اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، امریکی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے سال 2025 کے اوائل میں غربِ اردن کے تین پناہ گزین کیمپوں سے دسیوں ہزار فلسطینیوں کو زبردستی بےدخل کیا، جو کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرم اور جرمِ ضدِ بشریت ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس اقدام کے ذمہ دار اسرائیلی حکام کے خلاف فوری طور پر بین الاقوامی کارروائی کی جائے اور اس طرح کی پالیسیوں کو روکا جائے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنین، طولکرم اور نورالشمس کے کیمپوں سے تقریباً 32 ہزار فلسطینی اسرائیلی فورسز کی جانب سے ’’آپریشن آئرن وال‘‘ کے دوران اور زمستان 1403 کے ابتدائی مہینوں میں جبری طور پر بےدخل کیے گئے۔
ہیومن رائٹس واچ کی 105 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان آوارہ فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی اجازت نہیں دی جا رہی اور سیکڑوں مکانات کو مسمار کیا جا چکا ہے۔
اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز (28 آبان) رائٹرز کو بھیجے گئے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ غیر عسکری انفراسٹرکچر کو اس لیے تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ مسلح گروہ اس کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ تاہم فوج نے یہ واضح نہیں کیا کہ بےگھر کیے گئے فلسطینی کب اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔
بین الاقوامی قانون، خاص طور پر جنیوا کنونشنز، کے مطابق کسی بھی مقبوضہ علاقے کی عام آبادی کو جبری طور پر منتقل کرنا ممنوع ہے، الاّ یہ کہ اس کی مدت عارضی ہو اور ناگزیر فوجی ضرورت کے تحت ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس حوالے سے ذمہ دار اعلیٰ حکام کو جنگی جرائم اور جرائمِ ضدِ بشریت کے تحت قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی فورسز نے غربِ اردن میں تقریباً ایک ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا ہے، بغیر ٹرائل کے گرفتاریاں بڑھا دی ہیں، گھروں کی مسماری تیز کی ہے اور یہودی آبادکاری کے منصوبوں کو مزید وسعت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادکاروں کے تشدد اور حراست میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ رواں سال کے اوائلِ پاییز میں آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا اور کم از کم 264 حملے ریکارڈ کیے گئے، جو کہ 2006 سے اب تک ماہانہ بنیاد پر سب سے زیادہ تعداد ہے۔
آپ کا تبصرہ