24 نومبر 2025 - 11:30
شہادت سے شبہات تک کا 1400 سالہ فاصلہ

تقریبا 1400 سال قبل ایک خاتون کو ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے ان کی شہادت واقع ہوئی؛ لیکن بسر اوقات نے  اس واقعے کو حقیقت سے دور کر دیا اور اس واقعے کو شکوک و شبہات سے دوچار کر دیا۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || یہ شہیدہ خاتون پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی تھیں، لیکن زمانے کی مکاریوں اور دشمنوں سے محفوظ نہیں رہیں، اور اپنے والد کے یوم شہادت کے ایک مختصر عرصہ بعد، ایک ایسی خاتون بن گئیں جنہیں 1400 سال قبل ایک ایسے واقعے سے گذرنا پڑا جو ان کی شہادت پر منتج ہؤا؛ لیکن بسر اوقات نے اس واقعے کو حقائق سے دور کردیا اور اسے شکوک و شبہات سے دوچار کردیا؛ جنہیں بہت سے مواقع پر ـ غلطی سے ـ درست سمجھا گیا۔

شہادت سے شبہات تک کا 1400 سالہ فاصلہ

اس انٹرویو میں سیرت اہل بیتؑ کے شعبے کے محقق اور مصنف حجت الاسلام "حمید سبحانی صدر" سے اس واقعے کی اہمیت اور اس میں پیدا کئے جانے والے شکوک و شبہات سے بچنے کی ضرورت کے بارے میں بات چیت کا اہتمام کیا گیا ہے:

تاریخِ اسلام کا تحقیقاتی سفر

فارس: براہِ کرم ہمارے صارفین سے اہل بیت (علیہم السلام) بالخصوص حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی زندگی کے بارے میں اپنے مطالعے اور تحقیق کا تعارف کروائیں۔

شہادت سے شبہات تک کا 1400 سالہ فاصلہ

سبحانی صدر: میں نے سنہ 2000ع‍ کی دہائی کے وسط میں اہل بیت (علیہم السلام) کی زندگی پر تاریخی تحقیق کا آغاز کیا اور سنہ 2008ع‍ میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں اپنی پہلی کتاب "اسرارِ فاطمیہ" شائع کر دی؛ کتاب شائع ہونے کے بعد میں نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی زندگی پر تحقیق اور تحریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2010ع‍ کی دہائی کے اوائل میں میں نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے موضوع پر دوبارہ کتاب "اٹھارہ سالہ" لکھی۔ کئی سال بعد میں نے کتاب "أماہ" کو شائع کیا۔

شہادت سے شبہات تک کا 1400 سالہ فاصلہ

ان کاموں کے موقع پر میں نے اہل بیت (علیہم السلام) کی تاریخ اور سیرت پر دوسری کتابوں کا ایک سلسلہ بھی لکھا؛ جیسے: "در محاصرہ احزاب" (احزاب کے محاصرے میں)، "راہبردِ اقتصادی پیامبر(ص)" (پیغمبر(ص) کی اقتصادی حکمت عملی)، "پس از چہل سال" (چالیس سال بعد)، اور "روایتِ تولید" (پیداوار کی داستان)؛ نیز خدا کے فضل سے میں نے سیرت نگاری اور تذکرہ نویسی، اور معاصر تاریخ کے موضوع پر کئی کتابیں لکھیں جو شائع ہو چکی ہیں۔

ایک حقیقت پر تاریخی شکوک

فارس: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بارے میں تاریخی منابع میں کتنی روایتیں ہم تک پہنچی ہیں؟ براہ کرم ہمیں سب سے زیادہ مستند اور معتبر روایت بیان کریں۔

سبحانی صدر: حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت اور وقتِ شہادت کے بارے میں دو روایات مشہور ہیں۔ یہ روایات کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی وفات کے 75 یا 95 دن بعد شہید ہوئیں۔ اور شاید ہم کہہ سکیں کہ اس فرق کی بنیادی وجہ دو الفاظ سبعین اور تسعین ہیں۔ سبعین کا مطلب 70 اور تسعین کا مطلب 90 ہے۔ لیکن چونکہ ماضی میں ان دونوں الفاظ کے اوپر نقطے نہیں تھے، چنانچہ اسی وجہ سے ان دو اعداد کا اختلاف پیش آیا تھا۔ اور شاید دوسری روایات پر توجہ نہ دی جا سکے۔ البتہ اہل سنت کے پاس ایک اور روایت ہے کہ آپۜ کی وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے چھ ماہ بعد ہوئی، جو شیعہ علماء کے ہاوں قابل قبول نہیں ہے۔

شہادت سے شبہات تک کا 1400 سالہ فاصلہ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے 75 یا 95 دن بعد کی یہ تشریح بھی اس تاریخ پر منحصر ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت ہوئی؛ کیونکہ اس جزو میں بھی اختلاف ہے، ایک تاریخ 28 صفر ہے جو شیعہ علماء کے ہاں مشہور و مقبول ہے؛ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ ابتدائے ربیع الاول کو رونما ہؤا ہے [دو، چار دن بعد]، لیکن ان دو آراء کی رو سے زیادہ سے زیادہ 75 یا 95 دن بنتے ہیں، شیعہ علماء میں 95 دن زیادہ مشہور ہیں۔

افواہیں جو خرافات بن گئیں

فارس: حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بارے میں لوگوں میں پھیلنے والی اہم ترین افواہیں کیا ہیں جن کی آپ تردید کرتے ہیں؟

سبحانی صدر: وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے ابتدائی دور کے تاریخی واقعات ـ منجملہ شہادتِ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور ان پر گذرنے والے واقعات، نیز واقعۂ کربلا ـ کے بارے میں ذوقیہ اور شاعرانہ خیالات اور حکایات موجود ہیں۔ اگر میں مثال دوں تو وہ گلی اور سیدہۜ کو لگنے والے زخموں اور اس گلی میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے زخمی ہونے کا واقعہ ہے۔

شاید بہت سے لوگوں نے سوچا ہو کہ اگر وہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے دروازے پر آئے اور ان کے گھر پر دھاوا بول دیا تو پھر مجالس میں جن گلیوں کا تذکرہ ہے وہ کیا ہے؟

بہت سے معززین جو اس مجلس کو پڑھتے ہیں انہیں شاید اس دوئیت کا احساس نہ ہو۔ لیکن جو نکتہ کہنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جو کچھ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے طور پر پیش آیا یا؛ یوں کہہ لیں کہ ضربوں اور چوٹوں جیسے واقعات سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر پر حملے کے وقت پیش آئے اور یہ گھر بھی اس طرح تھا کہ اس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا؛ خلیفہ کا مقام اور وہ مقام جہاں وہ مسندِ خلافت کے پر بیٹھے تھے وہ بھی مسجد کے اندر تھا، چنانچہ گلی میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی موجودگی کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔

مشکوک رپورٹس

البتہ شیخ مفید سے منسوب کتاب "الاختصاص" میں ایک روایت ہے جس میں اسقاط حمل اور حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے چہرہ مبارک کو پہنچنے والے طمانچے کا ذکر ہے جب حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) فدک کا نامہ لینے گئی تھیں اور جب وہ واپس آئیں تو یہ تصادم ہؤا اور سقط حمل ہؤا۔ تو یہاں سقط حمل کا تذکرہ گھر کے دروازے کے پیچھے ہونے والے سقط حمل کی روایت کے موافق نہیں ہے۔ تو ان دو باتوں میں سے ایک درست ہوگی۔ لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ روایت اس کتاب سے منسوب ہے، لوگوں کے درمیان قابل قبول واقع ہوئی ہے، گوکہ شاید اسے قبول نہ کیا جا سکے۔

مختصر یہ کہ وہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر پہنچے اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ہتھکڑی لگا کر لے گئے اور ان میں سے کوئی بھی واقعہ گلی میں رونما نہیں ہؤا؛ وہ امام علی (علیہ السلام) کو مسجد کے اندر سے خلیفہ کے منبر تک لے گئے۔ اس وجہ سے یہ مسئلہ ان صورتوں میں سے ایک ہے جو غلط طریقے سے پھیل گیا ہے۔

سیرت کے مسئلے میں بھی اس طرح کی نادرست ذہنیتیں معرض وجود میں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے لباس اور حجاب کی نوعیت۔ تو اس حوالے سے بھی صریح اور واضح روایات ہم تک نہیں پہنچی ہیں، حالانکہ عام خیال یہ ہے کہ آپۜ اپنا چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں، ہم اس سے انکار نہیں کرنا چاہتے، لیکن یہ تاثر بھی مکمل نہیں ہے۔

یا یہ تاثر کہ سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب راستے پر چلتی تھیں تو اپنے پاؤں اپنی چادر کے کناروں پر رکھ دیتی تھیں تاکہ آپۜ کا حجاب مکمل ہو۔ خیر یہ بھی منطقی اور معقول نہیں ہے اور اس کی تشریح کسی اور طرح سے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی زندگی میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن سے لئے گئے مطلب میں کچھ خطا اور ابہام پایا جاتا ہے؛ اور میں نے ان میں سے بعض کو کتاب "أماه" میں سیدہۜ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سیرت سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رپورٹ: محترمہ حنان سلیمی

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha