاب کو نومبر 1999ع‍ میں شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ سید علی جمال اشرف نے "أُم البنین، النجم الساطع فی مدینۃ النبی الأمین(ص)" کے نام سے قم ہی کے "دارالکتاب اسلامی پبلکیشنز" سے سنہ 2003ع‍ میں شائع کیا ہے۔ [28]

• کتاب "ام البنین درآینه شعر" (ام البنین شعر کے آئینے میں) "محمد خرم فر" نے تالیف کی ہے جس کے دیباچے میں جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کے حالات زندگی اور کرامات کو بیان کیا گیا ہے۔ "دلیل ما" پبلکیشنز، قم 1395 ہجری شمسی۔

• کتاب "زندگی حضرت ام البنین و کرامات آن بانو" (جناب ام البنین کی زندگی اور کرامات) نامی کتاب "اشرف زہیری جعفری، نے لکھی ہے جس کا فارسی ترجمہ "سید حسین محفوظی موسوی"۔ نے کیا ہے۔ "دلیل ما" پبلکیشنز، قم۔

وفات

بعض مؤرخین نے جناب ام البنین (سلام اللہ علیہا) کی تاریخ وفات، 13 جمادی الثانی 64 ہجری [29] اور بعض نے 18 جمادی الثانی 64 ہجری بتائی ہے۔ [30] مورخین کے مطابق، ان کی تدفین قبرستان بقیع میں ہوئی۔ [31]

ام البنین سلام الله علیها کی زندگی اور شخصیت پر ایک نگاہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابیات:

• آقاجانی قناد، علی، مادر فضیلت‌ہا، قم، مرکز پژوہش‌ہای صدا و سیما، 1382 ہجری شمسی۔،

• ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابہ، بیروت، دار الفکر، 1409 ہجری قمری/1989عیسوی۔

• ابن‌عنبہ، احمد، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، منشورات الشریف الرضی، 1381 ہجری قمری/1961 عیسوی۔

• اردوبادی، محمدعلی، موسوعۃ العلامۃ الاردوبادی، تحقیق السید محمد آل المجدد الشیرازی، کربلا، دار الکفیل، 1436 ہجری قمری۔

• اصفہانی، ابوالفرج اصفہانی|ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، بہ کوشش احمد صقر، قاہرہ، 1368 ہجری قمری /1949 عیسوی۔

• امّ البنین علیہاالسلام النّجم الساطع فی مدینۃ النبی الأمین، کتابخانہ مدرسہ فقاہت۔

• "أم البنین هل إنها امرأۃ عادیۃ وماحکم التوسل بها والتبرک بسفرتها"، العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، تاریخ اندراج: 12 مارچ 2017عیسوی۔

• بخاری، سہل بن عبداللہ، سرّالسلسلۃ العلویۃ، قم، چاپخانہ نہضت۔

• بلوک باشی، علی، "ام البنین در فرہنگ عامہ"، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج10، تہران، مزکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1380 ہجری شمسی۔

• "چطور بہ حضرت ام البنین متوسل شویم؟"، (حضرت ام البنین سے کس طرح توسل کریں؟)، باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ اندراج: 3 مئی 2019 عیسوی۔

• حسون، محمد و ام علی مشکور، اعلام النساء المؤمنات، تہران، 1411 ہجری قمری۔

• دُخَیّل، علی محمد علی، العباس بن امیرالمؤمنین علیہ السلام، بیروت، مؤسسۃ اہل البیت، 1401 ہجری قمری۔

• ربانی خلخالی، علی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس، قم، مکتب الحسین، 1376  ہجری شمسی۔

• ربانی خلخالی، علی، ستارہ درخشان مدینہ؛ حضرت ام البنین (سلام اللہ علیہا) ہمسر باوفای امیر المومنین (علیہ السلام)، قم، مکتب الحسین، 1378  ہجری شمسی۔

• زجاجی کاشانی، مجید، سقای کربلا، تہران، نشر سبحان، 1379  ہجری شمسی۔

• زہیری، داود بن عبد اللہ بن أبی الکرام الجعفری، السیدۃ أم البنین (سلام اللہ علیہا) سیرتہا - کراماتہا، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بیروت، طبع اول، 2006 عیسوی۔

• "سفرۃ أم البنین مجربۃ"، منتدی الکفیل، تاریخ اندراج: 23 مارچ 2016 عیسوی۔

• شبر، جواد، أدب الطف أو شعراء الحسین علیہ السلام من القرن الأول الہجری حتی القرن الرابع عشر، بیروت، دارالمرتضی، 1409 ہجری قمری۔

• شریف القرشی، ش،العباس بن علی، ترجمہ سید حسن اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1386  ہجری شمسی۔

• طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، الطبعۃ الثانیۃ، 1387 ہجری قمری/1967 عیسوی۔

• کلباسی، محمدابراہیم، خصائص العباسیہ، تحقیق و ترجمہ محمد اسکندری، تہران، انتشارات صیام، 1387  ہجری شمسی۔

• محلاتی، ذبیح‌اللہ، ریاحین الشریعۃ، تہران، 1364  ہجری شمسی۔

• محمودی، عباسعلی، ماہ بی‌غروب؛ زندگی‌نامہ ابوالفضل العباس، تہران، فیض کاشانی، 1379  ہجری شمسی۔

• مظفر، عبدالواحد، موسوعۃ بطل العلقمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1429ہجری قمری/2000 عیسوی۔

• مقرم، سید عبد الرزاق، مقتل الحسین (علیہ السلام) أو حدیث کربلاء، بیروت، انتشارات مؤسسۃ الخرسان للمطبوعات، 1426 ہجری قمری۔

• مقرم، عبدالرزاق، قمر بنی ہاشم، نجف، 1369 ہجری قمری /1950 عیسوی۔

• وفات حضرت ام البنین(س) روز مادران و ہمسران شہدا نامگذاری شد، خبرگزاری دفاع مقدس، تاریخ اشاعت: 31 فروردین 1392  ہجری شمسی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:


[1]۔ دُخَیّل، محمد بن علی، االعباس بن امیرالمؤمنین علیہ السلام، 1401 ہجری قمری، ص18۔

[2]۔ ربانی خلخالی، علی، ستارہ درخشان مدینہ حضرت ام البنین، 1378 ہجری شمسی، ص7؛ مقرم، قمر بنی‌ہاشم، 1369 ہجری قمری، ص18۔

[3]۔ شریف القرشی، باقر، العباس بن علی، 1386 ہجری شمسی، ص28۔

[4]۔ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس(ع)، 1376 ہجری شمسی، ج1، ص464۔

[5]۔ بلوک باشی، علی، "ام البنین در فرہنگ عامہ"، ص186–188۔

[6]۔ بلوک باشی، "ام البنین در فرہنگ عامہ"، ص186–188۔

[7]۔ الاغانی الاصبہانی، ابوالفرج، الاغانی، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، ج15، ص50۔

[8]۔ مظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، 1429 ہجری قمری، ج1، ص100؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، 1387 ہجری شمسی، ص63۔

[9]۔ ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب، 1381 ہجری قمری، ص356۔

[10]۔ مسعودی، مروج الذہب، 1374 ہجری شمسی، ج2، ص67۔

[11]۔ آقاجانی قناد، مادر فضیلت‌ہا، (فضیلتوں کی ماں) 1382 ہجری شمسی، ص20 ہجری شمسی۔

[12]۔ ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، 1381 ہجری قمری، ج1، ص357۔

[13]۔ دیکھئے: "اردوبادی، موسوعۃ العلامۃ الاردوبادی"، 1436 ہجری قمری، ج7، ص47–49۔

[14]۔ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، 1379، ص83۔

[15]۔ دیکھئے: ابن‌اثیر، اسدالغابہ، 1409 ہجری قمری، ج6، ص22۔

[16]۔ کلباسی، خصائص العباسیہ، 1387 ہجری شمسی، ص65۔

[17]۔ محمودی، ماہ بی‌غروب، 1379 ہجری شمسی، ص31؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، 1379 ہجری شمسی، ص89۔

[18]۔ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، 1376 ہجری شمسی، ج1، ص69۔

[19]۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387 ہجری قمری، ج5، ص153۔

[20]۔ بخاری، سرّ السلسلۃ العلویۃ، ص88۔

[21]۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387 ہجری قمری، ج5، ص153۔

[22]۔ حسون، اعلام النساء، 1411 ہجری قمری، ص496–497؛ محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1364 ہجری شمسی، ج3، ص293؛ دیکھئے: دخیل، العباس، 1401 ہجری قمری، ص18۔

[23]۔ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1368 ہجری قمری، ص85۔

[24]۔ حسون، اعلام النساء، 1411 ہجری قمری، ص496–497۔

[25]۔  شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، 1409 ہجری قمری، ج1، ص71۔

[26]۔ شبر، ادب الطف، دارالمرتضی، 1409 ہجری قمری، ج1، ص71؛ محلاتی، ریاحین الشریعہ، 1364 ہجری شمسی، ج3، ص294۔

[27]۔ مذہبی شعراء کے اجتماع سے خطاب، 15 جون 2011ع‍

[28]۔ امّ البنین علیہا السلام النّجم الساطع فی مدینۃ النبی الأمین، کتابخانہ مدرسہ فقاہت۔

[29]۔ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، 1376 ہجری شمسی، ج2، ص76۔

[30]۔ زہیری، أم البنین سیرتہا و کراماتہا، (ام البنین؛ سیرتیں اور کرامتیں) 2006عیسوی، ص169–170۔

[31]۔ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم (قمر بنی ہاشم کا چمکتا ہؤا چہرہ)، 1376 ہجری شمسی، ج2، ص76۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha